عطا آباد جھیل کے وجود میں آ نے سے پہلے دریا زیادہ تیز اور شوخ تھا، اب اس میں وہ پہلے والی جولانی اور تندی نہیں رہی
مصنف : عمران الحق چوہان
قسط:156
ہم سب بڑی سہو لت اور آزادی سے پُل پر گھومتے اور تصویریں بناتے رہے پھر پل کی دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گئے اور خاموشی سے منظر کا لطف لینے لگے۔ عطا آباد جھیل کے وجود میں آ نے سے پہلے یہ دریا زیادہ تیز اور شوخ تھا۔ پانی کا بہاؤ رکنے سے اب اس میں وہ پہلے والی جولانی اور تندی نہیں رہی تھی لیکن پھر بھی دریا کیسا ہی ہو، تیز یا سست، سرمئی، نیلا ، ہرا یا خاکی، دریا میں ہمیشہ ایک جادو، ایک کشش ہوتی ہے۔ پانی کی ایک اپنی رونق ہوتی ہے۔ حیات کا ماخذ ہونے کی وجہ سے شاید انسان کو قرب ِ آب میں زندگی کا احساس زیادہ ہوتا ہے۔
پُل کے شروع میں ایک پختہ کمرہ تھا جس میںپل کا گارڈ غالبا ً دنیا ترک کر کے تنہا بیٹھا تھا، بعد میں اندازہ ہوا کہ وہ اپنی جان کی حفاظت کے لیے احتیاطاً کمرہ بند تھا۔ مجھے باتوں کرنے کا بہت شوق ہے، خصوصا ً اجنبی لوگوں سے، کیوں کہ جو کچھ لوگ بتاتے ہیں وہ کتابیں نہیں بتاتیں لہٰذا میں اس کے پاس جا بیٹھا۔ذوالفقارسے تھوڑی ہی دیر گفتگو کرنے پر پتا چلا کہ وہ دنیا کا دکھی ترین، مجبور ترین اور مایوس ترین آدمی ہے۔ جس جگہ آکر ہم سمجھ رہے تھے کہ کھلی آب و ہوا سے ہماری آنی فانی زندگیوں میں کئی سالوں کا اضافہ ہو گیا ہے وہاں ذوالفقار کی زندگی کو صحت کے حوالے سے شدید اور مہلک خطرات لا حق تھے۔ اس کی وجہ وہ گٹر تھا جو پل کے سامنے ہی التیت کی بلندی سے آتاتھا (جسے میں آبشار سمجھا تھا) اور ہنزہ کا گندہ پانی دریا میں پھینکتا تھا۔ ذوالفقار کو بلدیہ ہنزہ سے شکایت تھی کہ بلدیہ کے غلط فیصلے کے نتیجے میں گندے پانی کی بد بو سے پورا ماحول تباہ ہوگیا ہے۔ اس کے”بقول“ ( ہم میدانی باشندوں کو تو کسی بُو کا احساس تک نہیں ہو رہا تھا) اس جگہ ڈیوٹی کرنے والے سابق کانسٹیبل کو اس بدبو کی وجہ سے ٹی بی ہو گئی تھی اور اب ذوالفقار کو بھی کئی دن سے بخار آرہا تھا یعنی ”آج تم کل ہماری باری ہے“ قسم کی مہلک اور افسوس ناک صورت ِ حال تھی۔اس کی باتیں سن کر مجھے بھی اپنی جان خطرے میں نظر آنے لگی۔ میں تو آوارگی کے ساتھ ساتھ زندگی بخش ماحول میں رہنے آیا تھا جیسا کہ پرانی فلموں میں ہیرو ہِل سٹیشن پر جا یا کرتا تھا جہاں اسے اچھی صحت کےساتھ ساتھ حسین اور چنچل محبوبہ بھی مل جاتی تھی۔ مسافر کو پہاڑی بکرے دیکھنے کا توبارہا اتفاق ہوا ہے جو معمول سے زیادہ بدبو دار ہوتے ہیں لیکن پہاڑی محبوبہ دیکھنے کی سعادت آج تک نہیں ملی ۔ الٹا اب ڈر لگ رہا تھا کہ کہیںکوئی مہلک مرض نہ لاحق ہو جائے چناں چہ ذوالفقار کو بلدیہ کے رحم و کرم پر چھوڑ کے دوستوں کے ساتھ مقدس چٹانوں کی طرف بھاگ نکلا۔
مقدس چٹانیں(Sacred Rocks):
پل کے آخر پر جہاں شاہراہ ِ ریشم بائیں جانب چین کی طرف جاتی ہے اس پر چند قدم چل کر بائیں ہاتھ دریا کے ساتھ چٹانوں کا ایک چھوٹا اور مختصر سلسلہ ہے جن پر سیکڑوں ہزاروں سال پہلے یہاں سے گزرنے والے لوگوں نے کچھ شبیہیں کندہ کی تھیں۔ وہ مسافر اور چترکار وقت کے صحرا میں دھول ہو کر بکھر گئے لیکن پتھروں کے سینے پر کندہ یہ نقوش امر ہو گئے۔ بعض اوقات ایسی باتوں میں بڑا جادو ہوتا ہے جو سمجھ نہیں آتیں۔ اور میں تو سدا کا تجسس کا مارا ہوں۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے کہ بچپن میں ابن ِ صفی اور اشتیاق احمد کے ناول پڑھ پڑھ کر سب سے بڑی خواہش جاسوس بننے کی تھی جس کے لیے بہت خواری کاٹی۔ غربت کا یہ عالم تھا کہ بوقت ِ ضرورت دشمن سے نپٹنے کے لیے جیبی چاقو، دشمن زیر کرنے کے بعد اس کی مُشکیں کسنے کے لیے نائلون کی ڈوری اور اندھیرے میں قتل یا دشمن کا سراغ ڈھونڈنے کے لیے چھوٹی ٹارچ تک خریدنے کے پیسے نہیں ہوتے تھے۔(جاری ہے )
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم “ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں )ادارے کا مصنف کی آراءسے متفق ہونا ضروری نہیں ۔