ڈپٹی کمشنر (2)
انگریز نے جب ڈپٹی کمشنر کا عہدہ بنایا تو وہ اسے ایک مکمل حکومت گردانتا تھا،جب تک یہ ادارہ بااختیار طور پر قائم رہا پاکستان میں دہشت گردی اور لاقانونیت پر قدرے کنٹرول رہا، ایسا نہیں کہ ان کی موجودگی میں کوئی بڑے واقعات،سانحات یا فسادات واقع نہیں ہوئے،تاہم ان کی تعداد کم اور ان کا ازالہ بھی فوری تھا۔ ماضی کا ڈپٹی کمشنر ریاستی مشینری کے ضلعی معاملات کا ذمہ داربلکہ حقیقی محافظ ہوتا تھا، حکومت کی پالیسیوں،اقدامات،فیصلوں پر عملدرآمد کرانا ہی اس کی ذمہ داری نہ تھی بلکہ عوامی مسائل و مشکلات کا فوری حل تلاش کرنا،کسی نا گہانی آفت کے وقت شہریوں کو ریلیف دینا بھی اس کے دائرہ کار میں آتاتھا، دن معلوم نہ رات، عید شبرات نہ کوئی چھٹی اور نہ ہی وہ فیملی کو وقت دے پاتا کیونکہ وہ گھر سے دور دراز ضلع میں اپنے فرائض سر انجام دے رہا ہوتا۔ ڈپٹی کمشنر ضلع میں امن و امان کا ذمہ دار،گراں فروشی،ذخیرہ اندوزی،جرائم،ریونیو معاملات دیکھتا، زمینی آسمانی آفات میں عوام کو ریلیف دیتا،پولیو کا سب سے بڑاچیلنج والا کام بھی اس کا، پرائیس کنٹرول کرنا،محرم الحرام ہو یا عید میلادالنبی ﷺ، تمام معاملات خوش اسلوبی سے سر انجام دیتا،کوئی اہم شخصیت ضلع کا دورہ کر رہی ہو تو اس کی سکیورٹی،قومی،صوبائی اسمبلی کا الیکشن ہو یا پھر لوکل گورنمنٹ کا بطور ریٹرننگ آفیسر خدمات بھی ڈپٹی کمشنر انجام دیتا تھا،ضلعی صحت اور تعلیمی کمیٹی کا چئیر مین بھی وہی، اسلحہ کے لائسنس جاری کرنا، لوکل سرٹیفیکیٹس کا اجراء،ترقیاتی منصوبوں کی نگرانی بھی اسی کی ذمہ داری تھی،ڈپٹی کمشنر واحد افسر تھا جو ہر وقت ضلع میں رہتا اورہر قسم کی ہنگامی صورتحال سے ہمہ وقت نمٹنے کیلئے تیار ہوتا، صوبائی محکموں کو ضلع میں کسی بھی قسم کا مسئلہ درپیش ہوتا حل کرنے کیلئے ڈپٹی کمشنر سے ہی رابطہ کرتے۔
ان تمام چیلنجز کے باوجود ڈپٹی کمشنر تمام سرکاری فرائض کی انجام دہی خوش اسلوبی سے کرتے بلکہ حکمرانوں کو بھی خوش رکھنے کی کوشش کرتے اور عوام کو بھی ناراض نہیں ہونے دیتے تھے،اپنے مطالبات اور حقوق کیلئے کبھی احتجاج کیانہ کبھی ہڑتال کی دھمکی دی،،سول سروس کی ساکھ انہی ڈپٹی کمشنرز کی وجہ سے قائم و دائم تھی جو ہر چیلنج ہر وقت قبول کرنے کیلئے تیار ہوتے،لیکن بد قسمتی سے اس اہم ترین عہدے کو سیاسی و فوجی حکمرانوں نے اپنے مفادات کیلئے تماشا بنا کر رکھ دیا،کبھی سیاسی مفادات کیلئے ان کو بے تحاشا اختیارات سے نوازا اور کبھی خود اختیار حاصل کرنے کیلئے انہیں بے اختیار کر دیا گیا، یہ بات طے شدہ ہے کہ اگر کسی بھی حکمرن نے گڈ گورننس قائم کرنا ہے تو ڈپٹی کمشنر کے عہدے کو با اختیار بنانا ہو گا،ڈپٹی کمشنر کسی بھی حکومت کی کامیابی کی ضمانت ہیں اور انہی کے ذریعے ہی عوام کو ریلیف دیا جاسکتا ہے انگریزڈپٹی کمشنر کو دو ٹانگوں پر ایک مکمل حکومت گردانتا تھا،جب تک یہ ادارہ قائم رہا پاکستان میں دہشت گردی اور لاقانونیت پر قدرے کنٹرول رہا، ایک عمدہ جمہوریت اور ڈکٹیٹر شپ میں ایک صحت مند سول سوسائٹی اورایک قابل انتظامیہ ہی ترقی کی ضمانت ہیں۔
آج ملک گو نا گوں مسائل سے دوچار اور قوم کا اکثریتی طبقہ معاشی،انتظامی،عدالتی بحران سے دوچار ہے،جبکہ وفاقی حکومت معاشی بحران سے نبٹنے کیلئے نئے قرض لینے اور پرانے قرضوں کی قسط اور سود کی ادائیگی کیلئے وسائل مہیا کرنے میں لگی ہوئی ہے،ایسے میں حکومتی رٹ،قانون کی عملداری اور عوامی مسائل کے مقامی سطح پر حل کیلئے ایک مضبوط مقامی حکومت کی ضرورت ہے،اور ڈپٹی کمشنر کا عہدہ اس حوالے سے صدیوں کا آزمودہ ہے۔ایک دور میں تمام انتظامی اختیارات کا حامل ڈپٹی کمشنر تھا،پولیس بھی ڈپٹی کمشنر کے ماتحت ہوا کرتی تھی،ڈسٹرکٹ جج کا عہدہ بھی ڈپٹی کمشنر کی قلمرو تھا،اگر چہ بعض لوگوں کے نزدیک ایک ہی افسر پر اختیارات کا ارتکاز نا انصافی اور خرابیوں کی جڑ ہے،اگر چہ اس حوالے سے کچھ شکایات بھی تھیں مگر کسی معمولی غلطی کیلئے پورے دفتر کو سرے سے ختم کرنا بھی دانشمندی نہ تھی،چشم فلک نے دیکھا کہ اس عہدے اور دفتر کے خاتمہ کے بعد ملک میں آئے روز انتظامی بحران آئے،سانحات ہوئے مگر کسی کی داد رسی ہوئی نہ بروقت کسی کو انصاف ملا، جب پولیس کا محکمہ ڈپٹی کمشنر کے ماتحت ہوتا تھا تو انتظامیہ اور پولیس مل کر مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتے۔ آج اگر ڈپٹی کمشنر کے پاس عدالتی اختیارات اور مجسٹریٹس کی فوج ہوتی تو مہنگائی، ذخیرہ اندوزی، بدامنی،جرائم،سرکاری اراضی، جائیداد پر قبضہ، کرپشن جیسے معاملات پر کنٹرول ممکن تھا،مگر اختیارات کی تقسیم کے بعد ایک ہی مسئلہ میں کئی محکموں کی مداخلت کے بعد معاملات میں بگاڑ آتا چلا گیا،اب بھی اگر اچھی حکومت کے قیام کی خواہش ہے تو ڈپٹی کمشنر کے دفتر کو با اختیار بنا کر اسے اختیارات تفویض کرنا ہوں گے۔
ضلع کی حکمرانی ڈپٹی کمشنر کو دیکر تمام ضلعی محکمے اگر اس کے دفتر کے ماتحت کر دئیے جائیں، تحصیلدار، پٹواری، کے ساتھ ساتھ مجسٹریٹس، پولیس کا محکمہ،صحت و تعلیم،عوامی دستاویزات کے اجراء کی ذمہ داری ماضی کی طرح اس دفتر کی تحویل میں دے دئیے جائیں تو مقامی سطح پر ایک بہترین انتظامیہ کا وجود عمل میں آسکتا ہے،عومی مسائل مقامی سطح پر مختصر وقت میں حل ہو سکتے ہیں،کرپشن،بد انتظامی کا خاتمہ ممکن ہے، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اپنے آئینی فرائض انجام دینے میں آسانی ہو گی،حکومتی اخراجات میں کمی آئے گی،اور ایک اچھی حکومت کے قیام کے خواب کو تعبیر مل سکے گی،ماتحت عدلیہ پر اس وقت مقدمات کا بوجھ ہے،بہت سے کیس سالوں سے فیصلہ طلب ہیں،ججز کی تعداد بھی کم ہے،عوام کے بنیادی مسائل مہنگائی،اشیائے ضرورت کی قلت،سٹریٹ کرائم،چھوٹے بڑے جرائم مجسٹریٹس کے ذریعے حل کر کے عدالتوں پر بوجھ کم کر کے عوام کو فوری نہیں تو مختصر وقت میں انصاف میسر آ سکتا ہے۔اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ اختیارات کا ارتکاز برائیوں، خامیوں اور نقائص کو جنم دیتا ہے، لیکن اگر ارتکاز ایک فرد کی بجائے ایک دفتر میں ہو تو اختیارات کی ازخود تقسیم بھی ہو جاتی ہے اور اختیارات نچلی سطح پر بھی منتقل ہو جاتے ہیں،اگرانتظامی مجسٹریٹس صاحبان ڈپٹی کمشنر کے ماتحت کر کے انہیں مختلف فرائض سونپ دئیے جائیں اور نگرانی کا فریضہ ڈپٹی کمشنر کے دفتر کو دیدیا جائے تو محکمانہ اور خود احتسابی کی روائت مضبوط ہو گی،ایسے ہی ضلع میں ترقیاتی منصوبے بے شک متعلقہ محکمے ہی کی سربراہی میں مکمل ہوں مگرمعیار اور رفتار کی نگرانی ڈپٹی کمشنر کرینگے تو احتساب یا سزا کا خوف کرپشن اور بے ضابطگی کا راستہ روکے گا،ضلع میں سرکاری سکول،ہسپتال،خیراتی اداروں بے شک قواعد و ضوابط کے مطابق کام کرتے رہیں
مگر ڈپٹی کمشنر کو نگرانی مل جائے تو یہ ادارے عوام کو بہتر ریلیف دے سکیں گے،اس سلسلہ میں اسسٹنٹ کمشنر اور انتظامی مجسٹریٹ کے دفتر کو استعمال کر کے بہتر نتائج مل سکتے ہیں۔ڈپٹی کمشنر کے موثر دفتر کو ختم کرنے میں کس کس کا کردار تھا،اس پر آیندہ کالم میں معروضات پیش کروں گا۔