انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 62
ایک نئے ملک کی پیدائش
بر طانوی شمالی امریکی کالونیاں ، کینیڈا، نوووہ سکوٹیا، نیوبرنزوک ، پرنس ایڈورہ جزیرہ اور انیوفونڈلینڈ آزادی سے ترقی کرتے ہوئے خوشحال ہوگئے۔ لیکن امریکی خانہ جنگی کے بعد طاقتور امریکہ کے ظہور سے کچھ سیاستدانوں نے محسو س کیا کہ مزید الحاق کو روکنے کے لیے بر طانوی کالونیوں کی یونین ہی واحد راستہ ہے۔ لہذا یکم جو لائی 1867ء کو مشرقی کینیڈا (کیوبک )اور مغربی کینیڈا(آنٹریو) ، نوووہ سکوٹیا اور نیوبرنزوک کو ’’بر ٹش نارتھ امریکہ ایکٹ‘‘ کی شرائط کے تحت اکٹھا ملا کر ’’ڈو منین آف کینیڈا ‘‘کی تشکیل ہوئی۔ نئے ملک میں پارلیمانی نظام حکومت رائج ہوا جس میں تاج بر طانیہ کے نمائندے کے طو ر پر ایک گورنر جنرل مقرر ہوا۔ پارلیمنٹ دوایوانوں (ہاؤس آف کامنز ، سینٹ )پر مشتمل قرار پائی اور اسے قومی مفادات کے معاملات جن میں فوجداری قانون ، تجارت ، کامرس اور قومی دفاع شامل تھا پر قانون ساز ی کا اختیار دیدیا گیا جبکہ صو بوں کو مخصو ص معاملات جن میں پراپرٹی ، سماجی حقوق ، ہسپتال اور تعلیم شامل تھے قانون سازی کرنے کے حق کوتسلیم کرلیا گیا۔
انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 61 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
مغر ب کی طرف پھیلاؤ
کنفیڈریشن بننے کے بعد جلد ہی کینیڈانے مغرب اور جنوب کی طرف ہڈسن بے تک ہزاروں کلو میٹر کا علاقہ اپنے قبضہ میں کر کے ہڈسن کمپنی سے ’ہڈسن ‘کا علاقہ جو 1670 ء میں انگلینڈ کے بادشاہ چارلس کو دیا گیا تھا خرید کر کینیڈا میں شامل کر لیا ۔ مغر ب کی طرف معمولی مزاحمت کے بعد مانیسٹو با کا صو بہ قائم کر کے ملک میں شامل کرلیا گیا ۔ بر طانوی کو لمبیا جو 1858 ء سے ایک کراؤن کالونی تھی ریلوے لائن بچھائے جانے کے وعدے سے کینیڈامیں شامل ہو گئی۔ 1898ء میںیکون کا شمالی علاقہ سرکاری طورپر کینیڈا کا حصہ بن گیا ۔ 1905ء میں ریو پرٹس کے علاقے میں دوصوبے بنائے گئے جن کے نام البیٹریااور ساسکیچون رکھا گیا۔ نیوفونڈلینڈ1949ء تک برٹش کالونی رہا اور بعدازاں کینیڈا کا 10واں صو بہ بنا۔ نئے صوبوں کے قیام سے غیر ملکیوں کی آمد بھی کینیڈا میں بڑھنے لگی اور1913ء میں 4لاکھ غیر ملکی تارکین کینیڈاپہنچے ۔ جنگ سے قبل کے زمانے میں کینیڈا نے دنیا کی خو شحال معیشت سے منافع کمایا اور اپنے آپ کو ایک صنعتی اور زرعی طاقت کے طور پر منوایا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد لیگ آف نیشنز میں اس کی آواز کو امتیازی حیثیت حاصل ہوئی اوراس نے ’’وسیٹ منسٹر قانون ‘‘کے تحت 1931 ء میں خود مختار ی حاصل کرلی۔ 1929ء میں کینیڈا بحران کی ذد میں آگیا اور اس کے کئی صوبوں میں بھو ک اور بے روزگار ی نے ڈیرے ڈال لیے جس سے مجبور ہوکر اس نے دوسری جنگ عظیم میں اتحادی افواج کو کمک پہنچائی ۔ جس نے کینیڈاکو اس پریشانی سے نجات دی ۔دوسری جنگ عظیم سے لے کر آج تک اس کی معیشت مسلسل ترقی کررہی ہے اوراس نے عوام کی سہولت کے کئی پراگرام شرع کررکھے ہیں ۔وہاں عوام کو بڑھا پا الاونس ، یونیورسل میڈیکیئر ، بے روزگاری انشورنس مہیا کیے جاتے ہیں اور کینڈین اعلیٰ معیار زندگی اور قابل خواہش طرززندگی اپنائے ہوئے ہیں۔ آج یہ ایک خوشحال ریاست ہے جو لاکھوں غیر ملکیوں کو روزگار فراہم کررہی ہے۔
(بحوالہ ٹیم لیمبر ٹ کی تاریخ کینڈا)
کینیڈامیں انسانی سمگلنگ کاایک جائزہ
کینیڈامیں انسانی سمگلنگ کو دوسطحو ں پردیکھنے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور غیر سرکاری تنظیموں کو ملک کے اندر مختلف عوامی مقامات اور نجی ٹھکانوں کے ساتھ ملک سے باہر بری اور بحری سر حدوں پر کڑی نظر رکھنا پڑتی ہے۔ اس کے علاوہ سمگلنگ کے شکار افراد کو مطلوب سہولیات پہنچانے اور ان کی قانونی حیثیت کے تعین میں بھی متعلقہ اداروں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کینیڈاایک امیر ملک اور شہریوں کی آزادیوں کا محافظ ہے جہاں ایشیائی ، مشرقی یو رپی باشندے اور افریقی عورتوں اور بچوں کی ایک بڑی تعداد کا استحصال کیا جاتاہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اس جرم کو قانونی دائرہ اختیار میں لانے کے نکتہ نگاہ سے دو حصوں میں تقسیم کیاہے ۔ کینیڈاکے اندر سمگل ہونے والے اور غیر ملکی باشندوں کو جرم کی نو عیت کے اعتبار سے مختلف درجوں میں رکھا گیاہے۔ اس میں ایک ہی جرم میں ملوث افراد دوقسم کی انسانی سمگلنگ میں ملوث گردانے جاتے ہیں۔ بین الاقوامی سرحدوں کو عبور کرتے ہوئے اگر کوئی فرد گرفتار کیا جائے تو اسے انٹر نیشنل سمگلنگ کے قانون کے تحت کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا خواہ وہ کینیڈاکا شہری ہی کیوں نہ ہو۔ اس کے علاوہ فوجداری قانون میں صر احت کر دی گئی ہے کہ اگر چہ کو ئی شخص سر حد قانونی طور پر ہی عبو ر کیوں نہ کررہاہواس سے غیر قانونی طو رپر سر زد دہونیوالا کوئی دیگر عمل اس کو سمگلنگ میں ملو ث کر سکتا ہے۔ دوسر کینیڈا کے اندر مقامی سمگلنگ کا عمل جو مکمل طورپرملک کے اندر ہی وقوع پذیر ہو مقامی سمگلنگ کہلاتا ہے جس میں کمی فرد کے قانونی یا غیر قانونی ہونے سے نہیں ہو سکتی۔ مثلاً ملک کے اندر جنسی استحصال ، جسمانی اور ذہنی مشقت جبری بھرتی ، جبری مشقت کے جرائم کو مقامی سمگلنگ کے جرم کے تحت ہی ڈیل کیا جاتا ہے۔
گذشتہ چند برسوں سے قانون نافذ کرنے والے ادارے اور معاون گروپس انسانی سمگلنگ کو قومی سطح پرآگے لانے کی کو شش کررہے ہیں تاکہ اس پر عوامی تو جہ اور فوجداری انصاف کا اطلاق کیا جاسکے جس کا یہ جرم مستحق ہے ۔ متعلقہ صو بائی اور وفاقی حکومتی ادارے اس کا بنیادی تجزیہ کرنے اور اس کو روکنے کی مسلسل کو شش کررہے ہیں لیکن کینڈا میں اس جر م کی وسعت اور اس کے شکار افراد میں ، ایک خفیہ نو عیت کی تجارت ہونے کے باعث اضافہ ہو رہا ہے۔دراصل سمگلنگ کے شکار افراد کا آگے آنے میں پس و پیش سے کام لینا اور ’’انسانی سمگلنگ ‘‘ کی اصطلاح کی عمومی غلط تفہیم اور اس سے اختلاف درست اور تر تیب شدہ اعدادو شمار میں فقدان کے اہم عوامل ہیں۔ اس کے علاوہ اعدادوشمار قابل اعتبارنہ ہونا بھی اس جرم کی روک تھام میں اہم رکاوٹ ہے۔ 2007ء میں معلو مات پر مبنی ایک رپورٹ سامنے آئی جس سے کینیڈامیں پائے جانے والی انسانی سمگلنگ کے متعلق مختلف اندازے ، سمگل شدہ افراد کی تعداد میں کافی ناقابل بھروسہ قیاس آرائیاں شامل تھیں ۔ جبکہ قانون ناٖفذ کرنے والے اداروں کو تعداداور وجوہات کے گورکھ دھند ے میں الجھنے کے بجائے اس جرم میں ان جرائم پیشہ ہاتھوں کو پکڑنا چاہیے جو اس کے روح رواں ہیں ۔ ان مسائل کے باوجود پولیس نے اہم پیش رفت کا مظاہر ہ کرتے ہوئے کچھ واقعات کا کھوج لگاکر مقد مات بنائے ۔ حکومت کی طرف سے جون 2002ء میں’’تارکین و مہاجرین کی حفاظت کے ایکٹ‘‘ میں ملوث کلیدی دفعات کو قانون سازی کے ذریعے مزید وسعت دی گئی تاکہ سنگین نوعیت کے سمگلنگ کے جرائم میں ملو ث افراد پر مقدمہ چلایا جاسکے ۔ اس طرح’’ فوجداری انصاف ‘‘کے قانون میں بھی چار مزید دفعات کا اضافہ کیا گیا جس میں جبری جسم فروشی اور جبری مشقت کے استحصال کو قابل سزا بنایا گیا ۔ اس کے نتیجے میں انسانی سمگلنگ کے بڑھتے ہوئے جرم میں میڈیا کی سنسنی خیزی بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ میڈیا رپورٹس کی بھر مار سے انسانی سمگلرز اور اس جر م کے شکار افراد میں شناخت کرنے میں بھی کئی عارضی دشواریاں پیش آتی ہیں ۔
کینیڈامیں جبری مشقت کی نو عیت ، دیگر براعظموں اور بڑے ممالک سے تھوڑی سی مختلف ہے۔ کیوں کہ کینیڈامیں تیسرے فریق (تھر ڈ پارٹی ) کا کردار بہت اہم ہے جو بڑے منصو بوں میں افرادی قوت (تکنیکی اور غیر ہنر مند )فراہم کرتے ہیں ۔ ان کے دستاویزی ثبوت پیچیدہ ہی نہیں بلکہ انتہائی وقت طلب تحقیق کے حامل ہوتے ہیں ۔ کینیڈامیں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق ’’البیرئا‘‘صوبے میں سب سے زیادہ جبری مشقت کے واقعات 2004ء سے 2008ء کے درمیان سامنے آئے ۔ قانون میں فیڈرل کوڈ میں مذکو رہ شعبوں کے لیبر قوانین کی خلاف ورزی کو قابل وست اندازی تصو ر کیا جاتا ہے۔ جس میں ریڈیو پو سٹل سروسز ، بنکنگ اور کراؤن کا رپوریشنز شامل ہیں۔ لیکن غیر ملکی ورکرز کی ان محکموں میں خدمات فراہم کرنے والوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ لیکن ملازمت کے قواعد و ضوابط کو صو بائی سطح پر چلایا جاتا ہے اور ورکرز اور مالک یا آجروں کے درمیان ہونے والے معاہدوں کا تحریری ریکارڈ نہیں رکھاجاتا ہے۔ کینیڈا میں جبری مشقت کے لیے کی جانے والی انسانی سمگلنگ کی صو رتحال کو ذیل میں یوں بیان کیا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے کہ جسمانی مشقت کے لیے پو رے ملک میں ورکرز کی مقامی اور بین الاقوامی سمگلنگ ہو تی ہے لیکن البیرئیاصوبے میں اس کا زیادہ رجحان پایا جا تا ہے لیکن ایسے واقعات کی تعداد جنسی استحصال سے کم ہے۔ لیبر کے لیے انسانی سمگلنگ کے واقعات کی تحقیق سے معلوم ہو تا ہے کہ اس میں فلپائن ، انڈیا ، پو لینڈ ، چین ، اتھو پیا، اور مکیسکو کے باشندوں کی زیادہ تعداد پائی جاتی ہے۔ ان میں جو لو گ گھروں میں کام کرتے ہیں ان کا سب سے زیادہ استحصال کیا جاتا ہے۔ مفت کام کرنے سے لیکر 600 امریکی ڈالر فی ماہ کمانے والے ایسے ورکرز میں شامل ہوتے ہیں۔(جاری ہے )
انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 63 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں