یہ جہان چھوڑ دیتے اگر اختیار ہوتا
تیرا ایک ایک وعدہ یُوں ہی ناگوار ہوتا
" اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا"
نہ میَں دل کسی کو دیتا، نہ میں دلفگار ہوتا
نہ یہ دامنِ تمناکبھی تار تار ہوتا
نہ حیات اپنے بس میں، نہ ممات اپنے بس میں
یہ جہان چھوڑ دیتے اگر اختیار ہوتا
وہ جو آ کے ہم سے ملتے، ہمیں اِس میں عار کیا تھی
اُنہیں ہم بُلا ہی لیتے، اگر اعتبار ہوتا
مجھے کیا خبر تھی گھر پر ، ہے ترے رقیب بیٹھا
نہ میں گھر پہ تیرے جاتا، نہ میَں شرمسار ہوتا
دلِ خونچکاں بھی روتا، میرے ہم قفس بھی روتے
کبھی جب قفس میں اُن سے کہیں ذکرِ یار ہوتا
تری یاد کے یہ غنچےجو نہ شاخِ دل پہ کھِلتے
تو یہ دل چمن نہ ہوتا، کوئی خار زار ہوتا
کلام : ڈاکٹر مقصود جعفری (اسلام آباد)