انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 60
جنسی مقاصد کے لئے مقامی نا بالغ افراد کی سمگلنگ
امریکی بچوں سمیت نا بالغ ،خطرے سے دوچار افرادمیں تعدادکے لحاظ سے سب سے زیادہ ہیں۔’’جنسی مقاصدکے لئے مقامی سمگلنگ کے شکار افراد کون ہیں؟‘‘اس سوال کے جواب میں کارآمد معلومات نا بالغوں کوبھرتی کرنیوالوں سے دستیاب ہوتی ہیں جو بالغ افراداور جسم فروشی کے ذریعے کم سنوں کا جنسی استحصال کرتے ہیں۔امریکہ میں ہر روزنا بالغ افراد کو دھوکے ،جبر اور طاقت کے ذریعے جسم فروشی میں اتارا جارہاہے۔اس شعبے میں آنے والی لڑکیوں کی اوسط عمر 12سے14سال بتائی جاتی ہے لیکن ضلعی سطح پر خدمات فراہم کرنے والوں کا کہناہے کہ اس سے بھی کم عمر لڑکیاں سیکس انڈسٹری میں داخل ہورہی ہیں۔لڑکیوں کے برعکس لڑکوں کی عمر 11سے13سال بتائی جاتی ہیں۔
ماہرین کا کہناہے کہ مندرجہ ذیل عوامل نا بالغوں کے جسم فروشی میں مبتلا ہونے میں اہم کردارادا کرتے ہیں۔
انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 59 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
مثلاً کم عمری ،غربت اور جنسی بد سلوکی کے علاوہ گھریلو تشدد،والدین کا نہ ہونا اور امدادکے پروگرام کی عدم موجودگی بھی کم سنوں کے اس شعبے میںآنے کے اہم عوامل ہیں۔گھروں سے بھاگے ہوئے یا بے گھر نوجوان بھی ہر وقت سمگلنگ کے خطرے سے دو چار رہتے ہیں جن کو آسانی سے جسم فروشی میں مبتلا رکھا جا سکتا ہے۔اس ایشو پر تحقیق کرنے والوں کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ امریکہ سمیت دنیا بھر میں غربت ہی وہ بنیادی سبب ہے جس کی وجہ سے دنیا کے قحبہ خانے آبادہیں۔امریکہ میں سفیدفام اور سیاہ فام باشندوں سمیت دنیا کی ہر نسل کے افراد جسم فروشی میں ملوث پائے جاتے ہیں۔اگرچہ گھریلوتشدد اور بچپن میں جنسی بد سلوکی سے دو چار ہونے والی لڑکیوں کی بھی ایک بڑی تعداد امریکی سیکس انڈسٹری میں شامل ہے لیکن وہ بھی کسی نہ کسی حوالے سے مالی مشکلات کا شکارہوتی ہیں ۔سماجی خدمات فراہم کرنے ،قانون نافذ کرنیوالے اور انسداد سمگلنگ کی تحریکوں میں کام کرنیوالوں کا موقف ہے کہ غربت اور انسانی سمگلنگ بہت سے حوالوں سے ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔ان میں بھی کم آمدنی کی حامل لڑکیاں سمگل ہونے کے خطرے سے دوچار رہتی ہیں۔امریکہ میں جسم فروش عورتوں کی 33سے 84فیصد تعداد ایسی ہے جن کے ساتھ بچپن میں ایک سے زیادہ بار کئی افرادنے جنسی زیادتی کی ۔مثلاًبوسٹن میں120عورتوں کے انٹرویو کئے گئے ۔ان میں سے 68فیصدکے ساتھ 12سال سے پہلے جنسی عمل کیاگیا ۔ ان کی اکثریت سکول میں پڑھنے والی بچیوںیا گھروں سے بھاگی ہوئی لڑکیوں کی تھی۔
گھروں سے بھاگے ہوئے اور بے گھر امریکی شہری
امریکہ میں اندرون ملک انسانی سمگلنگ میں مقامی شہریوں کی ایک بڑی تعداد ان افرادکی ہے جو کم عمری میں گھروں سے نکالے ہوئے یا بے گھر ہوتے ہیں۔’فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن‘ (ایف بی آئی)کی ایک رپورٹ (2006) کے مطابق قانون نافذ کرنے والے اداروں نے امریکہ سے 18سے کم عمر 50 ہزار لڑکیوں اور 40 ہزار لڑکوں کو تحویل میں لیا جو گھروں سے بھاگے ہوئے تھے ۔گھروں یا بحالی کے مراکز سے بھاگی ہوئی لڑکیاں جلد ہی سمگلرز یا قبحہ خانوں کے دلالوں کے ہاتھ لگ جاتی ہیں۔انسانی سمگلنگ اور استحصال پر امریکہ میں ہونے والی تقریباً تمام تحقیقات میں گھروں سے بھاگنے اور جنسی استحصال کے باہمی تعلق کو متفقہ طور پر تسلیم کیا گیا ہے۔مثلاً فرانسسکو میں 96فیصد، بوسٹن میں72 فیصد اورشکاگو میں 56 فیصد ایسی عورتوں کی شناخت کی گئی جو گھروں سے بھاگ کر جسم فروشی میں ملوث ہوئی تھیں۔سنگ (seng) کی ایک رپورٹ میںیہ تعداد 77 فیصد ظاہر کی گئی ہے۔ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ گھر سے بھاگنے کے بعد48 گھنٹے کے اندر ایسے نوجوان سمگلرز یا دلالوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔لڑکیوں کی طرح لڑکوں کا بھی جنسی استحصال کیا جاتاہے۔ ایک سٹڈی رپورٹ میں ایسے لڑکوں کی دو تہائی تعداد کا حوالہ دیا گیا ہے جو گھروں سے نکلنے سے قبل جسم فروشی میں ملوث تھے۔’’ سیتل کیمشن برائے چلڈرن اینڈ یوتھ ‘‘کے ایک تحقیقی کام میں ایسے بچوں کی تعداد 50 فیصد ظاہرکی گئی ہے جن کو جنسی بے راہروی کی پاداش میں گھروں سے باہر نکالا گیا۔
امریکہ میں ہم جنس پرستوں کی بھی ایک بڑی تعداد پائی جاتی ہے۔ان کی 35 فیصد تعداد گھروں سے بھاگے ہوئے افراد پر مشتمل ہے۔لڑکوں میں پائی جانے والی جنسی بے راہ روی سے قطع نظر جسم فروشی میں ملوث بالغ افراد کی 95 فیصد تعداد لڑکوں میں دل چسپی لیتی ہے۔بلا تفریق جنس، جب نابالغ اپنے گھروں کو چھوڑتے ہیں تو وہ بازاروں اور گلیوں کو گھروں کی نسبت کم خطرناک محسوس کرتے ہیں۔ ایک دفعہ بے گھر ہونے یا گلی میں آنے پر نوجوانوں کو آسانی سے ورغلایا جا سکتا ہے ۔ایسے حالات میں وہ کسی کے ساتھ رابطے میں نہیں ہوتے اور نہ ہی وہ زندگی گزارنے کے ہنر یا تجربے سے واقف ہوتے ہیں ۔وہ بنیادی ضروریات زندگی کے حصول کے لیے دوسروں کے مرہون منت ہوتے ہیں ۔یہی محتاجی ان کو جرائم کی دنیا میں لے جاتی ہے اور ان کے استحصال کا سبب بنتی ہے۔امریکہ کے شہری علاقوں کی سکیس انڈسٹری میں ایسے نابالغوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کا استحصال حیرانی کی بات نہیں کیوں کہ امریکہ میں طرز زندگی نوجوانوں کو خطرات میں ڈالنے میں خو د اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اب چونکہ جسم فروشی شہری حدود سے باہر نکل رہی ہے اس لیے دیہی یا مضافاتی علاقوں سے شہروں میں بچوں کو سمگل کرنے کا رجحان کم ہو رہا ہے ۔ لیکن بچوں کے جنسی یا جسمانی استحصال میں اضافہ امریکی معاشرے میں پائے جانے والے خاندانی نظام اور شخصی آزادیوں کا نتیجہ قراردیا جاتا ہے ۔ لہذا مقامی قوانین اور ثقافتی قدریں اپنے بنیادی مقاصد کو پورا کرنے میں نا کام ہو چکی ہیں۔ بچوں پر والدین ، خاندا ن یا سرپرستوں کا اثر نہ ہونے کے برابر ہے۔ قانون معاشرتی کے بجائے ریاستی معاملات کی نگرانی کر تا ہے۔ قانون کسی عمل کے سرزد ہونے سے قبل حرکت میں نہیں آتا جبکہ نوجوانوں کو شباب کی عمر میں داخل ہونے سے قبل جسمانی تبدیلیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی جنسی پچیدگیوں سے متعلق بہت سے معاملات میں آگہی درکار ہوتی ہے۔
امریکہ سمیت پوری دنیا میں سمگلنگ کے شکار افراد کی شناخت ایک اہم مسئلہ بن چکی ہے۔ اس سے قبل ہم نے کئی ممالک میں سمگلر ز اور سمگلنگ کے شکار افراد میں تفریق کرنے کے طریقہ کار کے متعلق ذکر کیا ہے۔ امریکہ میں سمگلنگ کے شکار افراد کی شناخت جرم کی پوشیدہ نوعیت کی وجہ سے ایک اہم مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ امریکی معاشرے کے کئی اہم طبقات سمگلنگ کے شکار افراد کے ساتھ رابطے میں ہوتے ہیں اور ان سے ’’خدمات ‘‘حاصل کرتے ہیں۔ جس طرح مقامی تشدد اور جنسی زیادتی کے شکار افرا د زخم خوردہ ہوتے ہیں اسی طرح کے زخم سمگلنگ کے شکار افرادکو لگنے کا خطرہ ہر وقت مو جو د ہوتا ہے۔
ان کی ایک بڑی تعداد تیزی کے ساتھ حاملہ ہو رہی ہے اور متعدد بیماریوں کا شکار ہے۔ ان کو ابتدائی طبی امدا د دینے والے عملے کا انتہائی تربیت یا فتہ ہونا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ قانون نافذ کرنے والے اہل کاروں کا باصلاحیت ہونا بھی ضروری ہے جو سمگلنگ کے شکار افراد کی شناخت کر سکیں۔
امریکہ میں انسانی سمگلنگ کے راستے
امریکہ کے ساتھ میکسیکو کی طویل سر حدواقع ہے جوا نسانی سمگلنگ کا سب سے قدیم اور زیادہ استعمال ہونے والا راستہ تصور کیا جاتا ہے۔ میکسیکو کے مافیا گروپ کا گوانتامالاکی طویل سڑک پر راج ہے جو امریکہ سے ملتی ہے۔ اس کے ذریعے غیر قانونی تارکین وطن کو امریکہ میں داخل کیا جاتا ہے۔ 2005ء میں میکسیکو سر حد کے ذریعے داخل ہونے والوں میں مقامی باشندوں کی تعداد 86 فیصد تھی ۔ ایک رپورٹ کے مطابق ہر سال گوانتا مالا کے 75 ہزار کسان جنوبی میکسیکو کی سر حد عبور کر کے امریکہ میں داخل ہوتے ہیں۔ اس سڑک کا کنٹرول ڈرگ لارڈذ کے ہاتھوں میں ہے۔ یہ لارڈذ منشیات اور اسلحہ کی سمگلنگ کے لیے بھی اس راستے کو استعمال کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ میکسیکو کی سر حد کیلیفورنیا اور ٹیکساس سے بھی ملتی ہے۔ اس سرحدی راستے کے استعمال سے روایتی بندر گاہوں کے راستے ان تارکین کے لیے تبدیل کر دیئے گئے جو بحری جہازوں کے عملے کے روپ میں غیر قانونی طریقے سے امریکہ میں داخل ہو تے تھے۔ یہ جہاز پوری دنیا سے امریکی کا رگو لے کر جاتے تھے ۔ ٹکسن اور ایریزونا بھی ایک نیا راستہ ہے۔ 2004 میں اس راستے غیر قانونی طور پر داخل ہونے والوں کو گرفتار کیا گیا تو معلوم ہو اکہ امریکہ میں داخل ہونے والے 64 فیصد اسی راستے سے داخل ہوئے تھے۔(جاری ہے )
انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 61 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں