دسویں قسط، معلوماتی سفرنامہ۔ ۔ ۔ کھول آنکھ زمین دیکھ
آخر میں ایک مومنہ
میں جس وقت ان لوگوں سے فارغ ہواتو ٹرین نیویارک شہر کی حدود میں داخل ہوچکی تھی۔ میں اللہ کا شکر ادا کرکے اور سکون کا سانس لے کر بیٹھا تو حنا نے مجھ سے کہا کہ آپ بہت صاحبِ علم ہیں، میرے بھی کچھ اعتراضات ہیں انہیں حل کردیں۔وقت کم تھا اور اتنا موقع نہیں تھاکہ میں اپنے بارے میں اس کی غلط فہمی دور کرتا اس لیے اختصار کے ساتھ کہا کہ فرمائیے۔ اس نے کہا کہ قرآن میں ایک لفظ کے نجانے کتنے مفہوم ہوتے ہیں۔۔۔میں نے اس کی بات بیچ سے اچک کر کہا کہ یہ درست نہیں۔ میں نے اپنا رجسٹر اٹھاکر کہا کہ دیکھیں میں ایک کتاب لکھ رہا ہوں۔ میں ا س میں اگرایک لفظ لکھتا ہوں تو ڈکشنری میں اس کے بہت سے مفاہیم ہوں گے، مگر میری کتاب میں اس کا ایک ہی مطلب ہوگا جس کا فیصلہ سیاق وسباق کرے گا۔ یہی معاملہ ہر کتاب کا ہوتا ہے اور یہی معاملہ قرآن کا بھی ہے۔ میں نے مزید کہا کہ آپ نے کبھی امتحان میں یہ سوال نہیں حل کیاکہ سیاق وسباق کی روشنی میں پیراگراف کی تشریح کریں۔ اگر آپ اپنا یہی اصول جو قرآن پر اپلائی کررہی ہیں اس پر اپلائی کریں گی تو آپ کو صفر ملے گا۔
معلوماتی سفرنامہ۔ ۔ ۔ نویں قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
میری بات اس کی سمجھ میں آگئی۔ پھر اس نے ایک دوسرے انداز سے اپنی بات سامنے رکھی تو اندازہ ہوا کہ اس کا تعلق ایک خاص مکتبِ فکر سے ہے۔بہرحال میں نے قرآن کی روشنی میں اس کا جواب اختصار کے ساتھ دے دیاکیونکہ ٹرین رک چکی تھی۔ تاہم تھوڑی دیر قبل عیسائیوں کے مقابلے میں میری جس ’’علمی برتری‘‘ کا وہ اعتراف کرچکی تھی اب وہ اس کی نگاہوں میں بے وقعت ٹھہری۔ مجھے انسانی طبیعت کے اس پہلو کا خوب اندازہ ہے کہ انسان حق پرست نہیں ہوتا ، خود پرست ہوتا ہے۔ دلیل کے بعد اپنی ذات ونظریات کی نفی کرکے حق قبول کرنے والے لوگ خال خال ہی ہوا کرتے ہیں۔حنا نے مجھ سے کہا کہ وہ ای میل پر اپنا مقدمہ پیش کرے گی۔ میں نے کہا کہ میں انتظار کرونگا۔ تادمِ اشاعت یہ انتظار ختم نہیں ہوا۔
ہدایت حاصل کرنے کا معیار
شیرون نے مجھ سے بار بار کہا تھاکہ آپ خدا سے دعا کریں کہ وہ آپ کوہدایت دے۔ میں نے اسے بتایا کہ ہم لوگ تو دن میں کئی دفعہ نماز میں یہ دعا کرتے ہیں۔تاہم اس رات ایک واقعہ پیش آیا جس سے مجھے اس بات کا عملی تجربہ ہوا کہ راہ پانے کے لیے صرف دعا کافی نہیں بلکہ انسان کو ہدایت کے حصول میں عملاً بھی سنجیدہ ہونا چاہیے اور اس طرزِعمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے جو ہدایت حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے۔
ہماری ٹرین دس بجے کے قریب نیو یارک کے پین اسٹیشن ( یہ ’’پین‘‘ دراصل امریکی ریاست پینسلوینیا کا مخفف ہے) پر پہنچی۔ٹرین سے اتر کر میں لاؤنج میں آیا۔ یہ ایک بہت خوبصورت لاؤنج تھا جو دیکھنے میں کسی اےئر پورٹ کا لاؤنج لگتا تھا۔ ویٹنگ ایریا میں موجود فون سے میں نے بہن کو فون کیا تو انہوں نے بتایا کہ میرے بہنوئی یعنی فہیم بھائی پہنچنے والے ہوں گے۔ کچھ دیر انتظار کے بعد فہیم بھائی نظر آئے۔ میں نے انہیں سات سال بعد دیکھا تھا مگر ان میں کوئی خاص تبدیلی نہیں نظر آئی۔
ہم اسٹیشن سے نکل کر سب وے میں آگئے۔ یہاں معلوم ہوا کہ ہماری مطلوبہ ٹرین اس وقت بند ہوچکی ہے۔ نیویارک کاریلوے نظام دنیا کا سب سے بڑا نظام ہے۔ ٹورنٹو کے برخلاف اس میں ٹرینوں کے درجنوں روٹس ہیں۔ خیر ہم گھر سے قریب ترین والی ٹرین میں بیٹھے۔ ہمیں کوئنز کے علاقے میں جانا تھا۔ میرے بہنوئی چونکہ اس علاقے میں نئے آئے تھے اورگھر جانے کے لیے اس ٹرین میں نہیں بیٹھتے تھے اس لیے ٹرین سے اتر کر گھر کی مخالف سمت میں چلے گئے۔ رات کا وقت ، سنسان علاقہ ۔ کوئی شخص نہ تھا کہ صحیح راستہ بتاتا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہم کافی دیر تک بھٹکتے رہے۔ بہت چلنے کے بعد ایک صاحب ملے جنہوں نے بتایا کہ ہم الٹی سمت جارہے ہیں۔ ہم واپس پلٹے اور بہت دیر چلنے کے بعد گھر پہنچے۔ اسٹیشن سے گھر پہنچنے میں تین گھنٹے لگے۔ جتنی کوفت ٹرین کے بارہ گھنٹے کے سفر میں نہیں ہوئی تھی اس دوران ہوگئی۔ شدید ٹھنڈ ، ہاتھوں میں بھاری سامان، سارے دن کی تھکن، بے یقینی کی کیفیت اور سنسان رات میں لٹیروں کا خوف۔ ان سب چیزوں کے ساتھ پیدل چلنا کافی تکلیف دہ تجربہ تھا۔تاہم بعد میں احساس ہوا کہ یہ خدا کی طرف سے ایک عملی تربیت تھی۔
میں اس دوران اللہ سے دعا مانگتا رہا۔ مگراپنی منزل پر پہنچنے کے لیے صرف دعا پر انحصار نہیں کیا بلکہ راستے کی نشانیوں اور خارج کی رہنمائی سے بھی پوری مدد لی۔ بیشک خدا نے مدد کی کہ کوئی حادثہ نہ ہوا اور رات ایک بجے رہنمائی کے لیے ایک شخص اپنے گھر سے باہر کھڑا مل گیا۔ تاہم گھر ہم اس لیے پہنچے کہ ہم نے بلا تعصب خارج کی رہنمائی کو قبول کیا۔ انسان آخرت اور خدا کے معاملے میں بھی انہی اصولوں کی پیروی شروع کردے جن کی دنیا کے معاملے میں کرتا ہے تو ولیوں کے درجے پرپہنچ جائے۔ مگر انسانوں کا معاملہ یہ ہے کہ وہ دنیا کے معاملے میں بہت ہوشیار ہوتے ہیں۔ لیکن آخرت کے معاملے میں بہت احمق۔
چاند کا دن میں نظارہ
گھر پہنچ کر بہن سے ملا۔ وہ بے چاری کب سے ہمارے انتظار میں پریشان ہورہی تھیں۔ میری تینوں بھانجیاں ۔ندرت، ماہ رخ اور عائشہ ۔ سوچکی تھیں ۔ بہن نے کئی قسم کے کھانے بنارکھے تھے۔ مگر میری ساری بھوک خواری کی نذر ہوچکی تھی۔تاہم آنے والے دنوں میں اس خواری کا حساب برابر ہوگیا۔
اگلا دن میں نے آرام کرتے ہوئے گزارا۔ اس کے بعد اگلے دودن تک ہم روز صبح کے وقت نیویارک کو دیکھنے کے لیے نکل جاتے۔دراصل فہیم بھائی کی جاب کے اوقات دوپہر سے رات تک تھے۔ اس لیے وہ صبح کے وقت ہی فارغ ہوتے ۔ویسے شہر دیکھنے اور گھومنے کا اصل مزہ رات میں تھا جب روشنیوں کی چکاچوند آنکھوں کو خیرہ کردیتی۔ لیکن اس کے لیے ویک اینڈ کا انتظار کرناپڑتا۔لہٰذا ہم دن میں ہی گھوم لیے۔ میں نے ان دو دنوں میں تمام راستے اور ٹراسپورٹ سسٹم اس طرح سمجھ لیا کہ آنے والے دنوں میں تنِ تنہا پورا نیویارک کھنگال لیا۔
نگہت باجی نے میرے دن کے وقت شہر گھومنے پر بڑاخوبصورت تبصرہ کیا کہ نیو یارک کو دن میں دیکھنا ایسا ہی ہے جیسے چاند کا نظارہ دن میں کیا جائے۔ بعد میں رات کے وقت جب ان جگہوں پر آیا تو سو فیصد اس تبصرے کو درست پایا۔ بلا شبہ یہ شہر چاند ہے بشرطیکہ رات میں دیکھا جائے۔
جنتِ ارضی اور جنتِ سماوی
امریکا کم وبیش ایک برِاعظم جتنا وسیع ہے ۔یہاں فطرت اپنے ہر رنگ میں جلوہ گر ہے۔عظیم سمندر ، طویل ساحل، لق ودق صحرا، بلندپہاڑ ، بہتے دریا، سر سبز و شاداب میدان، گھنے جنگلات، شدید گرمی، سخت سردی، ہر سو پھیلی بہار اور اجاڑ خزاں۔ غرض قدرت کی ہر صناعی یہاں دیکھنے کو مل جاتی ہے۔اس پر انسانوں کی کاریگری نے سونے پہ سہاگے کا کام کیا ہے۔ جدید سائنس کی مدد سے مغربی تہذیب نے انسانی زندگی کو جن سہولتوں سے بہر ہ مند کیا ہے، وقت کی رفتار کو جس طرح تیز کیا ہے، فطرت کی نیرنگیوں کے ساتھ انسانی عقل وہنر کے جوکرشمے دکھائے ہیں، ان کے مشاہدے کے لیے یہ بہترین جگہ ہے۔
یہ سرزمین اپنے معاشی استحکام کی بنا پرغریب ملکوں کے نوجوانوں کا خواب ہے۔ اپنے حسن و صناعی کی بنا پر دنیا بھر سے آنے والے سیاحوں کی منزل ہے۔ اپنی آزاد خیالی کی بنا پر بند معاشروں کے افراد کے لیے مقامِ عیش ہے۔ یہاں انسان کو نہ صرف اپنی قیمت ملتی ہے بلکہ اس قیمت سے وہ ہرلذت خرید سکتا ہے۔ زندگی کا ہر حسن، دنیا کی ہر آسائش اور دورِ جدید کی ہر سہولت باا فراط اور باآسانی یہاں دستیاب ہے۔ وہ جوانی جو زندگی کے ہر رنگ کو رنگین تر اور دنیا کے ہر حسن کو حسین تر بناکر دکھاتی ہے، اپنے ظہور کے لیے اگر یہ زمین پالے تو انسان بے اختیار کہہ اٹھتا ہے:
اگر فردوس بر روئے زمیں ہست
ہمیں است و ہمیں است وہمیں است
مگر یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہے۔ میں نے بارہا ان فلک بوس عمارتوں کو ایک جنگل کی طرح محسوس کیا۔ میں نے تصور کی آنکھ سے دیکھا کہ انتہائی بلندی پر واقع اپنے شاندار دفاتر کی کھڑکیوں سے جب ٹریلین ڈالرز کا کاروبار کرنے والے سرمایہ دار باہر جھانکتے ہوں گے تونیچے چلتے ہوئے انسان انہیں حشرات الارض محسوس ہوتے ہوں گے۔ ان میں سے نجانے کتنے ہوں گے جو ڈالروں کی جھنکار کے پیچھے اپنا ملک، اپنی زمین، اپنی ہوا، رشتے ناطے ، چاہنے والے اور دوست احباب چھوڑ کر یہاں آئے ہوں گے۔مگر یہ ڈالر درختوں پر نہیں لگتے۔ انسان کو اپنا آپ بیچنا پڑتا ہے۔ اپنا ضمیر، ایمان، دین، تہذیب اور بعض اوقات اولاد بھی تیاگنی پڑتی ہے۔
لوگ ایسے معاشرے کا حصہ بننے پر مجبور ہوجاتے ہیں جس کی بنا سود پر ہے، جس کے ریشے ریشے میں قماربازی کی روح سرائیت کی ہوئی ہے، جہاں عریانی ایک قدر ہے ، جہاں شراب ایک ضرورت ہے، جہاں مفاد پرستی بقا کا راز ہے۔ غرض شجرِ ایمان کی جڑ کاٹ ڈالنے والاہر تیشہ یہاں زندگی کا لازمہ ہے۔ یہ بات شاید آخرت فراموش لوگوں کے لیے قابلِ توجہ نہیں۔ مگر وہ جنہیں اپنے رب کا یہ فرمان یاد ہے : ’’اس زمین پر جو کچھ ہے اسے ہم نے اس کی زینت بنایا ہے تاکہ آزمائیں کہ ان میں سے کو ن اچھے عمل کرتا ہے۔ اور جو کچھ اس پر ہے ہم اسے چٹیل میدان بنادینگے ‘‘، (الکہف 18: 8-7 )، ان کی زندگی کا نصب العین یہ دنیا اور اس کی رنگینیاں نہیں بن سکتیں۔
منکرِ خدا و منکرِ آخرت تہذیب کا گہوارہ یہ سرزمین ایسی آزمائش ہے جس میں پڑنے کے بعد آدمی کا بچ نکلنا آسان نہیں۔ یا تو وہ ایک مجاہد کی زندگی گزارے وگرنہ شعوری نہ سہی لاشعوری طور پر انسان خود کوشیطان کے آگے سجدہ ریز ہونے پر مجبور پاتا ہے۔یہاں آنے سے قبل میں نے سنا تھا کہ مغرب میں رہ کر بھی برائی سے بچا جاسکتا ہے۔ مگر آنے کے بعد میں نے دیکھا کہ یہاں تو اکثر لوگوں کے لیے برائی کا معیار ہی بدل جاتا ہے۔
جو تھا نا خوب بتدریج وہی خوب ہوا
اس کے برخلاف ایک جنت خدا نے بنائی ہے۔جس کا حسن کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کان نے سنا اور نہ کسی دل پر اس کا خیال گزرا۔ یہ وہ چیز ہے جس کے لیے عمل کرنے والوں کوعمل کرنا چاہئیے، مقابلہ کرنے والوں کو مقابلہ کرنا چاہئیے۔ا س جنت کی قیمت بس اتنی ہے کہ انسان اس دنیا کو جنت نہ سمجھے۔ اسے اپنی منزل نہ سمجھے، ایک سرائے سمجھے اور خود کو ایک مسافر۔ جو شخص یہ بات سمجھ لے گا وہ خود بخود اللہ کی فردوس تک جاپہنچے گا۔
ایک پاکستانی
ایک روز فہیم بھائی کے ساتھ بس میں جاتے ہوئے ایک مقامی آدمی ملا۔ یہ جان کر کہ ہم پاکستانی ہیں وہ بہت خوش ہوا۔ اس نے بتایاکہ ایک پاکستانی نے اس کی بیماری کے دوران نہ صرف دو سال تک اس کے خاندان کا خیال رکھا بلکہ اس کے علاج پر اٹھنے والا دس ہزار ڈالر کا خرچہ بھی برداشت کیا۔ اور بعد میں یہ پیسے بھی معاف کردیے۔ ایک پاکستانی کے مثالی رویے کی بنا پر اب ہر پاکستا نی اس کی نگاہ میں محترم ہوگیا ۔ جس کا اظہار اس کے لفظ لفظ سے ہورہا تھا۔ اس نے ہمیں جاب کے سلسلے میں مدد کی پیشکش بھی کی۔
مجھے خیال آیا کہ دورِ زوال سے قبل سارے مسلمان ایسے ہی ہوتے ہوں گے۔ لوگوں کو ہر دم ان کی ذات سے بلا تخصیص مذہب و نسل نفع پہنچتا تھا۔ چنانچہ لوگ ان کے اخلاق و کردار سے متاثر ہوکر اسلام قبول کرلیتے حالانکہ یہ مسلمان ان پرتبلیغ کاکوئی کام نہیں کرتے تھے۔ بس ان کا طرزِ عمل دلوں سے تعصب ختم کردیتا تھا اور پھر جب لوگ اسلام کی تعلیمات کو سنتے تو اسے اپنے دل کی آواز سمجھ کر قبول کرلیتے۔ آج مسلمان ایک دفعہ پھر یہی طرزِ عمل اختیار کرلیں تو اکیسویں صدی صرف اسلام کی صدی بن جائے گی۔
نیویارک کے شرمیلے باسی
ان دو دنوں میں شہر کی تمام اہم اور قابلِ ذکر جگہیں فہیم بھائی نے مجھے دکھادیں اور نیویارک کا نقشہ بھی سمجھادیا۔ شہر میں گھومتے پھرتے احساس ہوا کہ ہر چند کے ٹورنٹو کے مقابلے میں موسم کم ٹھنڈا تھا مگر لوگ نسبتاً جامے میں تھے۔ اس کا بظاہر سبب یہ محسوس ہوا کہ یہاں کے لوگ زیادہ شرم والے ہیں۔ مگر آنے والے ہفتے میں جب تیز گرمی پڑی اور لوگوں کو جس طرح جامے سے باہرآتے دیکھا تو اندازہ ہوا کہ شرم جس کھیت کی مولی ہے ، اس کی زرخیزی کے لیے یہ زمین بہت ناموزوں ہے۔ دراصل بات یہ تھی کہ کینیڈا میں زیادہ ٹھنڈ پڑتی ہے اس لیے وہا ں جیسے ہی موسم قدرے بہتر ہوتا ہے ، لوگوں کو گرمی کی آمد کا احساس ہوجاتا ہے۔جبکہ یہاں اِس درجہ کی ٹھنڈ کا مطلب ٹھنڈ ہی ہوتا ہے اور لوگ پینٹس جیکٹ میں ہی ملبوس رہتے ہیں۔ اگلے دن ایک خاتون کو اٹلانٹک سٹی میں دیکھا کہ شوق میں اسکر ٹ جیسا ہوادار لباس تو پہن لیا مگرکھلی فضا میں جب یخ بستہ ہوا جسم سے ٹکرائی تو سی سی کرنے لگیں۔
(جاری ہے۔ گیارہویں قسط پڑھنےکیلئے یہاں کلک کریں)
( ابویحییٰ کی تصنیف ’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ دور جدید میں اردو زبان کی سب زیادہ پڑھی جانے والی کتاب بن چکی ہے۔انہوں نے درجن سے اوپر مختصر تصانیف اور اصلاحی کتابچے بھی لکھے اور سفر نامے بھی جو اپنی افادیت کے باعث مقبولیت حاصل کرچکے ہیں ۔ ان سے براہ راست رابطے کے لیے ان کے ای میل abuyahya267@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔