ٹرمپ کا گریٹر امریکہ کا خواب (2)

بات ہو رہی تھی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جارحانہ پالیسیوں کی جنہوں نے پوری دنیا کو حیرت کے ساتھ ساتھ مصیبت اور اذیت میں بھی مبتلا کر رکھا ہے۔ گزشتہ کالم میں مشرق وسطیٰ کے بارے میں امریکی پالیسی کے ممکنہ نتائج پر کچھ تبصرہ کیا تھا، آج دیکھتے ہیں کہ ٹرمپ کی داخلہ امور پر پالیسیوں اور چین، روس، یوکرین، گرین لینڈ، کینیڈا کے بارے میں سوچوں اور منصوبوں کے ممکنہ حاصلات کی۔ 8جنوری 2025ء کو یعنی امریکی صدر کا عہدہ سنبھالنے سے کم و بیش دو ہفتے پہلے امریکہ کے نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک پریس کانفرنس میں کینیڈا کے خلاف اقتصادی طاقت استعمال کرنے کا اعلان کیا اور کہا تھا کہ وہ کینیڈا کو امریکہ کی 51 ویں ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ میکسیکو اور کینیڈا نے غیر قانونی امیگریشن اور منشیات کی سمگلنگ نہ روکی تو وہ ان پر 25 فیصد ٹیرف لگا دیں گے۔ انہوں نے کہا تھا: کینیڈا کو بھولنا نہیں چاہئے کہ اس کا دفاع امریکہ کرتا ہے، قومی سلامتی کے مقاصد کے لئے گرین لینڈ بھی امریکہ کو ملنا چاہیے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اس وقت خلیج میکسیکو کا نام خلیج امریکہ رکھنے کا اعلان بھی کیا تھا اور کہا تھا کہ وہ خلیج میکسیکو کے نام کی تبدیلی اس لئے کریں گے کہ یہ امریکہ کا پانی ہے۔
میرے قارئین کو شاید یاد ہو کہ ٹرمپ ایسی باتیں اپنے پہلے دور حکومت میں بھی کرتے رہے تھے۔ یوں تو پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے ڈونلڈ ٹرمپ جن کو اکثر یاد کرتے رہتے ہیں، لیکن ان کی 31 دسمبر 2017 ء کا مشہور زمانہ ٹویٹ بھولنے والا نہیں ہے، جس میں انہوں نے کہا تھا: امریکہ نے 15 برسوں میں پاکستان کو 33 ارب ڈالرز کی امداد احمقانہ انداز میں دی، اور ہمارے لیڈروں کو بے وقوف سمجھتے ہوئے انہوں نے ہمیں جھوٹ اور دھوکہ کے علاوہ کچھ نہیں دیا، انہوں نے ان دہشت گردوں کو پناہ دی، جنہیں ہم افغانستان میں پکڑنا چاہتے تھے۔ جب مسند ِ اقتدار پر بیٹھنے سے پہلے ڈونلڈ ٹرمپ نے کینیڈا، گرین لینڈ، میکسیکو اور خلیج میکسیکو کے بارے میں ایک ہی سانس میں کئی ارادے ظاہر کر دیے تو لوگوں نے سمجھا کہ ٹرمپ ماضی کے دور حکومت کی طرح اب بھی بڑھکیں مار رہے ہیں، لیکن حقیقت میں معاملہ ماضی جیسا نہ تھا، ڈونلڈ ٹرمپ اِس بار بہت کچھ کرنے کا سوچ کر آئے تھے اور وقت کے ساتھ وہ اس بارے میں اعلانات بھی کرتے جا رہے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ٹرمپ اپنے ارادوں میں کامیاب ہو جائیں گے؟ ہو سکتا ہے کہ وہ خلیج میکسیکو کا نام تبدیل کرنے میں کامیاب ہو جائیں، لیکن کیا وہ کینیڈا پر قبضہ کر لیں گے یا میکسیکو اور کینیڈا سے امیگرنٹس کو روک سکیں گے۔ اس معاملے میں ان کی کامیابی کے امکانات محدود نظر آتے ہیں۔
اِسی طرح ٹرمپ نے اپنے پہلے دور صدارت کے دوران 2019ء میں گرین لینڈ کو خریدنے اور پانامہ نہر پر قبضے کی بات کی تھی۔ وہ اب بھی گرین لینڈ کو امریکہ کا حصہ بنانے پر مصر ہیں۔ یاد رہے کہ یورپ اور شمالی امریکہ کے سمندری راستے میں واقع ہونے کی وجہ سے گرین لینڈ کا محل وقوع امریکہ کے لئے دفاعی لحاظ سے اہم ثابت ہو سکتا ہے، لیکن اہم سوال یہ ہے کہ کوئی ملک دفاعی یا کسی اور لحاظ سے اہمیت کے حامل کسی بھی خطے یا علاقے پر قبضہ کر کے اپنی ملکیت بنا سکتا ہے؟
یہی نہیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ماہ پہلے 8مارچ کو نیٹو اتحادیوں کے دفاع پر شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر ہمارے نیٹو اتحادی اپنے دفاع کے لئے خاطر خواہ رقم ادا نہیں کریں گے تو ہم ان کا دفاع نہیں کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ کئی سال سے اس نظریے پر قائم ہیں، اور اپنے پہلے دور میں وہ نیٹو اتحادیوں کے ساتھ اس خیال کا اظہار بھی کر چکے ہیں۔ یاد رہے کہ نیٹو کی تشکیل 1949ء میں سرد جنگ کے آغاز کے بعد ہوئی تھی اور اس کا مقصد رکن ممالک کے مشترکہ دفاع کے لئے سیاسی اور فوجی اتحاد قائم کرنا تھا۔ ٹرمپ اپنے پہلے دور حکومت میں بھی نیٹو کے خلاف آرا کا اظہار کرتے رہے تھے۔ انہوں نے ستمبر 2018ء میں اپنے ایک ٹویٹ میں لکھا تھا کہ امریکہ کسی دوسرے ملک کے مقابلے میں نیٹو پر بہت زیادہ خرچ کر رہا ہے، یہ مناسب نہیں ہے اور نہ ہی یہ قابل قبول ہے۔ ٹرمپ کی تنقید کے باوجود امریکی کانگریس نے جنوری 2019ء میں ملک کو نیٹو سے نکلنے سے روکنے کے لئے قانون سازی کے حق میں ووٹ دیا تھا۔
ٹرمپ کی خارجہ پالیسیوں کے خلاف عالمی سطح پر احتجاج ہو رہا ہے تو اندرونی یا داخلی پالیسیوں کی وجہ سے امریکہ کے اندر ٹرمپ کے عوام ان کے خلاف احتجاج کناں ہیں۔ ٹرمپ کے نئے دور میں ان کی متعدد پالیسیوں کے خلاف ہزاروں افراد امریکہ کے بڑے شہروں کی سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں۔ سرکاری عملے میں کٹوتیوں، تجارتی محصولات اور شہری آزادیوں کو ختم کرنے جیسے فیصلوں نے امریکی عوام کو پریشان کر کے رکھ دیا ہے۔ ریلیوں میں شریک زیادہ تر افراد کا کہنا تھا کہ وہ ٹرمپ کی معاشرے کو تقسیم کرنے کی پالیسیوں سے بے حد نالاں اور برہم ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ملک کے اندر اور باقی دنیا کے ساتھ اتنے زیادہ محاذ کھول لئے ہیں کہ ان سب سے نمٹنا یا ان سب پر توجہ دینا ممکن ہی نہیں ہے۔ انہوں نے جو ٹیرف پالیسی اختیار کی ہے اس نے امریکہ کے اندر پہلے سے کووڈ کے اثرات کی وجہ سے بڑھنے والی مہنگائی میں مزید اضافہ کر دیا ہے، جس کی وجہ سے لوگ بے چین ہیں۔ ظاہر ہے کینیڈا اور امریکہ کے تعلقات بھی اب پہلے جیسے نہیں رہے اور گرین لینڈ اور ڈنمارک والے بھی امریکہ کے بارے میں اب کچھ اچھا نہیں سوچتے ہوں گے۔ نیٹو کے رکن 32 ممالک کی سوچ بھی امریکہ خصوصاً ٹرمپ کے بارے میں کوئی اچھی نہیں رہی اور اس حوالے سے یہ سوال سب سے اہم ہے کہ کیا نیٹو کو ختم کر کے امریکہ اور یورپی دنیا ایک اور سوویت یونین کے قیام کی راہ ہموار ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں؟ امیگرینٹس کو لے کر امریکہ اور میکسیکو حتیٰ کہ لاطینی امریکہ کے دوسرے ممالک کے تعلقات بھی سب جانتے ہیں کہ کشیدہ ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی تارکین وطن کے حوالے سے نئی پابندیوں نے اس کشیدگی میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ میرا تجزیہ اور میرا خیال یہ ہے اگر ٹرمپ چومکھی جنگ بھی لڑیں تو ان سارے محاذوں پر کامیاب نہیں ہو سکتے۔ انہیں آج نہیں تو کل اور کل نہیں تو پرسوں مذکورہ ممالک کے ساتھ تعلقات پر نظر ثانی کرنا پڑے گی۔ اس کا ایک اظہار گزشتہ روز سامنے آیا جب یہ خبر ملی کہ امریکی صدر ٹرمپ نے چین کے سوا دنیا کے باقی تمام ممالک پر عائد کردہ ٹیرف تین ماہ کے لئے معطل کر دیا ہے۔ اس محاذ پر پسپائی ہوئی ہے تو دوسرے محاذ پر بھی پسپائیاں مقدر بن سکتی ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی اس سوچ کی تحسین کی جانی چاہئے کہ وہ اپنے ملک کو داخلی سطح پر اور معاشی و دفاعی لحاظ سے ناقابل ِ تسخیر بنانا چاہتے ہیں، لیکن اس مقصد کے لئے انہوں نے جو طریقہ اختیار کیا ہے وہ غالباً مناسب نہیں ہے۔ ٹرمپ کی ٹیرف وار پر بات اگلے کالم میں کروں گا۔
٭٭٭٭٭