انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 61
امریکہ میں غیر قانونی طریقے سے داخل ہونے اور قیام کرنے والوں کے خلاف انٹر پول میں چلائے گئے مقدمات کی تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ ماضی میں امریکہ کے لیے انسانی سمگلنگ بحری جہازوں کے زریعے ہوتی رہی ہے۔ایشیاء اور مشرقی یورپین ممالک کے باشندوں کو پہلے جنوبی افریقہ لایا جاتا جہاں ان کی جعلی سفری دستاویزات تیار کی جاتیں۔پھر ان کو بحرالکاہل کے راستے امریکہ منتقل کر دیا جاتاتھا۔یاد رہے کہ بحرالکاہل کے ساحل پر واقع کنیڈا میں ماضی میں چین سے سمگل کرکے لوگوں کو کارگو جہازوں کے زریعے لایا جاتا تھا۔لیکن اب یہ راستہ متروک ہو چکاہے اور سمگل شدہ افراد کی اکثریت کو میکسیکو کے زریعے امریکہ داخل کیا جاتا ہے ۔اب امریکہ میں داخل ہونے کے لیے سمگلرز مندرجہ زیل بحری راستے اختیار کرتے ہیں۔سوئٹزر لینڈ،جرمنی،فرانس اور فن لینڈ سے اینٹی گووا جبکہ نیدر لینڈ، انڈیا، آسٹریا، سپین، اٹلی، یونان اور پرتگال سے سمگل شدہ افراد کو پاناما اور نکارا گووا کے راست امریکہ داخل کیا جاتا ہے۔اس طرح جنوبی امریکہ کے ممالک کولمبیا،ایکواڈور،پیرو،ارجنٹینا،بولویا،وینزویلہ اور ویسٹ انڈ یز سے لوگوں کو غیر قانونی طریقے سے میکسیکو،نکارا گووا اور گوانتا مالاکے راستے امریکہ کے مرکزی حصوں تک پہنچایا جاتا ہے۔
انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 60 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
امریکی ڈیپارٹمنٹ آف جسٹس کے مطابق ،ہوسٹن اور ٹیکساس انسانی سمگلنگ کے گڑھ ہیں۔ان دونوں کاروباری مراکز کی جغرافیائی صورتحال اور ان میں تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ہنر مندوں اور مزدوروں کی بڑی تعداد کی کھپت انسانی سمگلنگ کی اہم وجہ ہے۔ہوسٹن میکسیکو کی سرحد پر واقع ہے اور بڑے ہائی ویز اس میں سے ہو کر گزرتے ہیں۔اس کی مصروف اور بڑی ایئر پورٹس جہاں ہر وقت انسانوں کا رش لگا رہتا ہے ا نسانی سمگلنگ کے لیے ایک آسان جگہ تصو ر کی جاتی ہے۔جعلی سفری دستاویزات کے حامل مسافر آسانی سے ائیر پورٹ سے باہر نکل جاتے ہیں۔یہ شہر ایک بہت بڑی گنجان آبادی اور وسیع رقبے پر مشتمل ہے۔ شہر میں وسطی اور مشرقی ایشیائی باشندوں کی بڑی بڑی آبادیاں بن چکی ہیں جن میں سمگل شدہ افراد کو آسانی سے شامل کر لیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ ٹیکساس بھی ایک کاروباری مرکز ہے جس میں ہر روز کروڑوں ڈالر کا کاروبار ہوتا ہے۔اس شہر میں روزانہ لاکھوں کی تعداد میں لوگ باہر سے آتے ہیں۔ان کی نقل و حرکت پر نظر رکھنا ایک دشوار کام ہے۔ٹیکساس میں سمگل شدہ افراد کا زراعت، ٹیکسٹائل،ریستورانوں،تعمیر کے شعبوں اور گھریلوملازمتوں میں استحصال کیا جاتا ہے۔یہ شہر دلالوں اور سمگلرز کے لیے دولت اکٹھی کرنے کاایک اہم مرکز ہے اور اسے جسم فروشی اور جبری مشقت کا ایک گڑھ سمجھا جاتا ہے۔
ہوسٹن اور ٹیکساس میں آئے روز عوامی تقریبات،کھیلوں کے مقابلے،کنوینشنزاور دیگر عوامی دلچسپی کے ایونٹس منعقدم ہوتے رہتے ہیں۔اس کے علاوہ مساج پارلرز،نیل سالونز،ماڈلنگ سٹوڈیوز،رہائشی قبحہ خانے،ہوٹلز،موٹلزاور اپارٹمنٹس جسم فروشی کے اہم مراکز ہیں۔ان کی طلب پوری کرنے کے لیے دنیا کے مختلف ممالک سے نوجوان لڑکیوں کوسمگل کر کے لایا جاتا ہے۔ایسے افراد کو بہت کم معاوضے پر کام پر رکھا جاتا ہے۔ہوسٹن تک آسان رسائی کی بدولت وہاں سے دیگر شہروں کے لیے سستی لیبر دستیاب ہوتی ہے۔’’ ڈلاس ویمن فاونڈیشن ‘‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق، ہر سال 8 ہزار سے زائد لڑکیاں انٹر نیٹ کے زریعے ورغلا لا کر ٹیکساس لائی جاتی ہیں جن کی عمریں13 سال تک ہوتی ہیں۔ہر سال خاوندوں کے تشدد، ایڈز سے ہلاک ہونیوالی اور خود کشی کرنے والیوں کی جگہ لائی گئی عورتیں اس کے علاوہ ہوتی ہیں۔ کم عمر بچوں کا استحصال امریکہ میں اپنے عروج پر ہے ۔ گلی محلوں میں بچوں سے منشیات فروخت کرائی جاتی ہے ان سے بھیک منگوانے کا کام لیا جاتا ہے۔ امریکہ میں نابالغوں سے جنسی زیادتی وسیع پیمانے پرکی جاتی ہے۔
کینیڈا، تاریخ اور انسانی سمگلنگ۔
کینیڈامیں سائبیریا اور الاسکا کے زمینی پل کے راستے ہزاروں سال پہلے داخل ہونے والے قدیمی باشندے ایشیائی تھے ۔ ان میں سے کچھ کینڈامیں آباد ہوگئے اور باقی ماندہ نے جنوب کی طرف سفر کرنے کا انتخاب کیا۔ جب یورپین سیاح انسانی آبادی کا کھوج لگاتے ہوئے وہاں پہنچے تو کینیڈا متنوع قدیمی باشندوں کی نسلوں سے آباد تھا جو خانہ بدوشی اور چرواہوں کی طرز زندگی اپنائے ہوئے تھے اور ساز گار فطری ماحول میں شکاریوں ، ماہی گیروں اور کسانوں کی طرح زندگی کے مزے لوٹ رہے تھے ۔ ان قدیمی باشندوں اور یورپین کے درمیان پہلا معاہدہ ایک ہزار سال پہلے وجود میں آیا جب آئس لینڈ کے لو گ’ نورس مین ‘ایک مختصر عرصے کیلئے نئے دریافت شدہ علاقے میں آباد ہونے کے لیے آئے۔ یہ یورپین تلاش سے6 سو سال پہلے کی بات ہے۔ بعدازاں مشرق کی طرف نئی خو شحال منڈیوں کی تلاش میں فرانسیسی اور برطانوی جہازراں شمالی امریکہ کے پانیوں میں غو طہ زن ہوئے ۔ انہوں نے کئی ایک برج اور چوکیاں تعمیر کیں ۔ فرانسیسیوں نے ایس آئی لارنس اور مسسپی دریاؤں اور گریٹ جھیل، جبکہ انگریزوں نے ہڈسن بے اور اٹلدنٹک ساحل کے ساتھ ساتھ اپنی چو کیاں بنائیں ۔ اس دوران اگر چہ کیوٹ ، کاریٹر اور چمپلین نے چین اور ہندوستان کے راستے تو دریافت نہ کیے لیکن انہوں نے جو کچھ پایا وہ اس سے کہیں زیادہ قیمتی تھا۔ انہوں نے مچھلیوں کے وسیع ذخیرے ، کروڑوں کی تعداد میں سنجاب ، ریچھ اور لو مڑیاں دیکھیں جن کے اوپر قیمتی پشم تھی ۔ فرانسیسیوں اور انگریزوں کی آبادی وہاں 1600 کے آغاز میں ہوئی۔ اسی صدی میں ان کی آبادکاری میں بھی اضافہ ہوا۔ نئی آباد کاری سے معاشی سر گرمیاں بڑھیں لیکن دونوں قومیں تجارت کے لیے مقامی پشم اور عسکری ضروریات کے لیے اپنے آبائی ممالک کی مر ہون منت تھیں ۔ اس صو رتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شمالی امر یکہ نے انگلینڈ کواکساکر فرانس اور اس کے درمیان رقابت پیداکردی ۔ دونوں کے درمیان شمالی امریکہ دشمنی کی علامت بن گیا۔ 1759ء میں کیوبک شہر کے زوال کے بعد ’’پیرس کا معاہد ہ ‘‘پر دستخط ہوئے جس میں دریائے مسسپی کے مشرقی علاقے جو بر طانوی کا لونیوں تک پھیلے ہوئے تھے سوائے ایس آئی پائیر کے جزائر اور مائیکولن کے نیوفونڈ لینڈ کے جزائیر بھی ان کو دید یے گئے۔ بر طانوی حکومت کے ماتحت فرانسیسی زبان بولنے والے 65ہزار کینڈین باشندوں کا صر ف ایک مقصد تھا کہ ان کی زبان ، روایات اور ثقافت کو تحفظ دیاجائے ۔ بر طانیہ نے 1774 ء میں کیوبک ایکٹ منظو رکیا جس کے ذریعے فرانسیسی سول قانو ن کو سرکاری طورپر تسلیم کیا گیا اور ان کو مذہبی اور لسانی آواز کی ضمانت دی گئی۔ انگریزی زبا ن بولنے والوں کی ایک بڑی تعداد ’’وفادار ‘‘(Lyoalists) کہلاتی تھی کیونکہ وہ برطانوی سلطنت کے پیروکار رہنا چاہتے تھے ۔وہ 1776 ء میں امریکہ کی طرف اس کی آزادی حاصل کرنے کے بعد کینیڈا میں پناہ گزیں رہے۔ وہ عموماً نوووہ سکوٹیااور نیوبر نزوک اور گریٹ جھیلوں کے ساتھ ساتھ آباد ہوئے۔
آبادی میں اضافے سے 1791 ء میں کینڈا بال (اب کا آئیریو) اور کینڈا زیریں وجود میں آئے۔ دونوں کو حکومتی اداروں کی نمائندگی دی گئی۔ زیریں اور بالائی کینڈا میں 1837-38 ء میں ہونے والی بغاوتوں نے دونوں برطانوی کا لونیوں کو یکجاکر کے متحدہ کینیڈا صو بہ بنا ڈالا۔ 1848 ء میں متحدہ کالونی کو بااختیار حکومت میسر آئی ۔ کینیڈا نے خو د مختار ی کے لیے مزید اقدامات اٹھائے مگر وہ بر طانوی سلطنت کا ہی حصہ رہا۔ (جاری ہے )
انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 62 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں