ہم نے پاکستان سٹوڈنٹ ایسوسی ایشن کے نام سے تنظیم بنائی، مختلف تقریبات اور سیمیناروں میں بحث ومباحثوں میں ہندوستانی طلبہ کو ناکوں چنے چبوا دئیے
مصنف:محمد اسلم مغل
تزئین و ترتیب: محمد سعید جاوید
قسط:37
جب میں نے محسوس کیا کہ اب میں اپنے تعلیمی معرکوں میں کامیاب ہوں تو میں نے ہم نصابی سرگرمیوں میں بھی دلچسپی لینا شروع کر دی۔ میں نشانہ بازی کے کلب کا ممبر بن گیا لیکن صرف تفریح طبع کے لیے، میرا مقصد اپنے آپ کو کسی مقابلے کے لیے تیار کرنا نہیں تھا۔ میں مسلم سٹوڈنٹ ایسوسی ایشن آف امریکہ کی مشی گن یونیوسٹی برانچ کا بانی رکن بھی تھا اور بعد ازاں میں اسی کا صدر بھی منتخب ہو گیا۔ تب مساجدصرف بڑے شہروں میں ہی ہوتی تھیں۔ اس لیے ہم نے جمعہ کی نماز کا اہتمام سٹوڈنٹ یونین کی عمارت میں واقع ایک کمرے میں کر لیا۔ مجھے قریبی گرجا گھروں میں بھی اسلام پر لیکچر دینے کے لیے مدعو کیا جانے لگا۔ جس میں اچھی خاصی تعداد میں غیرمسلم جمع ہو جاتے تھے۔ پھر ایک دفعہ وہاں کے مقامی ٹیلیویژن نے مجھے مذہب پر ایک مباحثہ میں شرکت کے لیے بلایا۔ جس میں دوسرے مذاہب کے نمائندے بھی شامل تھے۔ ہم نے پاکستان سٹوڈنٹ ایسوسی ایشن کے نام سے بھی ایک تنظیم بنائی جس میں اس وقت 20 طالب علم تھے لیکن ہم نے مختلف تقریبات اور سیمیناروں میں بحث و مباحثہ میں اپنے سے 10 گنا بڑی تعداد میں موجود ہندوستانی طلبہ کو ناکوں چنے چبوا دئیے۔ میں نے کشمیر پر ایک مناظرہ کے دوران پاکستان کی نمائندگی کی جہاں ہندوستانی مندوب سے گرما گرمی ہوئی، خوب بحث ہوئی اور اس کے بعد جب اس پر ووٹنگ ہوئی تو مجھے رائے شماری میں اس سے کہیں زیادہ ووٹ مل گئے۔ یہ پاکستان کی طلبہ برادری کی ایک بڑی فتح تھی۔
چونکہ ہمارا گھر ہر وقت ملاقاتیوں کے لیے کھلا رہتا اور ہمارا ریفریجریٹر بھی کھانے سے بھرا رہتا تھا اس لیے ہمارے ہاں مہمانوں کی خوب آمدو رفت جاری رہتی تھی جس میں پاکستانی سفارت خانے کے نمائندے بھی ہوتے تھے۔ ہم نے اپنا یہ مہمانداری کا شاہانہ انداز جاری رکھا ہوا تھا، ساتھ ساتھ سیاحت کا شوق بھی ہمیں امریکہ کا چپہ چپہ گھماتا رہا یہاں تک کہ ہماری گریجویشن مکمل ہونے میں صرف چار پانچ ماہ ہی رہ گئے تھے۔ تب مجھے احساس ہوا کہ مجھے مستقل طور پر گھر واپس جانے کے لیے کچھ ضروری خریداری بھی کرنا تھی۔ اس میں سب سے پہلی ترجیح تو ایک کار خریدنا تھا جو ان دنوں ایک بڑی چیز تھی۔ ظاہر ہے میں اسے اپنی سرکاری نوکری کی محدود سی تنخواہ سے نہیں خرید سکتا تھا۔ اور مجھے اس نوکری پر واپس جانا تھا کیوں کہ میں حکومت پاکستان کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت امریکہ آیا تھا جس میں یہ شق موجود تھی کہ میں امریکہ سے واپسی پر کم از کم 5 سال تک سرکاری نوکری کروں گا۔ میری دوسری ترجیح اپنے سیاحت کے شوق کی کسی حد تک تکمیل تھی جس کے لیے میرا منصوبہ زیادہ سے زیادہ یورپی ممالک کو دیکھنا تھا اور یہ واپسی کے سفر کے دوران ہی ممکن تھا اور اس کے لیے اچھے خاصے بجٹ کی ضرورت تھی۔ پھر مجھے اپنے والدین اور دوسرے افراد خانہ کے لیے تحفے تحائف بھی لینے تھے۔ یہ سوچ کر میں نے کچھ اضافی کام کرنے کی ٹھانی تاکہ میں کچھ اضافی رقم کما کر اپنی تمام ترجیحات کو پورا کرسکوں۔ یہ سوچ کر میں نے امریکہ کینیڈا بارڈر کی ایک سروے ٹیم میں کچھ دن کام کیا، یہاں شدید سرد موسم تھا۔ اس کے علاوہ میں نے فرنیچر کے سٹور میں کچھ ہفتے سیل ایجنٹ کا کام بھی کیا۔میں نے فرنیچر تو زیادہ نہیں بیچا، تاہم میرا زیادہ وقت شو روم میں فرنیچر کو ادھر ادھر کھسکانے اور ترتیب سے رکھنے میں ہی گذر جاتا۔ ظاہر ہے یہ کام میرے پیشے سے لگا نہیں کھاتا تھا، لیکن یہاں کام کرنے کے 2 فائدے ضرور ہوئے، ایک تو یہ کہ مجھے جتنے پیسوں کی ضرورت تھی وہ مل گئے اور دوسرا یہ کہ بھاری بھر کم فرنیچر کو ہلانے جلانے اور اٹھانے سے میرے بازو مضبوط ہو گئے تھے۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔