” سر جھکا کر جیو میاں، سر جھکا کر !۔۔۔ “

 ” سر جھکا کر جیو میاں، سر جھکا کر !۔۔۔ “
 ” سر جھکا کر جیو میاں، سر جھکا کر !۔۔۔ “

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف : اپٹون سنکلئیر
ترجمہ :عمران الحق چوہان 
 قسط:42
 یو رگس کے لیے بھی یونین کے پہلے اجلاس میں شرکت بہت دل چسپ رہی۔ اگر چہ اس کا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا، وہ تو اس نیت سے گیا تھا کہ ایک کونے میں بیٹھ کر دیکھے گا کہ کیا ہوتا ہے۔ لیکن اس خاموشی اور انہماک نے اسے دوسروں کی نظر میں مشکوک بنا دیا۔ ٹونی فینی گن بڑی بڑی آنکھوں والا ایک جھگڑالو آئرش تھا۔ مدتوں پہلے کہیں اس کے ساتھ کوئی واقعہ ہوا تھا جس کا اس کے دل پر بوجھ تھا۔ ساری زندگی اسے اس واقعے کی سمجھ نہیں آسکی تھی۔ وہ کسی سے بحث کرتا تو اسے گریبان سے پکڑ کر قریب کر لیتا۔ پھر اس کا چہرہ قریب سے قریب آتا جاتا جو بہت مشکل مرحلہ ہوتا کیوں کہ اس کے دانت بہت گندے ہوتے تھے۔ یورگس کو یہ حرکت بری تو نہیں لگی لیکن اسے ڈر ضرور لگا۔ فینی گن کا تفتیش کرنے کا اپنا طریقہ تھا۔ ” تم نے کبھی شراب تو نہیں پی ؟“ اس نے پوچھا، جس کا جواب یورگس نے نفی میں سر ہلا کر دیا۔ ” کوئی بات نہیں، کوئی بات نہیں۔“ اس نے بات جاری رکھی ” اس کا اثر آدمی پر برا پڑتا ہے۔ مجھے جوانی میں شراب کی لت لگی تھی۔۔۔ “ ٹونی فینی گن کی بات مسلسل چلتی گئی۔ یورگس کے ماتھے پر پریشانی سے آیا پسینا دیکھ کر دوسرے لوگوں نے آگے آکر اس کی گلو خلاصی کرائی۔ باقی ساری شام وہ ٹونی سے بچنے کے لیے اِدھر اُدھر کھسکتا رہا۔
وہ کسی اجلاس سے غیر حا ضر نہیں ہوا۔ اسے تھوڑی بہت انگریزی بھی آگئی تھی اور دوست بھی بات سمجھنے میں اس کی مدد کرتے تھے۔ یہ بڑی ہنگامہ خیز مجلسیں ہو تیں۔ کئی لوگ مختلف لہجوں میں بڑی گرما گرم تقریریں کرتے لیکن ان کی بات میں خلوص تھا اور خلوص تو یورگس میں بھی تھا۔ اسے علم تھا کہ ایک جنگ جاری ہے اور اس میں اس کا بھی حصہ ہے۔ جب سے اس کی آنکھیں کھلی تھیں اس نے اپنے گھر والوں کے علاوہ کسی پر بھی بھروسا کرنا چھوڑ دیا تھا لیکن یہاں اسے علم ہوا کہ دکھ اور غم کے رشتے سے اس کے اور بھائی اور اتحادی بھی ہیں۔ یونین میں زندگی بچانے کا موقع مل سکتا تھا اور وہ مجاہد بن کر ڈٹ گیا۔ وہ ہمیشہ سے گرجے کا رکن تھا کیوں کہ یہ ایک درست عمل تھا لیکن گرجے نے اس کے دل کو کبھی نہیں چھوا تھا، اس لیے یہ شعبہ اس نے عورتوں کے حوالے کر دیا تھا۔ یہاں اسے ایک نیا مذہب ملا جس نے نا صرف اس کے دل پر اثر کیاتھا بل کہ اس کی رگ رگ میں اتر گیا تھا۔ اور وہ ایک نو وارد کے جوش و جذبے کے ساتھ تبلیغ پر جُٹ گیا۔ لیتھو اینئین لوگوں میں ایسے بہت سے لوگ تھے جنھوں نے ابھی تک کسی یونین کی رکنیت نہیں لی تھی، وہ انہیں سیدھا راستہ دکھانے کی کوشش کرتا اور ان کے لیے دعائیں مانگتا۔ کبھی کبھی وہ اس کی بات سننے سے بھی انکار کر دیتے جس پر یورگس کا تحمل جواب دے جاتا۔ وہ بھول جاتا کہ کچھ ہی دن پہلے وہ خود کتنا لا علم تھا۔ وہ ان صلیبی جنگ جوو¿ں کی طرح تھا جو قرون ِ اولیٰ میں تلوار کے زور پر بھائی چارے کا پیغام پھیلانے نکلے تھے۔ 
یونیئن کی دریافت کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ یورگس کو انگریزی سیکھنے کا شوق پیدا ہوگیا۔ وہ جاننا چاہتا تھا کہ اجلاسوں میں ہوتا کیا ہے، کیوں کہ وہ ان میں حصہ لینا چاہتا تھا۔ چنانچہ اس نے ایک ایک، دو دو لفظ سیکھنے شروع کر دئیے۔ بچے پہلے ہی سکول جاتے تھے اور تیزی سے سیکھ رہے تھے، سو انھوں نے بھی اس کی مدد کرنا شروع کر دی۔ ایک دوست نے چھوٹی سی کتاب بھی اسے مستعار دے دی جو اونا اسے پڑھ کر سناتی تھی۔ یورگس کو دکھ ہوتا کہ وہ یہ کتاب خود کیوں نہیں پڑھ سکتا۔ بعدازاں سردیوں میں جب کسی نے اسے بتایا کہ ایک سکول ایسا ہے جہاں وہ شام کو مفت تعلیم حا صل کرسکتا ہے تو اس نے اس میں داخلہ لے لیا۔ پھر جب بھی وہ شام کو وقت پر گھر آجاتا تو، چاہے اس کے پاس آدھ گھنٹا ہی ہوتا، وہ فوراً سکول چلا جاتا۔ وہ اسے انگریزی لکھنا پڑھنا سکھا رہے تھے۔ سکھا تو وہ اور بہت کچھ بھی رہے تھے لیکن شرط یہ تھی کہ اس کے پاس وقت ہو۔ 
یونیئن کا دوسرا اثر یہ ہوا کہ وہ ملکی حالات میں دلچسپی لینے لگا۔ یہ اس کا جمہوریت سے پہلا تعارف تھا۔ یونیئن ایک طرح کی ریاست تھی، چھوٹی سی جمہوریہ۔ اس کے معاملات سب کے مشترک معاملات تھے اور یہاں سب کی سنی جاتی تھی۔ دوسرے لفظوں میں یہاں یورگس نے سیاست پر بات کرنا سیکھا۔ جہاں سے وہ آیا تھا وہاں کوئی سیاست نہیں ہوتی تھی۔ روس میں تو لوگ حکومت کو بجلی یا طوفان کی طرح کا عذاب سمجھتے تھے۔ ” سر جھکا کر جیو میاں، سر جھکا کر !۔۔۔ “ بزرگ اپنے سے چھوٹوں کو کہتے، ” وقت کیسا بھی ہو گزر ہی جاتا ہے۔“ جب یورگس امریکا آیا تھا تو اس کا یہاں کے بارے میں بھی یہی خیال تھا۔ اس نے لوگوں سے سنا تھا کہ یہ ایک آزاد ملک ہے۔۔۔ لیکن اس کا مطلب کیا تھا ؟ اس نے دیکھا کہ یہاں بھی روس ہی کی طرح، دولت مند ہر چیز پر قابض تھے، اور اگر کسی کو کام نہ ملتا تو وہ بھی ویسی ہی بھوک محسوس کرتا تھا جیسی روسی کرتے تھے۔( جاری ہے ) 
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔

مزید :

ادب وثقافت -