انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 58

انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 58
انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 58

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

امریکہ میں مختلف سرکاری اداروں کی طرف سے تحویل میں لیے گئے سمگل شدہ افراد میں اکثر یت عورتوں اور بچوں کی ہوتی ہے۔2007میں ’’محکمہ صحت اور انسانی خدمات‘‘ کے شعبے نے ڈیڑھ ہزارافراد کو پکڑا،جو مختلف امریکی ریاستوں اور بیرونی ممالک سے تعلق رکھتے تھے۔ان میں69فیصد عورتیں جبکہ 110فیصد نابالغ لڑکیاں شامل تھیں ۔غیر سرکاری تنظیموں کا موقف ہے کہ سرکا ری اداروں کے تحویل میں لیے گئے افرادحقیقی تعداد کی نمائندگی نہیں کرتے ہیں۔کیوں کہ بہت سے افراد قانون نافذ کرنے والے اداروں سے تعاون نہیں کرتے اورنہ ہی اپنے آپ کو سمگلنگ کے شکارافراد کے طور پر ظاہر کرتے ہیں۔

انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 57 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

بیرون ممالک سے عورتوں کو جسم فروشی اور گھریلوخد مات کے لئے سمگل کیا جا تا ہے جبکہ مردوں،جن میں کم پڑھے لکھے اور غیرہنرمند افراد کی تعدادزیادہ ہوتی ہے، کو جبری مشقت اور جسمانی استحصال کا سامنا کرناپڑتا ہے ۔ امریکہ میں غیر ملکیوں کی ایک بڑی تعداد بوگس دستاویزات پر سفر کرکے پہنچی ہوئی ہے۔ایسے افراد کی اکثریت ایشیاء،افریقہ اور مشرقی یورپین ممالک سے تعلق رکھتی ہے ۔ایجنٹ مافیا پہلے ان کو جنوبی افریقہ لے جاتا ہے جہاں ان کے جعلی کاغذات تیار کیے جاتے ہیں۔وہاں سے سمندری راستے کے ذریعے ان کو پہلے یورپ اورپھر امریکہ منتقل کیا جاتاہے۔
’’ڈیپارٹمنٹ آف جسٹس‘‘ کے مطابق سمگل شدہ افراد میں80فیصد عورتیں شامل ہوتی ہیں ۔ امریکہ کے لیے سمگل کیے جانے والوں میں 60سے 70ہزارافراد مشرقی ایشیائی ،5ہزار لاطینی امریکہ اور 4ہزاریورپین ممالک کے باشندے شامل ہوتے ہیں۔ ان سے امریکی معیشت کے پانچ شعبوں میں جبری مشقت لی جاتی ہے۔ سمگل شدہ افراد کی 46 فیصد تعداد جنسی خدمات فراہم کرتے ہیں جبکہ27فیصد گھریلو ملازمت کیلئے رکھے جاتے ہیں۔10فیصدتعداد زرعی شعبے میں استحصال کا سامنا اور 5فیصد مختلف کارخانوں اور بیکری کی دوکانوں پر انتہائی کم اجرت پرکام کرتی ہے۔باقی بچ جانے والے ریستورانوں اور ہوٹلوں میں گاہکوں کیلئے ’’کام‘‘کرتے ہیں۔
مذکورہ شعبوں میں کام کی مانیٹرنگ کا کوئی موثر نظام موجودنہ ہونے کے سبب مالکان ان غیر ملکیوں کا بے دریغ استحصال کرتے ہیں’’پوشیدہ ا غلام‘ کے مصنف کا کہنا ہے کہ سمگلرزامریکہ میں سکیس انڈسٹری میں اپنے ملک اور اپنے جیسے پس منظر کے حامل افراد کو لاتے ہیں تاکہ ان کو آسانی سے قابو میں رکھا جاسکے ۔قحبہ خانوں کی اکثریت کے مالکان ایشین۔میکسیکن اور مشرقی یورپین تنظیموں کے جرائم پیشہ نیٹ ورکس سے منسلک ہیں۔ دنیا کی سپرپاور اور اپنے آپ کو انسانی حقوق کا علمبرادکہلانے والے امریکہ میں عورتوں اور بچوں کی ایک بڑی تعداد کو مقامی جرائم پیشہ لارڈز ملک کے ایک حصے سے دوسرے میں سمگل کرکے ان کو غیر اخلاقی جرائم کاارتکاب کرنے پرمجبور کرتے ہیں ۔حال ہی میں کیے جانے والے ایک سروے سے امریکہ میں مقامی انسانی سمگلنگ کی صورتحال کا انداز ہ خطر ے سے دوچارکم عمر افراد کی حالت زار سے لگا یا جاسکتا ہے جن کاجبری استحصال ہورہا ہے ۔امریکہ میں لاکھوں افرادآج بھی جنسی زیادتی اور جبری مشقت کا شکارہیں ’’اسٹیر اوروینر‘ کی مرتب کردہ ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ میں ہرسال 2لاکھ واقعات ایسے رونماہوتے ہیں جن میں نابالغوں کا جنسی استحصال کیا جاتاہے ۔اس وقت 3لاکھ کے قریب افراد سیکس انڈسٹری سے وابستہ ہیں۔ان میں صرف وہ لوگ شامل ہیں جو سمگلنگ کے خطرے سے دوچار ہیں اورنابالغ ہیں، تاہم بالغ افراد اس رپورٹ میں شامل نہیں۔جبری مشقت کے شکارافراد اورقحبہ خانوں میں بالغ شہریوں کی تعداد اس سے الگ ہے۔اگر گھروں سے بھاگے ہوئے یا گھروں سے باہر نکالے گئے اور حرامی بچوں، جن کو والدین قبول نہیں کرتے ،ان میں شامل کیے جائیں تویہ تعداد ڈیڑھ ملین سے تجاوز کر جاتی ہے۔چائلڈلیبر اور مذکورہ بالا افراد کی تعداد سے امریکہ میں پائی جانے والی انسانی سمگلنگ کا درست اندازہ لگانا آسان ہو جاتاہے۔
ہیمر ،فنکلہر اور سیڈلاک کی ایک رپورٹ (2002 )کے مطابق ، گم شدہ، اغواء ہونے والے ، گھروں سے بھاگے ہوئے اور گھروں سے باہر نکالے گئے بچوں کی تعداد سے نابالغوں کی سمگلنگ کے ممکنہ اندازوں کی اضافی معلومات دستیاب ہو سکتی ہیں اور کسی حد تک یہ بھی معلوم کیا جا سکتا ہے کہ امریکہ میں کتنے بچوں کی زندگیوں کو خطرہ ہے جو سمگلرز کا آسان ہدف تصور کیے جاتے ہیں ۔اس کو ایک مثال سے یوں واضح کیا جا سکتا ہے کہ1999میں ایک وقت ایسا بھی تھا جب 16لاکھ 82 ہزار نو سو نوجوانوں کو گھروں سے بھاگے ہوئے یا گھروں سے نکالے گئے افراد میں شامل کیا گیا۔ان میں سے 71 فیصد کے متعلق خدشہ ظاہر کیا گیا کہ ان کا جنسی استحصال کیا جا سکتا ہے۔
’’ فیملی اینڈ یوتھ سروسز بیورو‘‘ کے فنڈز سے گھروں سے بھاگے ہوئے افراد پر منعقد کیے گئے ایک پروگرام میں سمگل ہونے کے خدشے سے دوچار شہریوں کے متعلق مزید اعدادو شمار سامنے آئے۔2007 میں 50ہزار آٹھ سو نوجوانوں نے مذکورہ بیورو سے بے گھر افراد پر کیے جانے والے مختلف پروگراموں کے ذریعے سہولیات حاصل کیں۔ان نوجوانوں میں 54 فیصد عورتیں تھیں۔مزید یہ کہ خدمات فراہم کرنے والوں سے 7لاکھ 70 ہزار افراد مستفید ہوئے۔البتہ یہ بات معلوم نہیں کہ بازاروں اور گلیوں میں گھومنے والے کتنے نوجوانوں نے سہولیات کے حصول کے لیے مذکورہ اداروں سے رابطہ نہیں کیا۔نوجوانوں کی مقامی سمگلنگ کی ضخامت کے اشارے قومی سطح پر ہونے والی نابالغوں کی گرفتاری کے اعدادو شمار سے بھی ملتے ہیں۔2003 میں ہونے والے ایک قومی سروے میں22 لاکھ20 ہزار نابالغوں کی گرفتاری کا حوالہ بھی دیا گیا ہے ۔اسی طرح امسال کاروباری بنیادوں پر جسم فروشی کے حق میں آواز بلند کرنے والے ڈیڑھ ہزار نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا ۔ ان میں 69 فیصد لڑکیاں اور 14 فیصد 15سال سے کم عمر بچے شامل تھے۔نابالغوں کی گرفتاری کے اعدادو شمار کے بر عکس اس تعداد میں 1994سے لے کر 2003 تک مجموعی طور پر 31 فیصد اضافہ ہوا۔
مذکورہ بالا حوالہ جات کے علاوہ امریکہ بھر میں ہونے والی سرکاری و غیر سرکاری سروے رپورٹوں میں بلحاظ جنس الگ الگ تعداد کو ظاہر نہیں کیا گیا۔امریکہ میں کتنے لڑکے اور لڑکیاں استحصال سے دو چار ہیں اس کا اندازہ لگانے کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ جنس کی بنیاد پر سروے کیا جائے تاکہ ان وجوہات اور عوامل کا سراغ لگایا جا سکے جن کے ہاتھوں نوجوان مجبور ہو کر سیکس انڈسٹری کا رخ کرتے ہیں۔انسانی سمگلنگ کے خطرے سے دوچا افراد کی صحیح تعداد ،سمگل شدہ افراد کی شناخت اور سرکاری اداروں میں رجسٹرڈ نوجوانوں کی درست تعداد معلوم کرنے کا کوئی جامع نظام امریکہ میں موجود نہیں۔اگرچہ جبری مشقت اور جنسی مقاصد کے لیے ایک ہی طریقے سے لوگوں کو سمگل کیا جاتا ہے تاہم جبری مشقت کی دنیا میں نابالغوں کو ترجیح دی جاتی ہے کیوں کہ ان کو بالغوں کی نسبت آسانی سے قابو میں رکھا جا سکتا ہے اور یہ سستی لیبر کا کام بھی دیتے ہیں۔نابالغ کام کی بہتر شرائط کا بہت کم مطالبہ کرتے ہیں۔
ِ ’’بین الاقوامی تنظیم برائے ‘‘لیبر کی 2002 کی ایک رپورٹ میں بیان کیا گیا ہے کہ ’’ بد قسمتی سے ہم جنسی مقاصد کی نسبت جبری مشقت کے لیے ہونے والی اندرون اور بیرون امریکہ انسانی سمگلنگ کے متعلق بہت کم معلومات رکھتے ہیں۔رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ افریقی اور لاطینی امریکن اور کم ترقی یافتہ علاقوں میں بچوں سے جبری مشقت لینے کے ٹھوس شواہد پائے جاتے ہیں‘‘۔مذکورہ بالا تنظیم کی ایک دوسری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ لڑکیوں کی اکثریت کو جنسی استحصال کے ذریعے منافع کمانے اور گھریلو ’’ خدمات ‘‘ کے لیے جبکہ لڑکوں کو کمرشل فارمنگ ،چھوٹے جرائم اور منشیات کی تجارت میں استحصال کے لئے سمگل کیا جاتا ہے تاہم چائلڈ لیبر کے اعداد و شمار کے ایک جائزے میں امریکہ کے اندر پائی جانیوالی جبری مشقت کے لئے انسانی سمگلنگ کے متعلق قدرے گہرائی سے روشنی ڈالی گئی ہے۔1999ء میں امریکی یوتھ کے ایک قومی ڈیٹا سروے میں14سے15سال کے درمیان عمر کے افراد کی سرگرمیوں کے بنیادی عوامل کوسامنے لایا گیا ۔ اس عمر کے لڑکے اور لڑکیاں ریستورانوں ،لیبر مارکیٹوں اور چھوٹے درجے کی صنعتوں میں ملازمت کرتے ہیں جہاں انہیں جبر و زیادتی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بچوں کی خدمات فراہم کرنے کے نجی شعبوں سے بھی ایسے لڑکوں اور لڑکیوں کی ایک بڑی تعدادوابستہ ہے۔مذکورہ بالا دونوں رپورٹوں سے معلوم ہوتا ہے کہ نا بالغوں میں ملازمت کرنے کا رجحان روز بروز بڑھتا جا رہا ہے ۔
’’چائلڈ لیبر کولیشن‘‘کے مطابق امریکہ میں12سے17سال کے نا بالغوں کی 55لاکھ تعداد ملازمت کرتی ہے ۔اس ادارے کی 2007ء میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زراعت کے مختلف شعبوں میں5لاکھ کم عمرافراد کام کرتے ہیں جن کی اکثریت اقلیتی گروپوں سے تعلق رکھتی ہے ۔اسی طرح گلیوں اور بازاروں میں 50ہزار نا بالغ افراد منشیات فروخت کرنے ،بیکری اور سویٹس کی دوکانوں پر کام اور اسلحہ کے مراکز میں انتہائی کم اجرت پر ملازمت کرنے پر مجبور ہیں ۔بہت سے نا بالغ امریکی شہری بازاروں میں نشہ آور اشیاء فروخت کرنے کو ایک فوری پیسے کمانے کا آسان ذریعہ سمجھتے ہیں ۔ وہ اس سرگرمی سے منسلک خطرات کو محسوس نہیں کرتے ہیں۔’’چائلڈ لیبر کولیشن‘‘کا کہنا ہے کہ ممنوعہ فروشی میں ملوث امریکی یوتھ کو انتہائی بلند درجہ حرارت میں لمبے وقت تک کم اجرت پر کام کرنا پڑتا ہے ۔ان کوپینے کے پانی ،باتھ روم اور کھانے پینے کی اشیاء تک رسائی حاصل نہیں ہوتی ۔ ان کو دو ران کام بہتر کارکردگی کا صلہ کبھی نہیں دیا جاتا بلکہ ان کو نا پسندیدہ ماحول میں صرف کام کرنے کا کہا جاتا ہے۔بعض اوقات یہ منشیات فروش دن بھر کے لئے مطلوبہ کوٹہ نہ ملنے پر بھاگ جاتے ہیں یا ان کو اپنے ’’لیڈر‘‘کے غصے کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور خالی ہاتھ گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔بہت سے والدین ایسے بچوں کو لاحق خطرات سے واقف نہیں ہوتے اور ان کو یقین ہے کہ انہوں نے اپنے بچوں کو باعزت اور قانوناً جائزکمپنیوں میں کام کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔2004ء میں امریکی ڈیپارٹمنٹ آف لیبر کی طرف سے جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں ایسے 6ہزار بچوں کی نشاندہی کی گئی جو اجرت اور کام کے دورانیے کی تقسیم کے غیر معیاری اور مضر صحت ماحول میں کام کر رہے تھے ۔یہ لیبر قوانین کی صریحاً خلاف ورزی تھی ۔گزشتہ برسوں کی نسبت اس تعداد میں کمی وفاقی حکومت کی طرف سے چائلڈ لیبر کے متعلق سخت قوانین کے نفاذ اور پالیسیوں کا نتیجہ تھا ۔امریکہ میں چائلڈ لیبر کی نگرانی کرنے کے لئے آج کل 34محکمے سر گرم ہیں اور ہر ایک کو 95ہزار سے زائد محنت کشوں کے معاملات کا جائزہ لینا پڑتا ہے اور ان کے مسائل حل کرنا پڑتے ہیں جو کہ ناکافی ہیں۔مذکورہ بالا اعدادو شمار سے لیبر سے وابستہ امریکی آبادی کے ایک بڑے حصے کو انسانی سمگلنگ کے حوالے سے درپیش خطرات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔مزید تحقیق سے مقامی انسانی سمگلنگ کی ضخامت کو سامنے لایا جا سکتا ہے۔
(جاری ہے )اگلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔