اب گنیش، التیت اور کریم آباد ہمارے سر کے بالکل اوپر تھے،یہاں ہوا تیز اور دھوپ گرم تھی
مصنف : عمران الحق چوہان
قسط:155
میں اس تکنیک سے متا ثرہوا اور ہاتھ ڈال کر ریت کو چھو ا۔ ریت اتنی ٹھنڈ ی تھی کہ مکھن وغیرہ کو خراب ہونے اور پگھلنے سے بچا سکتی تھی۔ شاید یہ خیال قدیم ایران کے ”یخ چال“ کی بدلی ہوئی شکل تھا۔4 صدی قبل از مسیح کے آس پاس جب فریج کا تصور تک نہیں تھا ایران میں چیزوں کو گرمی سے بچانے اور محفوظ رکھنے کے لیے ”یخ چال“ (یخ معنیٰ سرد اور چال معنیٰ گڑھایا کنواں)بنائے جاتے تھے جن کے اوپر ایک بلند گنبدبناہو تا تھا۔ اگر چہ ان کی شکل اور حجم گنِیش کے فریجوں سے بہت بڑا تھا لیکن شاید وہ یخ چال ہی ان فریجوں کے آبا ﺅ اجداد تھے۔
”فریج اتنے سارے کیوں ہیں؟“ میں نے دُور تک نظر دوڑاتے ہوئے سوال کیا۔
”سب گھر کا الگ الگ فریج ہے۔ سب اپنا اپنا مکھن رکھتا ہے۔“ عقیل نے مجھے سمجھایا۔ کسی فریج کے ڈھکن کو تا لا نہیں لگا ہوا تھا۔مجھے سب سے پہلا خیال چوری کا آیالیکن میں نے بچوں سے اس کے متعلق نہیں پوچھا۔ غالبا ً کسی ہنزائی کو اس کا خیال نہیں آیا تھا۔ کچھ بچے تالاب کے سرمئی پانی میں نہانے لگے۔ وہ سب خوشی سے چلّا تے اور چھینٹے اڑاتے تھے۔ ہم عقیل اور نوشاد کا شکریہ ادا کر کے باہر سڑک پر آ گئے۔
گنیش پل کی ”مبینہ“آلودہ فضا ء:
گنیش پل اب تھو ڑی ہی دو ر تھا۔ہمارے باقی ساتھ پہلے سے وہاں موجود تھے اور اس بلندی سے نیچے پل کے قریب نظر آ رہے تھے۔ایک ٹریکٹر ٹرالی نیچے جاتی دکھائی دی تو میرے اشارے پر ڈرائیورنے ہمیں بھی بٹھا لیا اور ہم اچھلتے لرزتے گنِیش پُل کی طرف روانہ ہوگئے۔ جن لوگوں نے کبھی ٹریکٹر ٹرالی پر سفر نہیں کیا انہیں اندازہ نہیں ہے کہ یہ سواری یا گاڑی دیگر عام گاڑیوں کی طرح نہیں ہوتی۔ بنیادی فرق یہ ہے کہ باقی گاڑیوں کے برعکس اس میں شاک ابازربرز (Shock Absorbers) کا تکلف بالکل نہیں کیا جاتا۔ زلزلہ پیما آلے (Seismograph) کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کی سوئی معمولی سے معمولی ارتعاش کو بھی محسوس کر کے لرزتی اور لرزاتی رہتی ہے ۔ ٹریکٹر ٹرالی بھی سسمو گراف کے اصول پر بنائی جاتی ہے لیکن اس میں اضافی خوبی یہ ہے کہ یہ معمولی سے معمولی جھٹکے کو بھی کئی گنا بڑھا کر سواریوں تک منتقل کرتی ہے۔ حتٰی کہ وہ جھٹکے بھی آپ تک بڑی تفصیل اور شدت سے پہنچتے ہیں جن کابس، کار یا مو ٹر سائیکل پر احساس تک نہیں ہوتا۔ ٹرالی میں بیٹھا سوار مسلسل یوں اچھلتا لڑھکتا رہتا ہے جیسے جامنوں والی گڑوی میںنمک لگے جامن اچھلتے ہیں۔ میری رائے میں کسی بھی سڑک کی ہمواری چیک کرنے کے لیے ٹریکٹر ٹرالی سے بہتر کوئی آلہ نہیں ہو سکتا۔
چند منٹ میں ہم بھی پل پر تھے۔ ٹرالی سے اتر کر میں نے کچھ لمحے اپنی ہڈیوں پسلیوں اور ہوش و حواس کے اپنے اپنے مقام پر بحال ہونے کا انتظارکیا پھر پُل کی طرف قدم بڑھا دیے۔
دریائے ہنزہ پر واقع چینی انداز کا یہ پل جو زیادہ طویل نہیں ہے، چین کی روایتی لالٹینوں اور شیر کے سابق مجسموں سے سجا ہوا تھا۔ شیر کے مجسمے سابق اس طرح کہ اب ان میں سے اکثر کے صرف نشان باقی رہ گئے تھے یا مسخ ڈھانچے۔ شیر کا مجسمہ بدھ مت کے مطابق اس شہنشاہیت کی علامت ہے جو بدھ کو تیاگ سے پہلے حا صل تھی۔ اس کے علاوہ اسے گوتم بدھ کی تعلیمات کی طاقت اور خوش بختی کی علا مت بھی کہاجاتا ہے۔تو شیر وں کے یہ مجسمے ہم مسلمانوں نے یا تو چُرا لیے تھے یا اس کوشش میں توڑ کر مسخ کر دیے تھے۔ رہے نام اللہ کا۔ اب جس جگہ پہ داغ ہے واں آگے شیر تھا۔لالٹین کی علامت چینی ثقافت میں خوش حالی اور تجارتی ترقی کی علامت ہے جس کا عملی نمونہ ہم سی پیک کی شکل میں دیکھنے والے تھے۔ چوں کہ یہ لالٹینیں پُل پر گرل کی تختیوں پر بنی ہوئی تھیں اس لیے اب تک محفوظ تھیں۔
اب گنیش، التیت اور کریم آباد ہمارے سر کے بالکل اوپر تھے۔التیت جس چٹان پر واقع تھا وہاں سے پانی کا ایک چھوٹا سا آبشار گرتا دکھائی دیتا تھا جو نیچے دریا میں مل رہا تھا۔ یہاں ہوا تیز اور دھوپ گرم تھی۔ ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھا اس لیے کشادہ اور صاف سڑک بہت اچھی لگ رہی تھی۔ پُل کے نیچے جھانک کر دیکھنے سے دریاکا نیلا سبز پانی تیزی سے بہتا دکھائی دیتا تھا۔ یہ پُل بھی انہیں پلوں میں سے ایک تھا جن کی تصویر کھینچنا سختی سے منع ہوتا ہے۔ یہ حکم ایک بورڈ پر لکھا ہوا تھا اور اس کی وہی اہمیت تھی جو ایسے ہر احمقانہ حکم کی ہوتی ہے یعنی صفر۔سیٹلائٹ کے دور میں کوئی عقل کا اندھا جاسوس ہی ہوگا جو کیمرہ گلے میں ڈال کر اس پل پر آئے گا پھر اس پل کی تصویر کھینچنے اور دشمن ملک کی خفیہ ایجنسی کو بھیجنے کی زحمت کرے گا۔ سیٹلائٹ کے دور سے پہلے اس قسم کے حکم کی کوئی اہمیت ہو تی بھی ہوگی لیکن زمانہ بدل چکا ہے مگر ہمارے فرسودہ ذہن اور فرسودہ احکا مات والے بورڈ اب تک نہیں بدلے ۔ (جاری ہے )
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔