کن کیسز میں" واہ واہ" ہوتی ہے،ججوں کو کس نے "سیاسی " کر دیا ۔۔؟ انصار عباسی نے اہم سوالات اٹھا دیئے
اسلام آباد ( خصوصی رپورٹ )وفاقی آئینی عدالت بننے پر سب سے بڑا اعتراض یہ اُٹھایا جا رہا ہےکہ سپریم کورٹ کی حیثیت کم ہو جائے گی،کن کیسز میں" واہ واہ" ہوتی ہے،ججوں کو کس نے "سیاسی " کر دیا ۔۔؟ انصار عباسی نے اہم سوالات اٹھا دیئے۔
"جنگ " میں شائع ہونیوالے بلاگ بعنوان "ہیڈلائنز اور ٹکرز نے ججوں کو سیاسی کر دیا" میں انصار عباسی نے لکھا کہ وفاقی آئینی عدالت بننے پر سب سے بڑا اعتراض یہ اُٹھایا جا رہا ہے کہ سپریم کورٹ کی حیثیت کم ہو جائے گی اور اس میں موجود جج سیشن جج بن کر رہ جائیں گے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے اکثر سپریم کورٹ کے جج بالخصوص اور چند ایک ہائی کورٹس کے جج بالعموم سیاسی اور آئینی نوعیت کے کیس سننے میں دلچسپی لیتے ہیں جب کہ سول اور کریمنل کیسوں کو سننے میں دلچسپی ہوتی ہے۔ سیاسی اور آئینی نوعیت کے کیسوں میں دلچسپی کی بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ اس میں خوب مشہوری ہوتی ہے، ٹی وی چینلز میں ٹکرز چلتے ہیں، ہیڈ لائنز بنتی ہیں، اخبارات میں شہ سرخیاں شائع ہوتی ہیں۔ جب کہ اکثر دیوانی یعنی سول اور فوجداری مقدمات میں تو نہ کوئی خبر بنتی ہے نہ ہی واہ واہ ہوتی ہے اور اسی وجہ سے اُنہیں کم سنا جاتا ہے جس کی وجہ سے عام عوام سے متعلق مقدمات سالہا سال کے لیے لٹک جاتے ہیں اور اُن پر فیصلے نہیں ہوتے۔اب جب مشہوری آئینی اور سیاسی مقدمات میں ہوگی، جب ایسے مقدمات سے متعلق ہی ججوں کے تاریخ میں حوالے ہوں گے تو پھر جج سیاسی کیوں نہ ہو۔
بلاگ میں انصار عباسی نے مزید لکھا کہ ایک عدالتی ذرائع کے مطابق ایسے جج بھی ہیں جو ماسوائے آئینی اور سیاسی مقدمات کے عام کیسوں کو سننا پسند ہی نہیں کرتے۔ ان سول اور سیشن عدالتوں، ان ہائی کورٹس اور اس سپریم کورٹ کی اصل ذمہ داری تو یہ ہے کہ عوام کو جلد اور سستا انصاف دیں اور یہی اصل اور اہم ترین ذمہ داری ہے جس پر پاکستان کے عدالتی نظام کو کوئی دلچسپی نہیں۔ لوگوں کی زندگیاں مقدمات لڑتے لڑتے گزر جاتی ہیں فیصلے نہیں ہوتے، باپ اور دادا کے زمانے کے مقدمات بیٹے ، بیٹیوں اور پوتوں، پوتیوں کے وقت پر فیصلے ہوتے ہیں۔ دہائیاں گزر جاتی ہیں فیصلوں کے انتظار میں جبکہ مقدمات لڑنے کے لیے اب اتنا پیسہ چاہیے کہ عام پاکستانی تو انصاف لینے کے لیے عدالت میں جانے سے ہی ڈرتا ہے۔ ایک ڈر یہ ہوتا ہے کہ عدالت گئے تو سالوں تک فیصلہ نہیں ہو گا اور دوسرا ڈر یہ ہوتا ہے کہ مقدمہ لڑنے کے لیے اپنا کچھ بیچنا پڑے گا اور پھر بھی کوئی گارنٹی نہیں کہ انصاف ہو گا بھی کہ نہیں۔ میں تو کہتا ہوں کہ پاکستان کے پورے عدالتی نظام کو سیاسی اور آئینی مقدمات سے بالکل علیٰحدہ کر دیا جائے تاکہ ہماری ضلعی عدالتوں سے لے کر ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ تک تمام کے تمام ججوں کی توجہ عوام کو انصاف دینے پر لگی رہے۔فل کورٹس کے اجلاس سیاسی اور آئینی کیسوں کے لیے بلائے جاتے ہیں، ایسے مقدمات کے لیے بڑے بڑے بننا معمول ہے لیکن کیا فل کورٹس اور بڑے بنچ اعلیٰ عدلیہ میں اس خاطر بھی بنے کہ کیسے عوام کو جلد اور سستا انصاف دیا جائے۔ کیا کبھی فل کورٹس اس لیے بیٹھیں کہ سوچیں، سمجھیں کہ کیا وجہ ہے کہ پاکستان کے عدالتی نظام پر کسی کو کوئی بھروسہ نہیں، کیا وجہ ہے کہ پاکستان کے عدالتی نظام کی مثال دنیا کی بدترین مثالوں میں دی جاتی ہے۔
بلاگ کے آخر میں ا نصار عباسی نے لکھا کہ ججوں کے خط لکھنے کا رواج بہت بڑھ چکا اور ان خطوں کو میڈیا کو بھی لیک کیا جاتا ہے جس سے اخباروں اور ٹی وی چینلز میں ہیڈ لائنز بنتی ہیں۔ اب تو ججوں کا آپس میں جھگڑا بھی عوام کے سامنے ہوتا ہے۔ کاش یہ خط و کتابت اور یہ جھگڑے اس لیے ہوں کہ عام عوام کو ہماری سپریم کورٹ، ہماری ہائی کورٹس اور ہماری ضلعی عدالتیں کیوں انصاف دینے میں ناکام ہو چکی ہیں۔ کاش ججوں کا جھگڑا عوامی مقدمات اور سستے اور جلد انصاف کی فراہمی کے مسلئہ پر ہو۔ لیکن یہ جھگڑے بھی سیاسی اور آئینی مقدمات کے اردگرد ہی گھومتے ہیں اور عوام بیچاری کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔ ان حالات میں آئینی عدالتوں کا قیام انتہائی ضروری ہے تاکہ ہماری سپریم کورٹ، ہائی کورٹس اور ضلعی عدالتوں کا پورے کا پورے فوکس عوام کے مقدمات پر ہو۔