کاشتکاروں کے توجہ طلب مسائل
جیسے وطنِ عزیز کا ہر باسی جانتا ہے کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ خاص طور پر پنجاب، سندھ اورخیبر پختو نخوا کے زرخیز علاقے ہی ملکی غذائی ضروریات کو پورا کررہے ہیں۔ جبکہ بلوچستان پھلوں کی بے مثال اور اعلیٰ پیداوار کے ذریعے پاکستان کے عوام کی خدمت میں اپنا حصہ ڈالتا ہے۔ جب سے نئی حکومت آئی ہے،ایک سے ایک بحران سر اٹھا رہے ہیں۔کسان احتجاج کررہے ہیں کہ ان کا حق نہیں دیا جارہا۔ جبکہ حکومت ابھی تک گندم موجود ہونے کے باوجود نگران حکومت کے دوران گندم منگوانے والوں کا تعین نہیں کرسکی اور معاملہ لٹکایا جارہا ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ کاشتکاروں کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل ہونا چاہئیں،ورنہ ملک میں کسان بھی مایوس ہوگیا تو غذائی قلت کا راستہ کھل جائے گا۔
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کبھی گندم کی قلت کو دُور کرنے کے نام پر سرمایہ داروں کو گندم درآمد کرنے کی اجازت کی مد میں نوازا جاتا ہے تو کبھی گندم کی وافر پیداوار کو برآمد کرنے کے نام پر انہیں فائدہ پہنچایا جاتا ہے۔کسی نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ اتنی بڑی زرعی صنعت کی ابتدائی اور بنیادی ضروریات کوپورا کرنے کے لئے حکومتی سرپرستی کیسے کی جائے؟ کبھی باردانے کی قلت،تو کبھی بغیر سوچے سمجھے ملک میں گندم کو امپورٹ کر کے گوداموں کو بھر دیا جاتا ہے اور آنے والی فصل کی فروخت میں آج کل جو ابتری پیدا ہوئی ہے، اس کا فائدہ چند سرمایہ داروں کو توملے گا،لیکن نقصان کاشتکار اور کسانوں کے حصے میں آئے گا۔اس حوالے سے کسان تنظیمیں باوجود اپنی اندرونی تقسیم کے، گندم بحران پر حکمران طبقوں اور میڈیا کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہیں۔ اب ہر طرف گندم سکینڈل معاشرے کے ہر گھر کا موضوع ہے۔ عوامی مطالبہ ہے کہ گندم درآمد کرنے کے ذمہ دار کرداروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے اورقانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے عبرت کا نشان بنایا جائے۔اس کے ساتھ کسانوں کی محنت کی لاج رکھتے ہوئے گندم کا ہر دانہ حکومت خریدے اور اس مسئلے کو حل کرے، ورنہ بہت بڑے بحران سے دوچار ہونے کا خدشہ ہے۔
اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہوگیا ہے کہ زرعی ملک کے علاقوں کو بہتر پیداواری حیثیت سے تقسیم کیا جائے اور ان کی بہتری کے لیے حکومتی سطح پر اقدامات کیے جائیں تو ہم بہتر نتائج حاصل کر سکتے ہیں، نہ کہ حادثاتی صورتِ حال کو دیکھ کر اقدامات کیے جائیں اور کہیں کوئی منصوبہ بندی نظر ہی نہ آئے۔ زرعی اجناس کی پیداوارکے حوالے سے تقسیم اورانہیں مختص کرنے کے حوالے سے دیکھا جائے توپنجاب اور سندھ میں گندم کی پیداوار اوّلین حیثیت رکھتی ہے۔ پانچ دریاؤں کی سرزمین پنجاب کے کچھ علاقے چاول،کپاس اور گنے کی فصل کے لیے موزوں ہیں، تو کئی خطے سبزیوں کے لئے مشہور ہیں۔ مثلاً آلو کی پیداوار میں سیالکوٹ، قصور، اوکاڑہ، شیخوپورہ بہت نمایاں نظر آتے ہیں۔ آم کے لئے درکار موسمی حالات کو سامنے رکھتے ہوئے جنوبی پنجاب کا ضلع ملتان اور سندھ کے علاقوں کو بہت اہمیت حاصل ہے جبکہ خیبر پختونخوا میں پھل، سبزیاں اور دیگر اجناس پیدا ہوتی ہیں۔
ملک زرعی ہونے کی وجہ سے پیداوار کو کسان،زرعی مزدور اورکا شتکار زمیندار کے درمیان ایک خاص سرمایہ دارانہ فکر کا حامل آڑھتی طبقہ، چھوٹے کاشتکار وں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی جیبیں بھرتا ہے۔ کاشتکار کوان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے،جبکہ حکومتی سرپرستی بھی انہیں حاصل ہوتی ہے۔زراعت اتنی بڑی صنعت ہے کہ جس کا موازنہ اس خطے میں کسی بھی دوسری بڑی صنعت کے ساتھ نہیں کیا جا سکتا مگر افسوس اسے وہ سہولیات نہیں دی جاتیں، جو کہ دوسری صنعتوں کو ملتی ہیں، ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں کچھ علاقوں کو پیداوار کے حوالے سے مختص کرکے یہاں سٹوریج کا بندوبست اور عوام کو سستی اجناس مہیا کرنے کے اقدامات کرنا چاہئیں،لیکن ایسا ہو نہیں رہا۔ طاقتورحکومتی حلقوں اور پالیسی سازوں سے گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ توانائی کے بحران سے نکلنے کے لیے فوری طور پر کاشتکاروں کو پانی کی قلت دُور کرنے کے لیے نئے ٹیوب ویلز کو سولر سسٹم پر چلانے کی سہولیات دی جائیں۔نہ یہ کہ ’سولر سولر‘کے لولی پاپ کے کھیل میں انتظار کر ایا جائے بلکہ فوری طور پر کچھ معاہدے کسانوں اور زمینداروں سے کیے جائیں۔جس میں زرعی پیداوار میں اضافہ اور محصولات کی قیمتوں میں کمی کی جائے۔
ایک ٹی وی چینل پر وفاقی وزیر مصدق ملک کا تجزیہ سن کر کچھ اطمینان ہوا کہ انہوں نے زراعت پر توجہ دینے کا اشارہ دیا ہے۔ یہاں ان کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ زرعی مشینری کو درآمد نہ کیا جائے بلکہ ہمارے پاس زرعی مشینری بنانے والے ہنر مند دنیا کے مقابلے میں بہتر کارکردگی دکھا سکتے ہیں، ان کی سرپرستی کی جائے اور چھوٹے چھوٹے صنعتی یونٹ لگا کر زرعی ترقی میں حصہ ڈالنے کا موقع فراہم کیا جائے۔ اس کا فائدہ صنعتی مزدور، چھوٹے کسان اور پھلوں کو محفوظ کرنے والوں کو ہوگا۔ پانی کی قلت،سٹوریج سہولیات کے فقدان پر قابو پاکر اورزرعی برآمد میں نمایاں کردار ادا کیا جا سکتا ہے اگر سرکاری طور پر کوئی ذمہ دار شخص آئے تو میں اسے عملی تجزیہ پیش کر کے پاکستان کی تقدیر بدلنے اور زرعی صنعت میں چھ ماہ کے اندر ایک بڑی تبدیلی لانے پر مفید مشورے دے سکتاہوں۔
اسی طرح پھلوں اور سبزیوں کی بہتر پیداوار پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ پنجاب اور سندھ کے مخصوص علاقوں میں آم کی پیداوار بہت زیادہ ہے لیکن پنجاب میں کیلا اس سطح پر نہیں ہو سکتا جیسے کہ سندھ کی سرزمین میں ہوتا ہے اور بہت اچھی پیداوار دے رہا ہے۔ ہماری زرعی یونیورسٹیوں میں پھل کی پیداوار کو بڑھانے اور اس کے معیار کو بہتر بنانے پر تحقیق کی جانا چاہیے۔اسی طرح صوبہ خیبر پختونخوا ڈرائی فروٹ کی پیداوار کے لیے بہت بہترہے،مگر ا س کی سرکاری سرپرستی نہ ہونے کے برابر ہے، ڈرائی فروٹ کو ہم عوام پر چھوڑ دیتے ہیں کہ وہ خود محفوظ بھی کریں اور مارکیٹ میں بھی لائیں۔ بلوچستان میں سیب اور دیگر پھلوں کی پیداوار دوسرے صوبوں کی نسبت بہتر ہے مگرہماری بدقسمتی ہے کہ بیوروکریسی اور حکمران محدود طرزِ فکر میں رہتے ہوئے کوئی انقلابی اقدامات نہیں کر رہے۔ ہم کوکنگ آئل کی درآمد پر اربوں روپے لگاتے ہیں، حالانکہ ہماری زمین زرخیزہے، یہاں کوکنگ آئل ہم خود پیدا کرسکتے ہیں۔یہاں زرعی اراضی کی تقسیم کچھ اس طرح سے کی جائے کہ ہر جنس کے لئے علاقوں کو مختص کیا جائے۔ کچھ علاقے سورج مکھی اور سویابین کی پیداوار کے لئے ہوں۔یہاں کے کاشتکاروں کو مالی تحفظ دیا جائے اور ان کی حوصلہ افزائی کے لیے incentivesرکھے جائیں تو زرعی انقلاب لایا جا سکتا ہے۔ کسان کاشتکار پر توجہ دی جائے تو پاکستان کی ترقی، غریب کو روٹی اور دیگر اجناس کی فراہمی کی وجہ سے چیزیں سستی میسر ہو سکتی ہیں۔ مارکیٹ میں مہنگائی اور غربت کے خاتمے کے اقدامات کے طور پر زراعت پر توجہ دینی چاہیے اور خلوصِ نیت سے نگرانی کرنے والے افراد، عوام کو لمحہ بہ لمحہ،آگاہ بھی رکھنا چاہیے۔