فلسطین کا مستقبل!
عالمی برادری کی بے حسی کی انتہا ہے کہ گیارہ ماہ گذر گئے اسرائیل کو فلسطینیوں پر مظالم سے روکا نہیں جاسکا۔ اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے کہ حماس، حزب اللہ، اور انصاراللہ کی کارروائیوں کے باعث اسرائیل کو اندرونی اور بیرونی محاذوں پر شدید مزاحمت کا سامنا ہے۔ کھنڈرات میں تبدیل فلسطین کے اندر دیکھیں تو حماس کے نوجوانوں کا جذبہ شہادت اور حزب اللہ کی فلسطینیوں کی حمایت میں موجودہ جنگ میں شمولیت سے اب تو صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ اسرائیل کے صیہونی وزیراعظم نیتن یاہوکی کابینہ کا رکن روس کے پاس فریاد لے کر جاتاہے، اس کی صدر پیوٹن سے بات نہ ہو سکی لیکن اسرائیلی نمائندے نے روس کے دفاعی سفارتی نمائندے کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لئے بتایا کہ حماس کی تحویل میں موجود یرغمالیوں میں ایک روسی نژاد اسرائیلی شہری بھی ہے، لہٰذا آپ انہیں رہا کروانے میں ہمارا ساتھ دیں،لیکن وہ مثبت جواب حاصل نہ کرسکے کہ حکومت اسرائیل نے اصلاح احوال اور جنگ بندی کے بہت سے مواقع گنوا دیے ہیں، جس کا نتیجہ آپ اب بھگت رہے ہیں،اس کے بعدایک بڑی پیشرفت یہ بھی ہوئی کہ امریکہ نے اپنا نمائندہ چین بھیجا اور کہا کہ بحر احمر میں صورتحال خراب ہے۔انصاراللہ کے حوثی RED SEA کے اندر بحری جہازوں پر حملہ کر کے بین الاقوامی اقتصادیات کو نقصان پہنچا رہے ہیں، یقینا حوثی آپ کی بات سنیں گے اور اس پر عملدرآمد بھی ہو گا۔ اللہ کی قدرت دیکھئے امریکہ کو مایوسی ہوئی چین نے ایسا کرنے سے معذرت کر لی، میں سمجھتا ہوں کہ تقریبا ًایک سال ہونے والا ہے کہ حماس اورصیہونی حکومت کی جنگ جاری ہے، جس میں اسرائیلی حکومت نے بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑا دیں، شہری آبادیوں کو تہس نہس کردیا، ہسپتالوں میں مریضوں کا قتل عام کیا،اسکولوں میں تعلیم دینے والا اور حاصل کرنے والا کوئی نہ چھوڑا،ان مظالم پر کسی بین الاقوامی طاقت یعنی امریکہ برطانیہ فرانس جرمنی نے بے گناہ فلسطینیوں کے قتل و غارت گری پر نہ صرف یہ کہ افسوس کا اظہار بلکہ اس دہشت گردی کی مذمت تک نہ کی بلکہ اسرائیل کو وسائل اورجدید اسلحہ کی ترسیل اب تک جاری ہے اور اس کے تمام مظالم کی پردہ پوشی کے ساتھ اس سے تعاون بھی کیا جا رہا ہے،اس طرح یہ تمام ممالک فلسطین کشی کے عمل میں برابر کے مجرم ہیں۔یہ بات قابل غور ہے کہ حماس کے اسرائیل کے اندر گھس کر حملے کرنے کے7اکتوبر 2023ء کے اقدام سے مسلمان ممالک اتنے خوفزدہ تھے اوراب بھی ہیں، کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ ناجائز صیہونی ریاست اسرائیل اپنی قوت سے حماس کے مٹھی بھر نوجوانوں کا خاتمہ کر دے گی، لیکن‘ ابابیلوں کے ہاتھوں ہاتھی والے ابرہا ’کو تباہ کرنے والا رب ذوالجلال کتنا عظیم ہے،ایک سال ہونے کے قریب ہے کہ فلسطین کی دفاعی قوت، ہمت اور حوصلے میں اضافہ ہوا ہے اور وہ جو عالمی قوتیں سمجھتی تھیں کہ صیہونی حکومت ان کی مدد کے ساتھ چند دنوں میں حماس کو نہ صرف ختم کر دے گی، بلکہ غزہ پر قبضہ کرکے اس علاقے کو اسرائیل میں شامل کر لیں گے، لیکن صیہونی حکومت کایہ خواب چکنا چور ہو گیا بلکہ نیتن یاہو کے لیے تو یہ ایک ڈراونا خواب بن چکا ہے، ناجائز اسرائیلی حکومت یہ سمجھتی تھی کہ تہران میں حماس کے لیڈر اسماعیل ہنیہ کو قتل کر کے فلسطینی مزاحمتی تحریک کی دفاعی قوت کو کمزور کر دیں گے، جو نہ ہو سکا۔ شہید اسماعیل ہنیہ کی قطر میں ہونے والی نماز جنازہ کے بعد نیا سربراہ یحییٰ سنوار کو منتخب کیا گیا ہے۔حماس کے نئے سربراہ نے مذاکراتی حکمت عملی کو تبدیل کرتے ہوئے ایک نیا انداز اختیار کیا ہے جس کی وجہ سے اسرائیلی حکومت کے پاؤ ں ڈگمگانا شروع ہو گئے ہیں، اس سے پہلے اسرائیلی حملوں پر یر غمالیوں کو محفوظ ترین مقامات پر منتقل کیا جاتا رہا ہے لیکن چند دن پہلے اسرائیل کی وحشیانہ بمباری میں چھ یہودی یرغمالی مارے گئے جن کی لاشیں اسرائیلیوں کو ملیں تو سراپا احتجاج پورا اسرائیل نیتن یاہو کے خلاف سڑکوں پر نکل آیا اور صیہونی وزیراعظم کے استعفیٰ کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے، یرغمالیوں کے ورثا یہ بھی کہتے ہیں کہ حماس سے مذاکرات اسرائیل کی بجائے امریکہ کرے،آخر نیتن یاہو کومکاری کے آنسو بہاتے ہوئے ٹی وی تقریر میں عوام سے معافی مانگنا پڑی کہ یرغمالیوں کی محفوظ واپسی میں وہ ناکام رہے،اسی احتجاج میں شامل ہوتے ہوئے90لاکھ کے ملک میں ٹریڈ یونینز کی ایک دن کی مکمل ہڑتال کی وجہ سے اسرائیل کا کوئی نظام نہ چل سکا۔ حما س کے رہنما یحییٰ سنوار کا یہ بیان کہ اگر اسرائیل نے حماس پر فضائی حملے بند نہ کیے تو پھر یرغمالیوں کی مزید لاشیں وصول کرنے کے لیے تیار رہے۔آپ انداز ہ کریں کہ ابھی تک تو یہ وہ حالات ہیں کہ نہ حزب اللہ نے بھرپور حملہ کیا ہے اور نہ حوثی جوانوں نے‘ بحر احمر’میں کوئی بڑا اقدام کیا ہے، نہ ہی حشد الشعبی عراق نے کوئی بھرپورکارروائی کی جبکہ ان سب کے سرپرست ایران نے اپنے سپرسونک میزائل کو ابھی تک اسرائیل کے خلاف استعمال نہیں کیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان حالات میں فلسطین کے دلیر جوانوں نے،طاقت کے نشے میں مدہوش بڑی قوتوں امریکہ برطانیہ فرانس جرمنی جو فلسطینی عوام سے پرامن رہنے کی درخواست کررہے ہیں اور کروا بھی رہے ہیں، بتا دیا ہے کہ مسئلے کا حل صرف اور صرف یہ ہے کہ آج سے76سال پہلے اس ناجائز ریاست کا جو بیج بویا تھا،اب اس کی جڑیں کھوکھلی ہو چکی ہیں اور تنا بھی دیمک کا شکار ہو چکا ہے۔ اسرائیل کو اگر عافیت درکار ہے تو فوری جنگ بندی کر کے فلسطین سے نکلنے کے لیے آمادہ ہو جائے، کیونکہ فلسطین،فلسطینیوں کا ہے، نہ کہ کسی غاصب ریاست یا قوم کا، اسی طرح برصغیر میں اپنے اقتدار کا سورج غروب ہوتے دیکھ کر کشمیر کو متنازعہ بنا کربرطانیہ نے تقسیم کا منصوبہ ادھورا چھوڑا، لیکن آج نہیں تو کل سب کو ماننا پڑے گا کہ جس طرح فلسطین،فلسطینیوں کا ہے،کشمیر بھی کشمیریوں کا ہے۔ہندوستان نوشتہ دیوار پڑھ لے کہ آخر جس طرح کشمیری عوام قربانیاں دے رہے ہیں اور شہداء کے خون سے کشمیر کی آزادی کا نعرہ تقویت پکڑ رہا ہے تو وہ دن قریب ہیں، جب کشمیر کشمیریوں کو ملے گا۔انشا ء اللہ۔