انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 59
اوپر بیان کردہ مختلف اندازوں اور رپورٹوں کے باوجود ،کئی وجوہات کی بناء پرامریکہ میں پائی جانیوالی مقامی اور بین الاقوامی انسانی سمگلنگ کی صحیح تعداد کے متعلق یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ اگر مزید تحقیق کی جائے تو مقامی انسانی سمگلنگ کے شکار افراد کی تعداد میں کئی لاکھ کی تعداد میں اضافہ سامنے آ سکتا ہے ۔اس کی کئی ایک وجوہات ہیں۔مثلاً یہ جرم دیگر کئی جرائم میں چھپا ہوا ہے،اس جرم کے شکار افراد کے ڈیٹا کی نوعیت ،مقبول عام ،اندازے اور انسانی سمگلنگ کی جغرافیائی صورتحال اس کی درست تعداد معلوم کرنے میں اہم رکاوٹ ہیں۔اسی طرح دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ سمگلنگ کے شکار افراد کا اپنے ایجنٹ کے کنٹرول میں رہنا اور ان کے پاس امیگریشن کے دستاویزات کی کمی سرکاری اہلکاروں سے ایسے افراد کو نظروں سے اوجھل رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں جو صحیح تعداد میں کمی کا باعث بنتے ہیں۔یہ عوامل انسانی سمگلنگ کے جرم کی نشاندہی اور اس کے خاتمے میں اہم رکاوٹ ہیں۔مذکورہ بالا عوامل میں اس وقت مزید اضافہ ہو جاتا ہے جب دستیاب اعدادو شمار اور جنسی استحصال کے لئے سمگل شدہ عورتوں اور بچوں کے متعلق غلط معلومات کو بلا جانچ پڑتال کے تسلیم کر لیا جاتا ہے۔ اس الجھن کو قانون نافذ کرنے والے ادارے اور خدمات فراہم کرنیوالی تنظیموں کے درمیان ’’سمگلنگ کے شکار افراد‘‘کے متعلق تاریخ اور یقین پر پائے جانے والے اختلاف نے مزید گھمبیر کرر کھا ہے۔
انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 58 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
کلاوسن(2006)کے ایک جائزے میں مذکور ہے کہ ان چیلنجوں کے باوجود انسانی سمگلنگ کے متعلق اپنائے گئے طریقہ ہائے کار اور اعدادو شمار کو کارآمد بنانے اور اس پر انحصار کو بہتر بنانے کے لئے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔امریکہ میں اس مقصد کے لئے کئی ریاستوں میں نا بالغوں کے جنسی استحصال کے متعلق صحیح معلومات کا نیا رپورٹنگ نظام اور عوامی آگاہی کا جامع پروگرام متعارف کرایا گیا ہے جس سے بہتر نتائج برآمد ہوئے۔مثلاً سوفوک کے ضلع میں 2003ء میں صرف آدھی درجن ایسے بچوں کی نشاندہی کی گئی جن کا جنسی استحصال ہو رہا تھا لیکن نئے نظام کے ذریعے 2005ء میں ایسے بچوں کی تعداد 5درجن سے زائد سامنے آئی ۔ان میں 59لڑکیاں تھیں،لہٰذا قدرے ٹھوس اور با اعتماد معلومات کا حصول ،وفاقی ،ریاستی اور مقامی حکومتوں کے وسائل کی مناسب ترسیل اور انسانی سمگلنگ کی روک تھام ،سمگلرز کے خلاف عدالتی کارروائی اور اس جرم کے شکار افراد کے تحفظ کے لئے اپنائی گئی پالیسیوں اور پروگراموں میں کلیدی عنصر کی حیثیت رکھتا ہے۔
سمگلنگ کے شکار افراد کون ہیں؟
تمام دستیاب زرائع اس طرف اشارہ کرتے ہیں کہ انسانی سمگلنگ کا شکار ایسی نوجوان معصوم لڑکیاں ہوتی ہیں جن کو ان کے آبائی ممالک سے ورغلاء کر لایا جاتا ہے اور ان کو جبراً امریکہ کی سیکس انڈسٹری میں بھیج دیا جاتا ہے۔محض لڑکیوں کو نہیں بلکہ ہر عمر کے مردوں ، عورتوں اور بچوں کو جبری مشقت اور جنسی استحصال کے لیے سمگل کیا جاتا ہے۔سمگلنگ کے شکار افراد میں بیرون ملک سے سمگل کیے گئے یا پہلے سے امریکہ میں مقیم تارکین وطن شامل ہو سکتے ہیں۔اس سے قبل ان لاکھوں افراد کا ذکر کیا گیا ہے جو ہر وقت سمگلنگ کے خطرے سے دوچار رہتے ہیں ۔ ذیل میں ان عوامل کا ذکر کیا گیا ہے جو انسانوں کے سمگل ہونے کی راہ ہموار کرتے ہیں۔یہ مندرجہ ذیل ہیں۔(ا) عمر کا ایک خاص حصہ، (ب) غربت یا مالی مشکلات،(ج)جنسی ناہمواری، (د)بیروز گاری،(س)جنسی بدسلوکی،(ص)صحت کے مسائل،(ظ) انتظامی و سیاسی بداعنوانی اور(ظ) جرائم کی بلند سطح۔
بلاتفریق عمر، جنس،ایمیگریشن مرتبے یا شہریت کے ،جبری مشقت اور جنسی مقاصدکے لیے سمگلنگ کے شکار افراد میں کچھ چیزیں مشترک ہوتی ہیں۔جیسے سمگل کرتے وقت جبر،دھوکے اور طاقت کا استعمال وغیرہ ہیں۔سمگلرز ایسے افراد کو اپنا شکار بناتے ہیں جو بنیادی ضرو ریات زندگی کے حصول کے لیے جدو جہد میں مصروف رہتے ہیں۔سمگلرز اپنے شکار کے لیے ایسے معاشروں اور طبقات کا انتخاب کرتے ہیں جہاں عورتوں اور لڑکیوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔کچھ ممالک سے سیاحت کے فروغ کے نام پر اور کچھ سے سستی لیبر اور غیر محفوظ کام کے لیے عورتوں کو سمگل کیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ مقامی اوربین الاقوامی سطح پر سمگلنگ کا شکار افراد دیگر خصوصیات کا ایک دوسرے سے تبادلہ کرتے ہیں۔جو ان کو سمگل ہونے کے خطرات سے دوچار کردیتا ہے۔ ان میں جوانی کی عمر ،غربت، محدود تعلیم ،روزگار کے مواقع کی کمی، خاندان کی طرف سے کسی امداد کا نہ ملنا وغیرہ شامل ہیں۔ ماضی میں ہونے والی جنسی بدسلوکی ، صحت مند سوچ کا فقدان اور پرخطرعلاقوں میں رہائش بھی مذکورہ عوامل میں شامل کیے جاسکتے ہیں۔ بین الاقوامی سمگلنگ کے شکار افراد داخلی خلفشار جس میں خانہ جنگی اور معاشی بحران شامل ہوتا ہے میں ملوث ہونے سے اجتناب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے افراد کی ایک بڑی تعداد غریب ممالک سے تعلق رکھتی ہے جہاں یہ جرم آمدن کا ایک اہم ذریعہ بن چکا ہے۔ سمگلرز ایشیائی غریب مشرقی یورپین افریقی اور لاطینی امریکی ممالک کے غیر یقینی حالات کا فائدہ اٹھا کر روزگار کی پیشکش کرتے ہیں اور عورتوں اور بچوں کے خلاف ہونے والے تشدد اور امتیازی سلوک کی بنا پر سادہ لوح لوگوں کو بلیک میل کرتے ہیں۔ انسانی سمگلنگ کے جرم میں اس وقت مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ جب مذکورہ بالاعلاقوں کے ممالک سیاسی ابتری حکومتی کرپشن اور مسلح کشمکش میں مبتلا ہوں۔ کیونکہ بہت سے لوگ ان حالات سے خوفزدہ ہو کر کسی محفوظ مقام پر منتقل ہونے کو ترجیح دیتے ہیں۔2006کی کانگرس کی سالانہ رپورٹ میں نشاندہی کی گئی کہ انسانی سمگلنگ کے شکار افراد زیادہ گنجان آباد ممالک سے تعلق رکھتے ہیں۔ مثًلا امریکہ میں ای سلواڈور کے 28 فیصد جبکہ میکسیکو کے 20 فیصد افراد اس جرم کے شکار افراد میں شامل ہیں۔
انسانی سمگلنگ کا باعث بننے والی جبری مشقت۔
23 ستمبر 2006 کے ’نیپال ڈیلی نیوز ‘میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں امریکہ میں جبری مشقت کو یوں بیان کیاگیا۔ میامی، ٹا مپا ارلینڈو اور نیو اورلینباز کے بشمول جنوب مشرق کے تمام پناہ گھروں سے لیبرکیمپوں کے مالکان منشیات کے عادی بے گھرافریقن امریکی افراد کو 50امریکی ڈالرفی ہفتہ کے عو ض اور رہائش و خوراک کے وعدے پر کیمپوں میں کام کرنے کے لیے بھرتی کرتے ہیں ۔ کیمپوں کے یہ مالکان ان ورکرز کو گا ڑیوں میں بھر کر شمالی فلوریڈااور کیرولینا کے دور دراز کیمپوں میں لے جاتے ہیں۔ کیمپوں میں ان ورکرز کو کوکین دی جاتی ہے۔ اس نشہ آور کوکین کی قیمت ان کی تنخواہ سے ہر ماہ کاٹ لی جاتی ہے۔ ہر شام مالکان ورکرز کو کیمپ کے کمپنی سٹور سے ٹیکس فری جنسی تحریک پیدا کرنے والی بیئر، کوکین اور سیگریٹ خریدنے کی پیشکش کرتے ہیں۔ یہ اشیا خریدنے والے ورکرز ہمیشہ مالکان کے مقروض رہتے ہیں۔ اشیا کی قیمت وصول کرنے کے بعد اوسطًا ہر ورکر کوایک ڈالر میں میں سے 30 سینٹ ملتے ہیں۔
2005میں وفاقی حکومت کے حکم پر پولیس نے کارروائی کی تو اس صورتحال کا انکشاف ہوا کہ یہ کیمپ کتنی آسانی سے شمالی فلوریڈا میں امریکی شہریوں کو استعمال کر رہے تھے۔ سمگلرز اپنے شکار افراد کو ملازمت کے بہتر مواقع کے جھوٹے وعدوں کے ذریعے امریکہ کی طرح منزل کے آسودہ اور خوشحال ممالک میں پہنچانے کے لئے انتظار میں رکھتے ہیں۔ اس طرح انسانی سمگلنگ کے راستے کم خوشخال ممالک کے لوگ ہمسایہ یاصنعتی ممالک میں داخل ہونے کے لئے اختیار کیے جاتے ہیں جہاں بلند معیار زندگی پایاجاتاہے۔ سمگلرز کی پیشکش قبول کرنے والوں کی دستاویزات چھین لی جاتی ہیں۔ ان کے خاندانوں کو ضرر پہنچانے کی دھمکیا ں دی جاتی ہیں یا ان پر قرضوں کا بوجھ ڈال دیاجاتا ہے جس کو وہ اتارنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ لہذا ہر صورت میں ان کو بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کے کام کا دورانیہ بڑھا دیاجاتا ہے اور ان کو جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے خصوصاًامریکہ میں غیر قانونی طور پر مقیم افراد کا استحصال زیادہ کیا جاتا ہے۔(جاری ہے )
انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 60 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں