اسدخاندان کے دور حکمرانی کا خاتمہ: شامی مسلمانوں کو مبارک ہو

  اسدخاندان کے دور حکمرانی کا خاتمہ: شامی مسلمانوں کو مبارک ہو
  اسدخاندان کے دور حکمرانی کا خاتمہ: شامی مسلمانوں کو مبارک ہو

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

شامی  ”حیتہ تحریر الشام“ گروپ کے رہنما ابو محمد المجولانی نے دمشق کی عظیم الشان اموی جامع مسجد مین خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک کو اسد خاندان کی تباہ کاریوں سے پاک کر دیا گیا ہے بشارالاسد ملک کو تباہ و برباد کرکے اور ایرانی خواہشات کی بھینٹ چڑھا کر ملک سے فرار ہو چکا ہے۔ شام میں شاید ہی کوئی ایک گھر ہوگا جو اسد کی تباہ کاریوں کا نشانہ نہیں بنا ہوگا“۔

حیتہ تحریر الشام کے جنگجوؤں نے تمام سرکاری ذرائع ابلاغ بشمول ریڈیو، ٹیلی ویژن پر کنٹرول حاصل کرلیا ہے وزارت دفاع سمیت تمام اہم عمارات و تنصیبات پر بھی قبضہ کرلیا ہے جبکہ ایرانی سفارتخانے کی عمارت دھماکے سے اُڑا دی گئی ہے۔

شام میں 2011ء سے جو خانہ جنگی شروع تھی، ہمارے ہاں اس بارے میں بہت زیادہ تو کیاکم از کم معلومات بھی میسر نہیں، ہمیں نہیں معلوم کہ شام میں جو ہوتا رہا ہے وہ کیا ہے اور ایسا کیوں  ہوتا رہا ہے ویسے ہمیں تو درست طور پر اپنے یہاں پاکستان میں ہونے والے واقعات بارے بھی حتمی انداز میں کچھ پتہ نہیں ہوتا،چہ جائیکہ شام میں جو کچھ ہو رہا ہے اس بارے میں ہمیں پتہ ہو۔ہمارے پاس معلومات چھن کر آتی ہے۔ اقوام مغرب کے ذرائع سے چھن کر آنے والی معلومات سچ ہوتی ہوں گی لیکن وہ ایسا سچ ہوتی ہیں جو مغرب ہمیں بتانا چاہتا ہے۔

تاریخی اعتبار سے حسن البناء کی عظیم الشان تحریک ”اخوان المسلمون“ کی بڑھتی ہوئی پاپولیریٹی اور عرب نوجوانوں میں احیاء اسلام کے بڑھتے ہوئے رجحانات کا کاؤنٹر کرنے کے لئے عرب قوم پرستی کی تحریک شروع کی گئی۔ایک آرتھوڈوکس کرسچین دانشور استاد مائیکل افلاک نے عرب  قوم پرستی کو فروغ دینے کے لئے  1947ء میں صلاح الدین بیطار کے ساتھ مل کر عرب سوشلسٹ بعث پارٹی تشکیل دی گئی۔ 1958ء میں شام اور مصر نے مل کر یونائیٹڈ عرب ریپبلک تشکیل دی جس کی قیادت مصری جمال عبدالناصر کے ہاتھ میں تھی اس نے شامی سیاسی پارٹیوں پر پابندی لگا دی جس میں بعث پارٹی بھی شامل تھی جو اس اتحاد کی داعی تھی 1961ء میں شامی فوج نے بغاوت کرکے دمشق پر قبضہ کرلیا اور دو ملکی اتحاد کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔ 1963ء میں فوجی افسروں نے ایک بعثی کیبنٹ تشکیل دی اور امین الحفیظ کو صدر مقرر کر دیا۔ 1966ء میں صلاح جدید کی قیادت میں بعث پارٹی کے اندر ہی انقلاب آیا اور امین الحفیظ کا دھڑن تختہ کر دیا گیا۔ مائیکل افلاک اور صلاح الدین بیطار کو گرفتار کرلیا گیا۔ نورالدین العطاسی صدر اور حافظ الاسد وزیر دفاع مقرر کئے گئے۔ 1971ء میں حافظ الاسد نے شامی اقتدار پر قبضہ کرلیا اور اسی دن سے شامی مسلمانوں کی اکثریت مسائل میں گھری ہوئی ہے۔ حافظ الاسد کے اقتدار پر قبضے کے بعد عوام نے مظاہرے شروع کر دیئے کہ آئین کے مطابق صدر کا مسلمان ہونا ضروری ہے جبکہ حافظ الاسد دھریا تھا اور اس کی ساری حکومت ہی منکرینِ خدا پر مشتمل تھی اس نے نہ صرف اس مخالف تحریک کو کچل دیا بلکہ اس آئین کا ہی خاتمہ کر دیا جو صدر سے مسلمان ہونے کا مطالبہ کرتا تھا۔ حافظ الاسد 2000 میں اپنے انتقال تک شامی اقتدار پر قابض رہا۔ پھر اس کے بیٹے بشارالاسد نے اقتدار سنبھال لیا جو 8دسمبر 2424ء دمشق سے فرار ہو کر ماسکو جانے تک اقتدار سے چمٹا رہا۔ گویا 54/55 سالوں تک اسد خاندان شامی مسلمانوں پر دجال کی طرح غالب رہا۔اسد خاندان کا تعلق علوی شیعہ فرقے سے ہے۔ ویسے شیعہ انہیں پسند نہیں کرتے تھے کیونکہ ان کی بہت سی باتیں بہت سی بنیادی باتیں شعبوں سے نہیں ملتی ہیں۔ علوی شراب بھی پیتے ہیں۔ روزے نہیں رکھتے، حج نہیں کرتے، ان کی اجتماعی عبادت گاہیں نہیں ہیں یہ اپنے آپ کو حصرت علی کرم اللہ وجہہ سے جڑے ہوئے اور ان کی اولاد/ نسل سے کہتے ہیں لیکن ان کے تصورات شیعہ مکتب فکر سے لگا نہیں کھاتے۔

بعث ازم اور اس کی بنیادوں پر قائم کی جانے والی بعث پارٹی عربوں میں سیکولز ازم اور سوشلزم کے فروغ کے ذریعے اسلامی جمعیت کے خاتمے کے لئے بنائی گئی تھی۔ عرب نیشنلزم کے ذریعے عربوں کو فرعونی تہذیب کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی گئی۔ پھر خطے کو مسلسل عدم استحکام کا شکار بنائے رکھنے کے لئے شیعہ، سنی، کرد اختلافات کو بھی تازہ دم رکھنے کا بندوبست کیا گیا۔ صدام حسین کو شیعہ اکثریتی ملک عراق پر مسلط کیا گیا اس نے شیعوں کو زچ / تنگ کیا۔ کرد بھی اس کے خلاف شمشیر بکف رہے صدام حسین خود سنی تھا لیکن اس نے اپنی حکومت بچائے رکھنے کے لئے سنی رعایا کو بھی نہیں بخشا۔ اس نے اپنے دامادوں کو بھی سرعام پھانسی پر لٹکا دیاکیونکہ وہ اپنے سسر صدام حسین کی حکومت کے خلاف سازش کرتے پائے گئے تھے دوسری طرف سنی اکثریتی ملک شام پر ”اسد خاندان“ کو مسلط کر دیا۔اس نے اپنی سنی رعایا پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے پھر 2011ء سے ملک شام خانہ جنگی کا ایسا شکار ہوا کہ ہزاروں نہیں لاکھو ں انسان ہلاک و زخمی ہوئے اور لاتعداد گھرانوں کو ہجرت کرنا پڑی۔ یہاں خانہ جنگی بھڑکانے میں امریکہ، روس کے علاوہ ترکی، ایران اور دیگر ممالک فریق کے طور پر شامل رہے ہیں۔ بشارالاسد کی حتمی شکست کے ساتھ ہی اسرائیل نے اسرائیل و شامی سرحدوں کے درمیان قائم بفر زون پر قبضہ کرلیا ہے۔ دوسری طرف امریکہ نے داعش کو کسی بھی ردعمل سے روکنے کے لئے اس کے ٹھکانوں پر ایک بار پھر تواتر سے حملے کرنا شروع کر دیئے ہیں۔ بشارالاسد کی ماسکو فرار ہونے اور سیاسی پناہ لینے کے بعد ملک شام میں بھی بعث پارٹی کی حکمرانی کا خاتمہ ہو گیا عراق میں پہلے بھی ایسا ہو گیا تھا  لیکن عرب نیشنلزم یعنی بعث ازم کے فروغ نے عربوں کی اسلامی حمیت کمزور کر دی ہے۔ 26کروڑ سے زائد عربوں پر 90لاکھ اسرائیلی یہودی مسلط ہی نہیں ہیں بلکہ ان کے سینے پر مونگ دل رہے ہیں مشرق وسطی جنگ کی بھٹی بنا ہوا ہے۔ ہر طرف مسلمان (عربی و عجمی) مر رہے ہیں، زخمی ہو رہے ہیں، بے گھر ہو رہے ہیں، صیہونی اسرائیل من مانیوں میں مصروف ہے، عظیم اسرائیل کے قیام کے لئے ہر لمحہ آگے بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ غزہ میں ہزاروں فلسطینی شہید کئے جا چکے ہیں، لاکھوں مجروح ہیں، بے گھر ہیں، آزاد فلسطینی ریاست کا قیام تو دور کی بات ہے ان کے لئے تو مہاجر کیمپ بھی محفوظ نہیں ہے۔ اسرائیلی حماس کو ختم کرتے کرتے فلسطینیوں کی نسل کشی پر اتر آیا ہے۔ عربوں میں نہ تو حمیت ہے اور نہ ہی طاقت کہ اسرائیل کو ظلم و بربریت سے روک سکیں بعث ازم اپنا آپ دکھا چکا ہے۔ عربوں نے اپنے ہاتھوں سے ان قوتوں کو کچلا، کمزور کیا جو اسرائیل کا ساتھ روک سکتے تھے اسلامی حمیت کی جگہ عرب قوم پرستی نے لے لی ہے۔

مزید :

رائے -کالم -