اخلاقیات اور سیرت طیبہ 

 اخلاقیات اور سیرت طیبہ 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 اخلاقیات کیا ہے؟وہ اصول ہیں جو اچھے ہونے، اچھا کرنے اور دوسروں کے لئے بنیادی احترام کے ساتھ مل جل کر رہنے کے لئے مناسب طرزِ عمل اور اخلاق کو سختی سے نافذ کرتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ تمام اقدار اخلاقیات کے دائرے سے تعلق رکھتی ہوں، اقدار کی اخلاقیات تاریخی طور پر مذاہب سے بھی جڑی ہوتی ہیں اور وہ مختلف وجوہات کی بنا  پر، دوسرے شعبوں معاشیات، سیاست، جمالیات کے ساتھ متصادم ہو سکتی ہیں۔  ”کامل مومن وہ ہے جس کے اخلاق اچھے ہیں“۔ (ابوداؤد: ۲۸۶۴۔ترمذی:۲۶۱۱)۔ خاندان کے استحکام کے لئے ضروری ہے کہ رشتہ داروں کے حقوق ادا کئے جائیں اور ان سے گہرا ربط رکھا جائے۔اسلامی معاشرہ میں رشتہ داروں کو عزت اور عظمت کا مقام دیا گیا ہے اور تفصیل سے ان کے حقوق بیان کئے گئے ہیں۔ ان حقوق میں حسن سلوک، مالی تعاون، عزت و احترام اور عفو و درگزر خصوصیت سے حامل ہیں۔ صلہ رحمی کو نیکی اور قطع رحمی کو جرم قرار دیا گیا ہے۔ رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک ان پر احسان نہیں ہے، بلکہ یہ فرض ہے، جس کی ادئیگی انسان پر لازم ہے۔ قرآن کریم کی بہت سی آیات میں رشتہ داروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے اور ان کے حقوق ادا کرنے پر ابھارا گیا ہے۔ اسلام نے صلہ رحمی کی بھرپور تلقین کی ہے۔اسلام نے خاندان کے استحکام کے لئے قوانین اور اخلاقی تعلیمات دونوں سے مدد لی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رشتہ داروں کے حقوق ادا کرنے کی بار بار تاکید کی ہے۔ جیسا کہ ارشادِ ربانی ہے:


ترجمہ:”رشتہ دار کو اس کا حق دو“ (سورۃ بنی اسرائیل: آیت نمبر ۲۶)۔قرآن میں رشتوں کا  لحاظ رکھنے والوں کو  دانش مند کہا گیا ہے۔ایک مثالی مسلمان کی زندگی مینارہ نور کی طرح ہے کہ وہ اپنے قول و عمل سے اپنے سماج میں مثبت تبدیلی کی روشنی پھیلاتا ہے۔ اس طرح کی خوشبو بھری زندگی کے حصول کے لئے مسلمان نبی اکرم ؐ  کو اپنا نمونہ بناتا ہے، کیونکہ آپ ؐ کی ذاتِ مبارکہ دوسروں کے ساتھ معاملات کے باب میں اخلاق کے اعلیٰ معیار پر تھی اور آپؐ نے اپنی امت کو اسی روش کو اپنانے کی تعلیم بھی دی ہے۔ نبی اکرمؐ  کا ارشادِ گرامی ہے۔”روزِ جزا ایک مسلمان کے پلڑے کی کوئی بھی چیز دوسروں کے ساتھ  بہتر معاملہ (اچھے اخلاق)سے زیادہ وزنی نہیں ہو گی“۔ (ترمذی)۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ایمان والوں میں زیادہ کامل ایمان والے وہ لوگ ہیں، جو اخلاق کے اعتبار سے زیادہ اچھے ہیں“، بلاشبہ اخلاق کا مقام بہت بلند ہے اور انسان کی سعادت ونیک بختی، فلاح وکامرانی کی معراج میں اخلاق کابڑا اہم اور خاص دخل ہے۔اسلام کی پاکیزہ تعلیمات نوجوان نسل کواخلاقِ حسنہ کا درس دیتی ہیں، بزرگوں کا ادب واحترام، چھوٹوں پر شفقت، علماء کی قدر ومنزلت، محتاجوں اور بے کسوں کی دادرسی ہم عمروں کے ساتھ محبت والفت اور جذبہ ایثار وہمدردی کا سبق دیتی ہے۔ امام الانبیاء  حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
ترجمہ: ”جو شخص چھوٹوں کے ساتھ رحم اور بڑوں کی توقیر نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں“۔


 بہ ظاہر یہ ایک مختصرسی حدیث ہے؛ لیکن اپنے اندر ایسی وسعت وگہرائی رکھتی ہے کہ اگر ساری کائنات اس حدیث پر عمل کرلے تو دنیا کے سارے جھگڑے ختم ہوجائیں، ظاہر ہے کہ اگر ہر شخص اپنے چھوٹوں سے پیارو محبت، شفقت ورحم کا معاملہ اور نرمی کا برتاؤ کرے اور ہر چھوٹا اپنے بڑوں کی عزت واحترام کو ملحوظ خاطر رکھے، ان کی تعظیم وتکریم کرے تو جذبہ ایثار وہمدردی پروان چڑھے گا اور اس طرح معاشرہ الفت ومحبت کا گہوارہ بن جائے گا۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تاریخ انسانی کے سب سے اعلیٰ اخلاقی معیار قائم کیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صدق گوئی اور سچائی کا یہ عالم تھا کہ کفار مکہ کے سردار ابو سفیان کو ہرقل کے دربار میں اس کے اس سوال پر کہ کیا تم نے کبھی محمد سے کچھ جھوٹ سنا ہے، یہ گواہی دینی پڑی کہ نہیں۔ (صحیح بخاری، باب بدء  الوحی) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امانت و دیانت کا یہ حال کہ پورا مکہ آپ کا دشمن، آپ کی دعوت سے ان کو انکار؛ لیکن امانتوں کے لئے اگر کوئی محفوظ جگہ تھی وہ اسی نبی ہاشمی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مکان۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صبر و تحمل کی انتہا یہ تھی کہ طائف کی خوں چکاں شام اور آپ کا لہو لہان جسم، ایسا دن جس کے بارے میں آپ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ وہ میری زندگی کا سخت ترین دن تھا،

اس دن جب پہاڑوں کا فرشتہ اللہ کے حکم سے خدمت ِ اقدس میں حاضر ہوکر عرض کرتا ہے کہ اگر آپ اجازت دیں تو طائف کے دونوں پہاڑوں کو ٹکرادوں اور یہ گستاخ قوم پس جائے، اس وقت رحمۃ للعالمین کا جواب تھا کہ نہیں، میں اللہ سے امید کرتا ہوں کہ وہ ان کی نسل میں ایسے لوگ پیدا فرمائیں گے جو صرف اللہ کی عبادت کریں گے اور کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں گے۔(صحیح بخاری، باب ذکر الملائکہ) اسی طرح فتح مکہ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس عفو و درگذر اور تواضع و شفقت کا ثبوت دیا، کیا اس کی نظیر کسی تاریخ میں ملنی ممکن ہے؟غرض آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پوری زندگی اعلیٰ ترین اخلاق و اوصاف کا ایسا نمونہ ہے کہ اس سے بہتر نمونہ پیش نہیں کیا جاسکتا اور ایسا جامع اخلاقی دستور العمل کہ اس سے بہتر کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے عمدہ اخلاق کا فیضان تھا کہ آپ کی دعوت نہایت تیزی کے ساتھ عربوں میں پھیلتی چلی گئی۔ آپ اپنے بلند انسانی کردار سے دشمن کے دل کو فتح کر لیتے اور اس کی روح کو اسیر کرلیتے۔ پاکستانی معاشرہ کئی قسم کی برائیوں میں مبتلا ہے جن میں سے انٹر نیٹ کا بے تحاشا اور غلط استعمال،جدید کلبز،سوشل میڈیا اور الیکٹرانکس میڈیا کے فحش پروگرام،شیشہ، پان،سگریٹ اور منشیات کا استعمال،ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ، ناپ تول میں کمی، آپس ہی میں ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کی کوشش، لوٹ مار، ڈاکہ، انسانوں کا اغوا اور قتل و غارت، وعدہ خلافی، خیانت اور بددیانتی، چغل خوری، بہتان اور غیبت، رشوت،جوا اور سود، مختلف مافیاز جو نوجوان نسل میں ان برائیوں کو پروان چڑھانے کے لئے کام کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ معاشرے کی اصلاح کیسے کی جائے؟ اس کا عملی جواب یہ ہے کہ سربراہان معاشرہ اپنے کردار کو درست کریں اور معاشرے کے لئے ناسور ان بیماریوں کی روک تھام کے لئے قانون سازی کریں اور ہماری انتظامیہ ان قوانین پہ سختی سے عمل کروائے اور عدلیہ مجرموں کو قرار واقعی سزا دے تو معاشرہ انشاء  اللہ اصلاح کی راہ پر گامزن ہو جائے گا اور ہم پاکستان کو حقیقی معنوں میں اسلامی جمہوریہ پاکستان بنا سکیں گے۔ دُعا ہے کہ ا للہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی اور اپنے ملک کی اصلاح کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

مزید :

رائے -کالم -