استقبال رمضان المبارک۔۔۔خیرو برکت اور رضائے الٰہی کے حصول کا مہینہ!

    استقبال رمضان المبارک۔۔۔خیرو برکت اور رضائے الٰہی کے حصول کا مہینہ!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اللہ جل وعلا نے اپنے بندوں پر اس قدر الطاف و عنایات کی بارشیں برسائیں اور اتنی نعمتیں عطا فرمائیں کہ انسان ان کو قید ِتعداد سے مقید نہیں کرسکتا، کیوں کہ اللہ نے خود ارشاد فرمایا : اے میرے بندو! ہم نے تمہیں اتنی نعمتیں عطا کی ہیں کہ تم اگر پوری زندگی اس کو شمار کرنے میں لگادو تو بھی تم ان نعمتوں کو شمار نہیں کرسکتے۔جس پروردگار نے ہم پر اتنی نوازشیں کیں، اتنی کرم فرمائی کی آخر وہ مالکِ حقیقی! ہم سے کیا مانگتا ہے ؟تو معزز قارئین! اللہ رب العزت کو ہماری نمازوں کی کوئی ضرورت نہیں ، ہماری عبادات کی اس کو کوئی حاجت نہیں، وہ ہمارے روزے و حج و زکوٰةجیسی اعلیٰ ترین عبادتوں سے بھی بے نیاز ہے، کیوں کہ اس کی شانِ بے نیازی تو یہ ہے کہ قرآن میں فرماتا ہے:

"اے میری وحدانیت کے اقرار کرنے والو! میرے حبیب کی نبوت و رسالت کو ماننے والو! اگر تم میں سے کچھ لوگ دین سے پھر بھی جائیں اور اسلام چھوڑ کر مرتد ہوجائیں تو سنو! مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، میری شان تو یہ ہے کہ میں تم ہی میں سے ایسے افراد پیدا کردوں گا کہ جن سے میں محبت کروں گا اور وہ لوگ مجھ سے محبت اور میری اطاعت کریں گے"۔ جبھی تو اقبالؒ کہتے ہیں:

تو نہ مٹ جائے گا ایران کے مٹ جانے سے

نشہ_¿ مے کو تعلق نہیں میخانے سے

ہے عیاں یورشِ تاتار کے افسانے سے

پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے

اللہ جل وعلا کو ہماری بندگی کی کوئی حاجت نہیں ہے وہ تو بے نیاز ہے مگر پھر بھی فرماتا ہے: میرے بندو! میں نے جو تمہیں ہزاروں نعمتیں دی ہیں اگر تم 

 ان نعمتوں کا شکریہ بجا لاو_¿گے تو اس کا فائدہ بھی تمہیں ہی ہوگا میں تمھاری نعمت میں اور اضافہ کردوں گا اور اگر تم ناشکری کروگے تو یاد رکھنا میرا عذاب بہت سخت ہے۔میں نعمتیں دینا جانتا ہوں تو نعمتیں چھیننا بھی جانتا ہوں۔''

معزز قارئین! تو اللہ نے ہم سے کسی اور چیز کا مطالبہ نہیں کیا، ہم سے اپنی نعمتوں کے بدلے کچھ نہیں مانگا بلکہ صرف اتنا فرمایا کہ تم شکر کے سجدے بجا لانا، نعمت ِخداوندی پر اپنی نیاز مندی کی سوغات پیش کرنا۔اور نعمت ِالٰہی صرف یہی نہیں ہے کہ ہمیں اولاد ملے، دولت ملے، عزت و شہرت حاصل ہو بلکہ اللہ کی عظیم ترین نعمتوں میں یہ نعمتیں بھی مہتم بالشان ہیں جنہیں اللہ اپنے بندوں کی عبادت و ریاضت کرنے کے لیے کچھ مخصوص مہینے اور کچھ متعین راتیں عطا فرماتا ہے۔ ایک حدیث پاک میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :کچھ مخصوص ایام ہیں جن میں نفحات اٹھتے ہیں تو میرے بندو! اس کے حصول میں ہر درجہ کوشش کرنا، کسی بھی صورت میں یہ موقع فوت نہ ہونے پائے اور جو آدمی ان ایام ِمخصوصہ و لیالی متعینہ میں اللہ کی بارگاہ میں اپنی جبین ِنیاز کو جھکا کر جب اپنی نیاز مندی کا ثبوت پیش کرتا ہے تو اللہ اسے کبھی نامراد نہیں کرتا بلکہ وہ صاحب ِمراد ہوجاتا ہے۔

اے لوگو! اللہ نے تمھارے اوپر احسانِ عظیم فرمایا کہ عنقریب تمھارے اوپر ایک ایسا مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے جو اپنے دامن میں برکت و رحمت و مغفرت کو سمیٹے ہوئے آئے گا۔یہی وہ مہینہ ہے جو اللہ کے نزدیک سارے مہینوں سے افضل ہے۔اس کے روز و شب باقی دیگر ایام و لیالی سے افضل و اعلیٰ ہیں۔ یہی وہ عظمت والا مہینہ ہے جس میں اللہ نے مومنین کو اپنا مہمان بنایا ہے۔ اس مہینے میں تمہاری ہر ایک سانس تسبیح ہوتی ہے، تمھاری نیند بھی اس میں عبادت میں شمار کی جاتی ہے۔اس مہینے میں جو اعمال بھی کروگے وہ بارگاہ ِالٰہی میں باریاب بھی ہوں گے، جو دعائیں کروگے یقیناً تمھاری دعائیں مقبول ہوں گی۔تو اے مسلمانو! اس کو غنیمت جانو اور اس مہینے کی آمد سے پہلے اخلاصِ قلب اور صدقِ نیت کے ساتھ اللہ سے روزے، نماز، تلاوتِ قرآن پاک اور دیگر عبادات کی توفیق مانگو۔

حرماں نصیبی ہوگی اس شخص کی جو یہ عظمت والا مہینہ پائے اور نیک اعمال کرکے اللہ کی رحمت و مغفرت کا مستحق نہ بنے۔اس مہینے میں تمہیں بھوک اور پیاس کی شدت بھی برداشت کرنا ہوگی، تو اس بھوک اور پیاس کی شدت کے وقت قیامت کی سختی کو بھی یاد کرو کہ ایک دن ایسا آنے والا ہے، جہاں ایک دن پچاس ہزار سال کے برابر ہوگا، زمین تانبے کی ہوگی، سورج سوا نیزے پر ہوگا، وہاں بھی بھوک اور پیاس کی سختیاں ہوں گی اور وہاں تمہیں رمضان بھی نہیں ملے گا اور نہ ہی عبادت کی مہلت دی جائے گی اس لیے اس کو غنیمت جانو اور فقرا ءو مساکین پر صدقہ و خیرات کرو، اپنے سے بڑوں کی تعظیم کرو، اپنے سے چھوٹوں پر شفقت کرو، اپنے رشتہ داروں سے حسنِ سلوک کرو، اپنی زبان و نظر کی حفاظت کرو، اپنے کیے گئے گناہوں پر ندامت کے آنسو بہاتے ہوئے، کانپتے ہوئے لب اور لرزتے ہوئے اعضاءکے ساتھ بارگاہِ الٰہی میں توبہ کرو اور آئندہ جرائم کے ارتکاب نہ کرنے کا عہد کرو، کیوں کہ:

آج لے ان کی پناہ آج مدد مانگ ان سے

کل نہ مانیں گے قیامت میں اگر مان گیا

اے لوگو! اس پاکیزہ و عظمت والے مہینے میں جو انسان اپنے اخلاق کو عمدہ و بہتر بنائے گا کل قیامت کے دن پل صراط پر جہاں لوگوں کے قدم پھسلیں گے وہ تیزی سے گزر جائے گا۔جو شخص اس مہینے میں لوگوں کے حساب و کتاب میں آسانی کرے گا کل قیامت کے دن وہ مالک ِقہار تمہارے حساب و کتاب میں آسانی فرمائے گا۔اس بابرکت مہینے میں جو یتیموں و بیواو_¿ں اور مسکینوں کی تعظیم و توقیر کرے گا تو اللہ کل بروزِ حشر اپنی رحمتوں سے سرفراز فرمائے گا۔جو بندہ اس مہینے میں ایک نفل پڑھے گا اللہ اپنے فضل سے اسے بے نیاز کردے گا۔

اے لوگو! اس مہینے کی قدر کرو اور اسے نعمت ِغیر مترقبہ تصور کرو، کیوں کہ اس مہینے کی وہ شان ہے کہ جیسے ہی اس مہینے کا چاند طلوع ہوتا ہے اللہ جل وعلا اپنی جنت کے دروازے کھول دیتا ہے، تو تم بارگاہِ ربی میں التجا کرو کہ مالک اس جنت کے دروازے کو ہمارے اوپر بند نہ فرمانا، اور اسی طرح جہنم کا دروازہ بند کردیا جاتا ہے تو تم دعا کرو کہ تمھارے اوپر اس کو کھول نہ دیا جائے، اور حلولِ شہر رمضان کے وقت سارے سرکش شیاطین کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے تو تم اللہ کی بارگاہ میںا لحاح و زاری کے ساتھ دعا کرو کہ مولیٰ! شیطان مردود کو مجھ پر غالب نہ فرما۔

حضرت امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بارگاہ ِرسالت میں عرض کیا تھا :یا رسول اللہ! اس مہینے کا سب سے افضل عمل کون سا ہے توآپ نے ارشاد فرمایا : "اللہ کی حرام کردہ چیزوں سے اجتناب کرنا۔''

اس مختصر سے جملے میں اتنی وسعت ہے کہ اللہ اکبر۔اللہ و رسول نے جن جن چیزوں سے منع فرمایا ہے ان کے ارتکاب سے بچ جاو_¿ یہی سب سے بہتر عمل ہے۔ گویا کہ جھوٹ نہ بولنا، چوری نہ کرنا، غیبت سے اپنی زبان کو آلودہ نہ کرنا، سود بالکل مت کھانا، کسی غریب پر ناحق ظلم نہ کرنا، ناحق کسی کو نہ ستانا، گویا جتنے بھی نیک اعمال ہیں سب کرنا اور برائی کے قریب مت جانا۔تو رمضان المبارک یقیناً اللہ جل و علا کی طرف سے عطا کردہ ایک غیر معمولی اہمیت کا حامل تحفہ ہے جو انسان کو اپنے ماضی میں کیے گئے گناہ و ظلم و زیادتی کے کفارے کا باعث بنتا ہے اور یہ رمضان المبارک کی برکت ہی ہے کہ بہت سے وہ قلوب جو کل تک گناہ و معاصی کا ارتکاب کرکے فرحت و سرور محسوس کرتے تھے، جو نگاہیں ہر غیر محرم عورت کی طرف بلند ہوتی تھیں آج وہی دل بارگاہِ الٰہی میں حاضر ہے تو خشیت ِربانی سے موجزن ہے اور اس قدر خائف و نالاں ہے کہ ندامت کے آنسو بہاتے ہوئے رب کے حضور التجائیں کر رہا ہے: میرے مالک! آج سے پیشتر مجھ سے جتنے بھی گناہ سرزد ہوے خواہ وہ دن کے اجالے میں ہوں یا رات کی تاریکی میں ، میں تمام قسم کے گناہوں سے توبہ کرتا ہوں، اللہ میری توبہ قبول فرما، یقیناً اس کی توبہ قبول ہوتی ہے اور وہ بارگاہِ الٰہی کا مقرب بنتا چلا جاتا ہے۔

ماہِ مبارک کی آمد آمد ہے۔ ان شاءاللہ اگلے چند روز میں رمضان المبارک کی پہلی تاریخ ہوگی،یہ ماہِ مبارک رحمت و برکت اور مغفرت و بخشش کا مہینہ ہے، فضل و عنایت کامہینہ ہے، مواسات و غمخواری کا مہینہ ہے،ہمدردی اور خیرخواہی کا مہینہ ہے اور صبر و تحمل اور عفو و درگزر کا مہینہ ہے۔ اس مہینے میں ثواب و نیکی کا بھاﺅ بے تحاشہ بڑھا دیا جاتا ہے اسی لیے اس مہینے میں نفل عبادت کا ثواب فرض کے برابر اورایک فرض عبادت کا ثواب ستر فرائض کے قائم مقام کر دیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو اس مہینے سے خاص مناسبت ہے؛ چناں چہ ایک حدیث میں رسول نے فرمایا ہے: ”شعبان میرا مہینہ اور رمضان اللہ کا مہینہ ہے۔“

الغرض رمضان المبارک اللہ تعالیٰ کی طرف سے عظیم دولت ہے، بیش بہا تحفہ ہے ۔اس کا ایک ایک دن ایک ایک ساعت اور ایک ایک لمحہ انتہائی قیمتی اور قابلِ قدر ہے۔ اس مہینے کی فضیلت و عظمت کے سلسلے میں بے شمار احادیث منقول ہیں: نبی کریم بڑی گرم جوشی سے اس ماہ کا استقبال کیا کرتے تھے اور دیگر مہینوں کے مقابل اس میں زیادہ عبادت و ریاضت کے لیے مستعدی کا اظہار فرماتے اور اپنے اہلِ خانہ کو بھی اس کے لیے تیار فرماتے تھے۔آپ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں ( عبادت میں) جتنی محنت و مجاہدہ کرتے تھے کسی دوسرے عشرے میں اتنی محنت نہیں فرماتے تھے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حلولِ شہر رمضان کے موقع پر اپنے صحابہ کے درمیان رمضان المبارک کے فضائل و خصائص و امتیازات پر مشتمل خطبہ ارشاد فرماتے، انہیں میں سے ایک خطبہ زیب قرطاس کرتا ہوں ملاحظہ فرمائیں:

صحابی رسول حضرت سلمان الفارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آخری شعبان کو خطبہ دیا: اے لوگو! تم پر ایک ایسا مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے جو بہت بڑا اور بہت مبارک مہینہ ہے۔ اس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس مہینے کے روزوں کو فرض فرمایا اور اس کی رات کے قیام کوثواب کا ذریعہ بنایا ہے۔ جو کوئی شخص اس مہینے میں نیک عمل و افعالِ خیر کر کے اللہ کا قرب حاصل کرے گا وہ ایسا ہے جیسا کہ غیر رمضان میں فرض ادا کیا اور جو شخص اس مہینے میں فرض ادا کرے گا وہ ایسا ہے جیسا کہ غیر رمضان میں اس نے ستر فرائض ادا کیے۔ یہ مہینہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے ، یہ مہینہ لوگوں کے ساتھ غم خواری کرنے کا ہے۔اس مہینے میں مومن کا رزق بڑھا دیا جا تا ہے۔جو شخص کسی روزے دار کا روزہ افطار کرائے اس کے لیے گناہوں کے معاف ہونے اور خلاصی کا ذریعہ ہے اور اسے روزہ دار کے ثواب کے برابر ثواب ہوگا اور اس روزہ دار کے ثواب سے کچھ کمی نہ کی جائے گی۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم میں سے ہر شخص تو اتنی طاقت نہیں رکھتا کہ روزے دار کو افطار کرائے۔تو آپ نے فرمایا ( یہ ثواب پیٹ بھر کھلانے پر موقوف نہیں بلکہ کوئی بندہ اگر ایک کھجور سے افطار کرا دے یا ایک گھونٹ پانی یا ایک گھونٹ کسی مشروب کا پلا دے تو اللہ اس پر بھی ثواب مرحمت فرماتا ہے۔ یہ اس قدر عظمتوں کا حامل مہینہ ہے کہ اس کا اوّل حصہ رحمت ہے ، درمیانی حصہ مغفرت ہے، اور آخری حصہ جہنم کی آگ سے آزادی کا ہے۔ جو شخص اس مہینے میں اپنے غلام یا نوکر سے بوجھ کو ہلکا کر دے تو اللہ اس کی مغفرت فرمادیتا ہے اور آگ سے آزادی عطا فرماتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس مہینے میں چار چیزوں کی کثرت کیا کرو جن میں دو چیزیں اللہ کی رضا کے لیے اور دو چیزیں ایسی ہیں جن سے تمہیں چارہ کار نہیں۔ پہلی دو چیزیں ہیں جن سے تم اپنے رب کو راضی کرو ، وہ کلمہ طیبہ اور استغفار کی کثرت ہے اور دوسری دو چیزیں یہ ہیں کہ جنت کی طلب کرو اور جہنم کی آگ سے پناہ مانگو۔ جو شخص کسی روزہ دار کو پانی پلائے حق تعالیٰ شانہ (روز قیامت میرے حوض سے اس کو ایسا پانی پلائے گا جس کے بعد جنت میں داخل ہونے تک اسے پیاس نہیں لگے گی۔ رمضان کی پہلی رات کے متعلق حضرت ابو ہریرہ ؓنبی کریم سے روایت کرتے ہیں:

سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم نے ارشاد فرمایا :جب شہر مبارک یعنی رمضان المبارک کی پہلی شب آتی ہے تو اللہ جل وعلا تمام تر سرکش شیاطین و جنات کو زنجیروں میں جکڑنے کا حکم دے دیتا ہے اور جب تک مہینہ ختم نہ ہو جائے انہیں آزادی نہیں ملتی، اور اس مبارک مہینے میں جہنم کے سارے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اور ان میں سے ایک بھی نہیں کھولا جاتا اور جنت کے تمام دروازے کھول دیئے جاتے ہیں ان میں کوئی دروازہ بھی بند نہیں کیا جاتا اور اللہ جل وعلا کی جانب سے ہر رات یہ اعلان ہوتا رہتا ہے: اے خیر کے متلاشیو! آو_¿ در ِرحمت کھلا ہوا ہے، اللہ جل وعلا کی رحمت جوش میں ہے، نیکی کے اعمال کرو اور بارگاہِ الٰہی کے مقرب بن کر جنت کے حق دار بن جاو_¿، اور اے برائی کی طرف بڑھنے والو! رُک جاو_¿، توبہ کرو، ندامت کے آنسو بہاتے ہوئے آو_¿ رب کی بارگاہ میں وہ ساری خطاو_¿ں کو معاف فرمادے گا، اور اس مہینے کی ہر رات میں اللہ جل وعلا لوگوں کو جہنم سے آزادی کا پروانہ عطا فرماتا ہے۔

ہمارے نبی سیدنا امام الانبیاءمحبوب کبریا رجب کے مہینے سے ماہِ رمضان کی تمنا شروع فرما دیا کرتے تھے اور بارگاہ ِصمدیت میں دعا کرتے ”اے اللہ ہمارے لیے رجب و شعبان میں برکت عطا فرما اور ہمیں رمضان عطا فرما“۔ تاجدارِ مدینہ دو ماہ پہلے اس مبارک مہمان کا استقبال فرماتے اور جونہی شعبان کی آخری رات آتی آپ اپنے جاں نثار صحابہ کو جمع فرماتے، ان کے سامنے رمضان المبارک کی اہمیت وافادیت اور خصوصیت وامتیازی حیثیت کا دل آویز تذکرہ فرماتے۔ ان احادیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ رمضان المبارک کی آمد سے پہلے ہی اس کا استقبال کرنا نبی کریم کی سنت مبارکہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح معنوں میں رمضان المبارک کے استقبال اور احترام کی توفیق مرحمت فرمائے۔آمین

روزہ تو یونہی اللہ کا بہت بڑا انعام ہے بندوں پر کہ وہ اپنے بندوں کو درجات کی بلندی کی خاطر، نفس کشی، غریبوں کی بھوک و پیاس کی شدت کا اندازہ لگانے کے لیے اللہ رب العزت سال میں ایک مہینہ اپنے بندوں کو روزہ رکھنے کی تلقین فرماتا ہے تاکہ یہ بندے جو سال بھر تک اللہ کی نعمتیں کھاتے آئے ہیں وہ اللہ کے لیے ایک مہینہ کھانے، پینے سے اجتناب کریں اوراس کی مبارک سعادتوں سے شادکام ہوجائیں۔ ذیل میں رمضان المبارک کے روزے کی کچھ خاص فضیلتیں رقم کی جارہی ہیں، ملاحظہ فرمائیں :

رسول اللہ کا اور آپ کے اتباع میں صحابہ کرام و اتقیا کا کثرت سے نفلی روزے رکھنے کا یہ معمول اور عادت مبارکہ اس لیے تھی کہ وہ روزوں کی وہ فضیلتیں حاصل کرنے کا شوق اور جذبہ رکھتے تھے جن کا اللہ جل وعلا نے وعدہ فرمایا ہے۔ جب نفلی روزوں کی فضیلتیں اس قدر ہیں تو رمضان کے روزوں کا جو اجر و صلہ ملتا ہے، اس کا تو اندازہ ہی نہیں کیا جاسکتا جو کہ فرض ہیں۔ اس لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے روزوں کی بابت فرمایا:”جس نے رمضان کے روزے رکھے ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے (یعنی دکھلاوے اور ریاکاری کے لیے نہیں) تو اس کے گزشتہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔“پانچوں نمازیں اور جمعہ دوسرے جمعے تک اور رمضان دوسرے رمضان تک ان گناہوں کا کفارہ ہیں جو ان کے درمیان ہوں بشرطیکہ کبیرہ گناہوں سے اجتناب کیا جائے۔“ ایک اور حدیث میں رسول اللہ نے فرمایا: ”جس نے رمضان کے (فرضی) روزے رکھے اور اس کے بعد شوال میں چھ(نفلی) روزے رکھے وہ شخص ایسے ہے جیسے وہ ہمیشہ روزے رکھنے والا ہے۔“

روزے کا اصل مقصد :روزے کا اصل مقصد وہ روحانی اور قلبی فوائد ہیں جو روزوں کو ان کی شرائط اور آداب کے ساتھ رکھنے کی صورت میں روزے داروں کو حاصل ہوتے ہیں، چنانچہ اس کے چند روحانی فوائد و ثمرات حسب ذیل ہیں:

 تقویٰ کا حصول اور تقویٰ کے ثمرات:

روزوں کا سب سے بڑا فائدہ تقویٰ کا حصول ہے جو خود اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے ( لعلکم تتقون ) (البقرة:183/2) تم پر روزہ رکھنا اس لیے فرض کیا گیا،تاکہ تم متقی بن جاو_¿۔ کیوں کہ روزہ بھی عبادت ہی ہے اور عبادت کا مقصد اور فائدہ بھی اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کا حصول ہی بتلایا ہے۔ یہ تقویٰ کیا ہے جو روزوں سے انسان کے اندر پیدا ہوتا ہے؟ اور وہ روزے سے پیدا کس طرح ہوتا ہے؟اور تقویٰ سے کیا فوائد و ثمرات حاصل ہوتے ہیں؟ یہ تین سوال قابل ِغور ہیں۔ تقویٰ کا مطلب دل میں اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلالت کا اس طرح راسخ ہو جانا ہے کہ انسان اس کی نافرمانی کے ارتکاب سے باز رہے، ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھائے اور زندگی کے ہر موڑ پر اور ہر معاملے میں اس کی ہدایات و تعلیمات کی پابندی کرے۔اسے بعض بزرگوں نے اس مثال سے واضح کیا ہے کہ ایک شخص ایسی تنگ گزرگاہ سے گزرے جس کے دونوں طرف کانٹے ہوں تو وہ ایسی گزرگاہ سے کپڑے سنبھال کر اور دامن سمیٹ کر چلے گا تاکہ اس کا دامن کانٹوں سے نہ الجھے۔ تقویٰ بھی اس احتیاط اور معصیت سے دامن بچا کر زندگی گزارنے کا نام ہے۔ اور یہ تقویٰ روزے سے اس طرح پیدا ہوتا ہے کہ روزے کی حالت میں ایک مومن نہ کھاتا ہے نہ کچھ پیتا ہے اور نہ بیوی سے اپنی جنسی خواہش پوری کرتا ہے۔ حالاں کہ عام حالات میں اس کے لیے ان میں سے کوئی چیز بھی ممنوع اور حرام نہیں ہے۔ کھانا پینا بھی حلال امر ہے اور بیوی سے مباشرت بھی جائز کام ہے۔ لیکن ایک مومن روزے میں یہ حلال کام بھی نہیں کرتا، حتیٰ کہ گھر کی چاردیواری کے اندر بھی نہیں کر تا جہاں اسے کوئی دیکھنے یا روکنے والا نہیں ہو تا۔ یہ کیا ہے؟ یہ وہی تقویٰ اور اللہ کا ڈر ہے جو روزے سے اس کے اندر پیدا ہوا ہے۔

جب ایک مومن اللہ تعالیٰ کے ڈر سے محض اس لیے حلال کام بھی نہیں کر تا کہ روزے میں اللہ تعالیٰ نے ان سے روک دیا ہے اور کسی کے نہ دیکھنے کے باوجود وہ باز رہتا ہے تو گویا روزے نے اس کے اندر وہ تقویٰ پیدا کر دیا ہے جو روزے کا اصل مقصد ہے۔ اگر انسان اس ماہانہ مشقت کو اپنے احساس و شعور کا حصہ بنالے تو یقینا اللہ تعالیٰ کا یہ خوف قدم قدم پر اس کے دامن گیر رہ سکتا ہے اور اسے ہر وقت اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے باز رکھ سکتا ہے۔ جب وہ اللہ کے حکم پر اللہ تعالیٰ کے ڈر سے جائز اور حلال کاموں سے بھی وقتی طور پر رُکا رہتا ہے تو جن چیزوں اور کاموں کو اللہ نے ہمیشہ کے لیے حرام اور ناجائز قرار دیا ہے، ایک مومن اور ایک متقی ان کاارتکاب کس طرح کر سکتا ہے؟ ایک مومن کے اندر جب یہ تقویٰ اور اللہ تعالیٰ کا ڈر پیدا ہو جاتا ہے تو اسے حسب ِذیل ثمرات و فوائد حاصل ہوتے ہیں:

تقویٰ کے ثمرات و فوائد : -ایک مومن کی ایمانی قوت میں اضافہ اور اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلالت کا نقش اس کے دل میں مزید گہرا ہو جاتا ہے، وہ اس کی اطاعت و فرماں برداری میں راحت اور اطمینان محسوس کرتا اور نافرمانی میں اس کی گرفت سے ڈرتا ہے۔ اس کے عقیدہ_¿ آخرت میں تازگی اور پختگی آجاتی ہے۔ وہ روزے میں اپنی لذتیں قربان اور اپنی خواہشیں ترک کرتا ہے تو ایسا وہ اس یقین کی بنیاد پر کرتا ہے کہ اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ اسے آخرت میں اس سے زیادہ لذتوں والی چیزیں عطا فرمائے گا۔ یہ عقیدہ_¿ آخرت اور حسن ِصلہ کا یہ تصور روزے کی مشکلات اور مشقتوں ہی کو اس کے لیے آسان نہیں کرتا بلکہ دین و شریعت کے ہر معاملے میں اس کے اندر صبر و ثبات کی خوبیاں پیدا کرتا ہے جو اسے دین پر قائم رکھتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے انحراف نہیں کرنے دیتیں۔جب ایک مومن اللہ تعالیٰ کے حکم سے روزے میں ایک خاص وقت (صبح صادق کے ہو جانے پر کھانے پینے اور دیگر خواہشات سے رُک جاتا ہے اور ایک دوسرے وقت پر (سورج کے غروب ہوتے ہی) کھانا پینا شروع کر دیتا ہے اور دوسری جائز خواہشات بھی پوری کرنی چاہتا ہے تو کر لیتا ہے۔ تو شب و روز کے لمحات و اوقات میں اللہ تعالیٰ کی یہ فرماں برداری اس کے اندر اللہ تعالیٰ کی عبودیت و بندگی اور اس کے سامنے سرافگندی و خود سپردگی کا جذبہ و شعور پیدا کرتی ہے کہ انسان کا اپنا کچھ نہیں ہے سب کچھ اللہ ہی کا ہے اور اللہ ہی کے لیے ہے۔ ایک ایک لمحے اور ایک ایک گھڑی کو اللہ تعالیٰ ہی کی راہ میں یا اس کی مرضی و منشا کے مطابق ہی گزارناہے، اس کا نام کمالِ عبودیت اور کمالِ بندگی ہے جو انسان سے مطلوب ہے۔ اور جب بندگی کا یہ شعور اور ہر لمحے اور ہر گھڑی اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرماں برداری کا یہ جذبہ عام ہو جاتا ہے تو پھر پورا معاشرہ اللہ تعالیٰ کے رنگ میں رنگ جاتا اور پورا ماحول ایمان کے نور سے منور ہو جاتا ہے ، پھر کفر و شرک (یعنی غیروں کا رنگ) وہاں سے مٹ جاتا اور معصیت و نافرمانی کی تاریکیاں کافور ہو جاتی ہیں۔ ہر طرف ” صبغة اللہ“ ہی کی جلوہ آرائی اور دین و شریعت ہی کی روشنی نظر آتی ہے۔ جیسے رمضان المبارک میں ہوتا ہے۔ رمضان میں دن کو سب مسلمان ایک ہی کیفیت میں نظر آتے ہیں۔ گھر میں ہوں تب بھی، دفتر اور کارخانے میں ہوں تب بھی،سڑکوں اور بازاروں میں ہوں تب بھی، تنہا ہوں تب بھی اور مجلس میں ہوں تب بھی، امیر ہوں تب بھی،فقیر ہوں تب بھی، حکمران ہوں تب بھی اور رعایا ہوں تب بھی، سب ایک ہی جذبے سے سرشار، سب پر ایک ہی کیفیت کا غلبہ اور سب ایک ہی آقا کے غلام اور ایک ہی حاکم کے محکوم نظر آتے ہیں۔ پورے معاشرے اور ماحول میں یہ یکسانیت کس نے پیدا کی؟ ایک ہی جذبہ و احساس کی کارفرمائی کیوں ممکن ہوئی؟ اور سب پر ایک ہی رنگ کا غلبہ کیوں اور کیسے ہوا؟ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے خوف اور اس کی کامل بندگی و اطاعت کے جذبے سے ہوا جو رمضان المبارک میں روزوں کی وجہ سے انسانوں کے اندر پیدا ہوتا ہے اوراللہ تعالیٰ ایک مہینے کے مسلسل روزوں کی مشق سے مسلمان معاشروں اور ملکوں میں ایسا ہی ماحول مستقل طور پر پیدا کرنا چاہتا ہے جس میں نیکی غالب اور بدی مغلوب ہو،خیر کی کار فرمائی ہو اور شر کو رونمائی کا موقع نہ ملے، حق پر چلنے والے سرخرو ہوں اور باطل پر چلنے والے روسیاہ۔ لیکن ایسا تب ہی ہو سکتا ہے جب رمضان المبارک میں حاصل ہونے والے تقویٰ کی ہم حفاظت کر کے اس جذبے اور شعور کو زندہ رکھیں جو روزہ ہمارے اندر پیدا کرتا ہے۔ اس ایمانی پختگی کو قائم اور اس عقیدہ_¿ آخرت کو دل و دماغ میں ہر وقت مستحکم رکھیں جس سے روزے کی حالت میں ہم سرشار رہتے ہیں۔ ٭٭٭

مزید :

ایڈیشن 1 -