شہنشاہ دقیانوس اور ا صحاب ِ کہف
ملک روم میں دقیانوس نامی ایک بت پرست بادشاہ تھا جو مُشرک اور بُت پرست ہونے کے ساتھ انتہا تک ظالم تھا۔ اپنی رعایا کو بزور بت پرستی پر مجبور کرتا اور زبردستی بتوں کی پوجا کراتا ۔ جو بت کو سجدہ کرنے سے گریزاں نظرآتا اس کو دوباتیں کہتا۔ یا سجدہ کرو یا قتل ہونے کے لئے تیار ہو جاﺅ ، پھر ان سے ایسا ہی معاملہ کرتا ۔ جتنے حصے پر اس ظالم کی حکومت تھی ،اس کرئہ ارض پر یہی آفت برپا تھی۔ روم کے شہروں میں ایک شہر افسوس تھا جس کو عربی میں طرطوس کہتے ہیں۔ اس شہر میں چند امیر کبیر نوجوان، عالیشان گھروں میں رہنے والے تھے اور تو حید پر قائم تھے۔ دقیانوس کو ان کے توحید پرست ہونے اور بتوں سے متنفر ہونے کا علم ہوا تو اپنے سپاہی بھیج کر ان نوجوانوں کو پکڑوالیا، ان سے بازپرس کی گئی، ان سے پوچھا تم میرے بتوں پر نذرانے کیوں بھینٹ نہیں کرتے۔ سجدے کیوں نہیں کرتے؟ اگر تم عقیدئہ توحید سے باز نہ آئے تو تمہارے قتل کا حکم دوں گا۔ دقیانوس کو ایک لڑکے نے جوان میں بڑا تھا اور جس کا نام سکیناتھا، جواب دیا کہ ہم توحید پرست ہیں اور ہمارا معبود وہ ہے جس کی عظمت اور جلال پورے زمین وآسمان پر ہے اور جو ساری کائنات کا خالق ومالک ہے۔ ہم اس ذات عالی کے سوا کسی کو ہرگز نہیں پوجیں گے ۔ آگے تو جو کرنا چاہتا ہے کرلے۔ ہم نے اپنا عقیدہ بیان کردیا۔
اس کے بعد دوسرے ساتھیوں نے بھی اس جوان سے اتفاق کیا اور اپنے عقیدے پر ڈٹے رہے۔ چونکہ یہ لڑکے امیر کبیر گھرانوں کے تھے۔ تو انہوں نے سونے کے قیمتی زیور بھی پہن رکھے تھے۔ دقیانوس ان لڑکوں کے جواب سے غضب ناک ہوگیا اور ان کے کپڑے اور زیور اتروالیا ۔ پھر کہا تم نوعمر لڑکے ہو۔ تم کو اب بھی مہلت دیتا ہوں۔ ابھی تم کو چھوڑ کر عقل سے کام لینے کا موقع دیتا ہوں۔ اگر تم باز نہ آئے تو تمہارے لئے قتل کا حکم ہوگا۔ دقیانوس سلطنت کے کسی دوسرے شہر گیا۔ جب دقیانوس اس طرح لڑکوں سے دور ہوگیا تو انہوں نے باہم مشورہ کیا کہ اپنے اپنے گھر سے معقول رقم لی جائے۔ کچھ خیرات کردی جائے اور باقی اپنے اخراجات کے لئے محفوظ کرلی جائے۔ اس کے بعد شہر کے باہر جو پہاڑ ہے، اس کے غار میں چھپیں اور وہاں چھپ کر معبود حقیقی کے حضور سربسجود ہوجائیں۔ اس طرح عبادت بھی میسر آئے گی اور ظالم سے بھی محفوظ رہیں گے۔ سب لڑکوں نے اس تجویز سے اتفاق کیا اور اپنے والد سے معقول رقم لے کر کچھ خیرات کی اور باقی رقم کے ساتھ مجوزہ غار کی طرف روانہ ہوگئے ، راستے میں ایک چرواہا اور اس کا کتا بھی پیچھے پیچھے چل پڑے۔ لڑکوں نے اس کتے کو بھگانے کی بڑی کوشش کی ،مگر ایسا نہ ہوا ،بلکہ اس کتے کو قوت گویائی عطا ہوئی اور اس نے اس طرح بیان کیا کہ مجھ سے ہرگز نہ ڈرو۔ یہاں میں تمہاری حفاظت کروں گا۔
جب یہ نوجوان پہاڑ کے قریب ہوئے تو چرواہے نے کہا مَیں یہاں کے ایک غار کو جانتا ہوں۔ اسی میں پناہ لینا مناسب رہے گا۔ نوجوانوں نے اس سے اتفاق کیا اور غار میں داخل ہوکر حمد وثنا میں مشغول ہوگئے۔ ان میں سے ایک کا نام تملیخا تھا۔ اس کے پاس سب نے اپنی رقوم جمع کرادیں۔ وہ رات کو چھپ کر باہر جاتا اور کھانے پینے کی چیزیں خرید لاتا۔ اس طرح باہر کی خیرخبر بھی ملتی رہی اور شب وروز بھی گزرتے رہے۔ جب دقیانوس اس شہر طرطوس میں واپس آیا تو اس نے ان سات لڑکوں کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ لڑکوں کے نہ ملنے پر اس نے تفتیش کا حکم دیا۔ اس ساری کارروائی کا تملیخا کو علم ہوگیا اور یہ بھی پتہ چلا کہ ان لڑکوں کے اہل خانہ پر ظلم کیا جارہا ہے اور لڑکوں کے بارے میں پِوچھ گچھ کی جارہی ہے۔ اس تکلیف دہ صورت حال کی وجہ سے تملیخا چھپتا چھپاتا روتا ہوا ساتھیوں کے پاس واپس پہنچا اور اپنے خلاف ہونے والی ساری کارروائی کا ذکر کیا ۔ لڑکے یہ سن کر گھبرا گئے اور بارگاہ رب العزت میں سجدہ زیر ہوکر عافیت طلب کرنے لگے۔ وہ آنسوﺅں کے ساتھ ایک دوسرے سے مخاطب ہوئے۔ رحمت خداوندی نے ان کو اپنی رحمت کے پردے میں ایسے ڈھانپا کہ ان پر نیند مسلط کر دی۔ وہ نوجوان نیند کی آغوش میں چلے گئے اور کتا غار کے منہ پر اپنے پاﺅں پسار کر پڑ گیا۔
لڑکوں کے نہ ملنے پر دقیانوس کی پریشانی بڑھتی جارہی تھی۔ نگرانوں اور سرداروں سے ان کے بارے میں پوچھ گچھ کرتا رہا اور پھر یہ کہا کہ یہ لڑکے اگر میرے بتوں کو سجدہ کرلیتے تو مَیں انہیں معاف کردیتا۔ سرداروں نے کہا کہ یہ لڑکے تو بڑے سرکش اور باغی نکلے ۔ ان جملوں نے دقیانوس کو اور غصہ دلا دیا، اس نے غضب ناک ہوکر حکم دیا کہ ان کے باپوں کو پکڑ لاﺅ۔ باپوں کو پیش کیا گیا۔ باپوں سے سوال کیا گیا کہ تمہارے سرکش بیٹے کہاں ہیں ؟ انہوں نے میرا حکم نہیں مانا ،جس کی بڑی سنگین سزا ہے۔ باپوں نے بھی لاعلمی کا اظہار کیا اور کہا کہ ہم نے تو کوئی حکم عدولی نہیں کی، لہٰذا ہمیں قتل نہ کیا جائے۔ دقیانوس نے ان کو تو چھوڑ دیا ،مگر لڑکوں کا کھوج لگانے میں سرگرم ہوگیا۔ تحقیق وتفتیش کے بعد اسے معلوم ہوا کہ یہ لڑکے پہاڑ کے کسی غار میں چھپے ہوئے ہیں۔ دقیانوس نے سلطنت کے اہم لوگوں کو ساتھ لیا اور غار کی تلاش میں اس کے منہ تک جاپہنچا ۔ قدرت نے اس پر ایسی دہشت اور رعب طاری فرمایا کہ کوئی بھی غار میں داخل نہ ہوسکا۹.... کھسیانی بلی کھمبا نوچے.... دقیاس نے عاجز ہوکر حکم دیا کہ غار کا منہ بڑے بڑے پتھروں سے بند کردیا جائے تاکہ لڑکے یہیں دم گھٹ کر مر جائیں۔ دقیانوس کو ان کے غار میں ہونے کا تو علم ہوگیا، مگر اسے کیا معلوم کہ وہ ایک گہری نیند سوئے ہوئے ہیں۔
دقیانوس کے دوساتھی ایسے تھے جو بظاہر اس کے ساتھ تھے ،مگر دل سے صاحب ایمان تھے۔ ان میں سے ایک کا نام بیدروس اور دوسرے کا روناس تھا۔ انہوں نے رانگ کی دو تختیوں پر ان لڑکوں کے کوائف اور سارا واقعہ کندہ کراکر ایک تانبے کے تابوت میں رکھا اور اس تابوت کو غار میں رکھ دیا۔ بادشاہ نے بھی حکم دیا کہ ان کے نام رانگ کی تختیوں پر کنندہ کرا کر خزانے میں محفوظ کر دیا جائے۔ وقت گزرتا گیا، بادشاہ آتے جاتے رہے اور یہ نوجوان تین سوسال تک نیند کی آغوش میں لیٹے رہے۔ اس عرصے میں دقیانوس مرا۔ بعد کی حکومتیں ختم ہوئیں، مگر اصحاب کہف تین سو نو سال تک اسی غار میں راحت وآرام کے ساتھ محو خواب رہے۔ تین سو نو سال گزرنے کے بعد یہ نیند سے بیدار ہونا شروع ہوئے، اب اس ملک پر ایک نیک بخت اور خیرپرست بادشاہ کی حکومت تھی ۔ اس کا نام بیدروس تھا اور وہ اڑسٹھ سال تک حکومت کی باگ ڈور سنبھالے رہا۔ اس کے دور حکومت میں لوگ قیامت پر بحث کرتے تھے، کوئی کہتا تھا کہ قیامت ضرور آئے گی اور کوئی اس کا منکر ہوتا تھا۔ جو یہ کہتے تھے کہ قیامت حق ہے ،مگر یہ روحانی ہوگی ،جسمانی نہیں، یعنی حشرصرف روحوں کا ہوگا، جسموں کا نہیں ہوگا، کیونکہ مرنے کے بعد جسم تو زمین کھا جاتی ہے، مگر روح باقی رہتی ہے، لہٰذا صرف روح کا بعث ہوگا۔ بعض کہتے کہ روحانی اور جسمانی دونوں کا حشر سے واسطہ پڑے گا۔
یہ امر اختلاف کا سبب بن گیا۔ بیدروس ان حالات سے متاثر ہوا اور اپنے گھر میں بند ہوکر اللہ کے حضور رونے اور گڑگڑانے میں مصروف ہوگیا۔ وہ اللہ سے یہ دعا کرنے لگا کہ مجھے حق بات سے آگاہ فرما۔ حق تعالیٰ نے اس کی دعا کو قبولیت عطا فرمائی اور اولیاس نامی ایک شخص کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ وہ کوہ نجبوس کے غار پر جو عمارت ہے ،اس کو گراکر اپنی بکریوں کے لئے باڑہ بنائے۔ جب یہ عمل مکمل ہوا تو غار کا منہ کھل گیا اور سوئے ہوئے جوان بیدار ہونے لگے۔ ان کا خیال تھا کہ ہم تھوڑی دیر سوئے ۔ اب ہمیں نماز پڑھ لینی چاہئے۔ نماز سے فارغ ہوئے تو بھوک کا احساس جاگ اٹھا۔ تمخیلا کو کھانا لانے کو کہا اور یہ بھی کہ دقیانوس کی شہر سے خیرخبر بھی لائے۔ تمخیلا نے میلے کچیلے کپڑے پہن کر بھیس بدلا۔ ان نوجوانوں کو یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ تین سونوسال بعد جاگے ہیں۔ ان کے پاس تو وہی دقیانوس کے زمانے کے سکے تھے۔ ان سکوں سے وہ کھانا خریدنے نکلا ۔ غار کے منہ پر پہنچا تو وہ بھی پہلے جیسا نہیں تھا۔ ڈرتے ڈرتے شہر کی راہ لی، مگر کوئی عمارت کوئی چیز پہلے جیسی نہ پائی۔ جو لوگ ملے، وہ اہل ایمان ملے۔ تمخیلا سمجھا کہ شاید وہ کسی غلط شہر میں داخل ہوگیا ہے۔ ادھر ادھر گھومنے کے بعد آخر اس نے ایک نوجوان سے پوچھ ہی لیا کہ اس شہر کا کیا نام ہے۔ جواب ملا طرطوس (افسوس) یہ سن کر تمخیلا کو بڑا تعجب ہوا کہ شہر وہی ہے ،مگر ہرچیز بدلی ہوئی کیوں ہے۔ مختلف کیوں ہے۔ وہ سب کہاں ہے جو میں چھوڑ کر غار میں گیا تھا؟
اسی حیرانی میں غرق وہ ایک نانبائی کے پاس پہنچا اور اس کودقیانوسی سکہ دے کر روٹی مانگی۔ نانبائی سکہ دیکھ کر حیران ہوا اور آس پاس کے لوگوں کو دکھایا کہ اس لڑکے کے پاس دقیانوسی سکہ ہے۔ اب لوگوں کو گمان یہ ہوا کہ اس لڑکے کو دقیانوسی زمانے کا دفینہ ملا ہے، لوگوں نے اس سے پوچھ گچھ کی تو وہ ڈر کر کانپنے لگا۔ کوئی کہے کہ یہ کسی دوسرے شہر سے اجنبی وارد ہوا ہے۔ لوگ اسے شک کی نگاہ سے دیکھنے لگے، مگر تمخیلا کو یقین تھا کہ گوہرچیز بدلی ہوئی ہے، پہلے جیسی کوئی چیز کوئی بات نظر نہیں آرہی ،مگر یہ اس کے باپ کا شہر ہے۔ لوگ اسے پکڑ کر اعلیٰ حکام کے روبرولے گئے۔ ایک کا نام آریوس اور دوسرے کا طنطبوس تھا۔ یہ دونوں بڑے نیک تھے۔ بڑے سوال وجواب کے بعد طے ہوا کہ اس لڑکے کو بادشاہ کے سامنے پیش کیا جائے۔ تمخیلا پریشان ہوگیا کہ یہ لوگ مجھے دقیانوس کے پاس لے جارہے ہیں، جس کے خوف سے ہم نے غار میں پناہ لی تھی۔ اس نے کہا بخدا مجھے کوئی خزانہ نہیں ملا ۔ یہ روپیہ میرا ہے اور مَیں غار سے کھانا لینے باہر آیا ہوں۔ اگر آپ کو یقین نہ ہوتو میرے ساتھ غار میں چلیں۔ میرے باقی ساتھی بھی وہیں ہیں اور کھانے کے منتظر ہیں۔ اس گفتگو کے بعد آریوس ، طنطیوس اور کچھ شہری تمخیلا کے ساتھ غار کی طرف چل پڑے تاکہ اصحاب کہف کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔
تمخیلا کو دیر ہوجانے کے سبب غار میں سب پریشان ہوگئے کہ کہیں تمخیلا دقیانوس یا اس کے سپاہیوں کے ہتھے تو نہیں چڑھ گیا ۔ پریشانی کے عالم میں انہوںنے نماز پڑھنے کا فیصلہ کیا۔ فارغ ہوکر ایک دوسرے کو محتاط رہنے کی نصیحت کرنے لگے۔ اتنے میں تمخیلا سب لوگوں کے ساتھ غار میں داخل ہوا۔ نوجوانوں نے حاضرین کو سارا ماجرا سنایا۔اس ساری گفتگو سے واضح ہوا کہ یہ نوجوان اس غار میں تین سو نو سال تک اللہ کے حکم سے سوئے رہے اور صرف اس لئے جگائے گئے ہیں کہ لوگوں کے لئے قیامت کی نشانی اور حشر جسمانی کا نمونہ بنیں اور اتنی لمبی مدت سونے کے بعد جاگنے سے لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ قیامت اور حشر جسمانی بلاشبہ حق ہے۔ غرض جب تملیخا غار میں داخل ہوا تو اس کے پیچھے آریوس داخل ہوا۔ آریوس نے وہاں تانبے کا ایک تابوت دیکھا جس پر چاندی کی مہر لگی ہوئی تھی۔ آریوس نے شہر کے معزز لوگوں کو طلب کیا اور اس تابوت کو کھولنے کا حکم دیا، اس میں سے رانگ کی دو تختیاں نکلیں۔ جن پر ان نوجوانوں کے نام تھے جو ظالم بادشاہ دقیانوس کے خوف سے اپنے دین کو بچانے کے لئے اس غار میں پناہ گزین ہوگئے تھے۔ دقیانوس کو اس کا علم ہوا تو اس نے یہ تختیاں لکھوا کر غار کا منہ پتھروں سے بند کرادیا تاکہ آنے والے لوگوں کو ان کے عبرتناک انجام کا پتہ لگ سکے۔
جب آریوس نے یہ تختیاں پڑھیں تو ان پر تملیخا کا نام بھی سامنے آیا ، تملیخا نے کہا یہ میرانام ہے۔ باقی نام میرے ساتھیوں کے ہیں۔ آریوس پر ساری حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہوگئی۔ وہ حیران ہوگیا کہ یہ نیک نوجوان تین سو نوسال بعد بیدار ہوئے ہیں۔ اس پر سب نے اللہ کریم کی حمدوثنا کی اور اس بات پر یقین پختہ کیا کہ مرنے کے بعد روز قیامت اسی طرح اٹھایا جائے گا۔ آریوس نے اپنے نیک بخت ، نیک سیرت ، خوش قسمت بادشاہ کے پاس قاصد بھیجا جس کا نام بیدروس تھا اور بادشاہ کو یہ پیغام بھیجا کہ خود آکر اللہ کی نشانی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔ آپ کے دور حکومت میںاللہ تعالیٰ نے لوگوں کے لئے حشر کا ایک نمونہ ظاہر فرمایا ہے تاکہ لوگوں کو نور اور ضیاءحاصل ہو اور وہ حشر جسمانی کے قائل ہوجائیں۔ وہ نشانی یہ ہے کہ ان نوجوانوں کو تین سو نو سال تک سلایا ، پھر زندہ سلامت اٹھایا۔ اسی طرح روز قیامت سوئے ہوئے مردوں کو روح اور بدن کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔ اہل ایمان کے لئے اس نشانی میں بڑا سبق ہے۔
شاہ بیدروس یہ خبر سنتے ہی شاداں و فرحاں وہاں پہنچا اور جوانوں کو غار میں مل کر سربسجود ہوگیا، پھر اس نے ان جوانوں سے معانقہ کیا۔ یہ جوان زمین پر بیٹھے اللہ کی تسبیح وتحمید میں مصروف رہے۔ بادشاہ نے ان کو اصحاب کہف کہا۔ اصحاب کہف نے بیدروس سے کہا کہ ہم تم کواللہ کے سپرد کرتے ہیں۔ اللہ تمہارااور تمہارے ملک کا نگہبان ہو۔ اللہ کریم تمہیں جن وانس کے شر سے محفوظ رکھے۔ تم پر اللہ کا سلام ہو۔ ان دعاﺅں کے ساتھ اصحاب کہف نے بیدروس کو رخصت کیا اور واپس اپنی جگہوں پر لیٹ گئے اور ان پر وفات واقعہ ہوگئی۔ بادشاہ نے ان پر کپڑے ڈال دیئے اور حکم دیا کہ ان اجسام کو سونے کے تابوتوں میں رکھا جائے ۔ رات کو جب بادشاہ سویا تو اصحاب کہف اس کے خواب میں آئے اور کہا کہ ہم مٹی سے بنے ہیں اور مٹی میں مل جائیں گے ۔ ہمیں مٹی پر ہی لیٹارہنے دو اور ہمیں سونے کے تابوتوں میں بند نہ کرنا۔
جتنے لوگ معہ بادشاہ کے جو غار میں اصحاب کہف کو ملے تھے ،جب وہ وہاں سے رخصت ہوئے تو ان پر ایسی دہشت طاری ہوئی کہ دوبارہ اندر داخل ہونے کا حوصلہ نہ ہوا۔ اس نیک دل بادشاہ نے غار کے منہ پر سجدہ ریز ہونے کے لئے ایک مسجد تعمیر کرائی۔ اصحاب کہف کا واقعہ قرآن مجید کی زینت ہے اور سورئہ کہف کے عنوان سے ہی مذکور ہے۔ اس سورہ کی فضیلت اس طرح بیان کی گئی ہے کہ جمعہ کے روز اسے پڑھا جائے۔ پڑھنے سے اگلے جمعے تک ایک نورروشن رہے گا، جس نے اس کی اول دس آیتیں پڑھیں اور دس آخری پڑھیں، وہ مال کے فتنہ سے محفوظ رہے گا۔ بڑے اہتمام اور پابندی سے اس سورہ کو جمعہ کے روز پڑھنے کا معمول بنانا چاہئے۔ باقی اس کی جو تفسیر تحریر کی گئی ہے، وہ معارف القرآن ازشیخ التفسیر حضرت مولانا محمد ادریس صاحب ؒسے لی گئی ہے۔