ڈاکٹر زاہد حسن چغتائی کی کتاب ”عزیز ملک، شخصیت اور علمی وادبی خدمات“

  ڈاکٹر زاہد حسن چغتائی کی کتاب ”عزیز ملک، شخصیت اور علمی وادبی خدمات“
  ڈاکٹر زاہد حسن چغتائی کی کتاب ”عزیز ملک، شخصیت اور علمی وادبی خدمات“

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

راقم نے تین سال قبل فیس بک پر ایک آرٹیکل دیکھا، جس میں لکھا تھا کہ ”نہرو کا گھر معاشقوں کا گڑھ تھا“۔ آرٹیکل میں مولانا ابوالکلام آزاد کے حوالے سے جو کہا گیا، اس سے طبیعت پر گرانی ہوئی۔ ہم مولانا آزاد کے علمی مرتبے کے حوالے سے انہیں مظلوم سمجھتے تھے۔راقم نے کومنٹس میں یہ جانے بغیر کہ صاحب تحریر کس مقام ومرتبہ کے حامل ہیں 'نہ صرف لکھا، بلکہ جواب در جواب لکھا۔ آخر میں صاحب تحریر نے کہا کہ آپ نے میری تحریر کو سمجھا ہی نہیں۔ مزید یہ کہ مجھ سے میرا سیل نمبر مانگ کر بات چیت کی۔یہ ہماری ڈاکٹر زاہدحسن چغتائی سے پہلی شناسائی تھی۔ یوں ہمارا یہ تعلق عقیدت میں بدل گیا۔گذشتہ ہفتے ڈاکٹر زاہد حسن چغتائی نے اپنی ضخیم کتاب ”عزیز ملک شخصیت اور علمی وادبی خدمات“بذریعہ ڈاک ہمیں ارسال فرمائی۔

ڈاکٹر زاہد حسن چغتائی ایک علمی خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں۔ تقسیم ہند سے پہلے ان کے دادا جان معروف ٹھیکیدار تھے۔ ان کے والد غلام حسن اپنے دور کے رئیس اور لال کڑتی میں شاہانہ زندگی گزارتے تھے۔زاہد حسن ان کی دوسری اولاد تھی۔زاہد حسن نے زمانہ طالب علمی سے ہی روزنامہ ”جنگ“ اور ”نوائے وقت“ میں لکھنا شروع کردیا تھا۔تکمیل تعلیم کے بعد وہ عرصہ دراز تک مختلف اداروں میں ایڈہاک لیکچرر کے طور پر کام کرتے رہے۔ بعد میں انہوں نے صحافت کو بطور پیشہ چنا اور روزنامہ ”جنگ“ سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔وہ39برس روزنامہ ”نوائے وقت“میں رہے اور”نیام حرف“ کے نام سے اپنا کالم لکھتے رہے۔ڈاکٹر چغتائی نے صحافتی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں بھی حاصل کیں۔وہ وفاقی اردو یونی ورسٹی اسلام آباد، بین الاقوامی یونی ورسٹی اسلام آباد اور علامہ اقبال یونیورسٹی اسلام آباد میں عرصہ دراز تک اردو ادب، اقبالیات اور ماس کمیونی کیشن کے استاد بھی رہے۔انہیں 90ء کی دہائی میں حلقہ اربابِ ذوق راولپنڈی کے سیکرٹری رہنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ اڑھائی سال کی عمر میں پولیو کا شکار ہونے والے زاہد حسن ڈاکٹر زاہدحسن بن کر عرصہ دراز سے علاقہ پوٹھوہار کے علمی اُفق پر چھائے ہوئے ہیں۔ ”روزن روزن دستک“ان کی پہلی کتاب ہے جو 1985ء کو شائع ہوئی۔اس کے علاوہ خاکہ نگاری, سوانح حیات, کالموں کے مجموعے اور صحافتی یاداشتوں پرمشتمل ان کی کتب منتظر اشاعت ہیں۔حکومت پاکستان نے انہیں اقبال ایوارڈ اور سند فضیلت سے نوازا ہے۔”عزیز ملک شخصیت اور علمی و ادبی خدمات“ان کا وہ ضخیم تحقیقی مقالہ ہے جو پی ایچ ڈی ڈگری کا حقدار ٹھہرا۔یہ مقالہ پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی جیسی عالی مرتبت علمی شخصیت کی نگرانی میں تکمیل کو پہنچا،جو کتابی شکل میں اشاعت پذیر کے ہوکر منصہئ شہود پر آچکا ہے۔اس کتاب میں ڈاکٹر عبد القدیر خان، ڈاکٹر شاداب احسانی، ڈاکٹر ذکیہ اور خاور اعجاز نے کتاب اور صاحب کتاب کے بارے میں جو کچھ لکھا وہ بھی دیکھنے سے متعلق ہے۔ کتاب 5 ابواب، 402 عنوانات اور 934 صفحات پر مشتمل ہے۔بیسوی صدی کے نصف آخر میں خطہ پوٹھوہار کی علمی وادبی روایت میں عزیز ملک کہکشاں بن کر چھائے رہے ہیں۔ ان کے بغیر اس خطے کی علمی وادبی روایت مکمل ہو ہی نہیں سکتی۔عزیز ملک کے علمی کارناموں کو ان کے معاصرین نے کھلے دل سے تسلیم کیا ہے۔دسمبر 1947ء میں انہوں نے اختر ہوشیار پوری، اکرام قمر اور محمد فاضل کے ساتھ مل کر حلقہ ارباب ذوق کی بنا ڈالی۔انہوں نے انجمن ترقی پسند مصنفین کے مدمقابل انجمن تعمیر ادب کو قائم کیا۔ 1930ء سے 1945ء کے درمیان انجمن ترقی اردو کے زیراثر جو نثر نگار اُبھر کر سامنے آئے ان میں عزیز ملک ایک اہم حوالہ ہے۔عزیز ملک کو خطہ پوٹھوہار کی نٹری روایت کا سرخیل بھی کہا جاتا ہے۔

ڈاکٹر زاہد حسن چغتائی نے عزیز ملک کو بہت قریب سے دیکھا۔ان کے مطابق وہ علمی وادبی شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ روحانی پس منظر بھی رکھتے تھے۔عزیز ملک کے دادا مولانا ہدایت اللہ تحریک مجاہدین کا پوٹھوہار میں اہم حوالہ رہے ہیں۔ان کے والد حکیم محمد عبدالرحمن ایک کامیاب حکیم اور صاحب ثروت تھے۔عزیز ملک نے ڈینیز ہائی سکول کے علاوہ گارڈن کالج سے بھی تعلیمی مدارج کی تکمیل کی۔انھوں نے مختلف محکموں میں ملازت کے ساتھ ساتھ کاروبار بھی کیا۔وہ سائیں اللہ بخش سے روحانی طور پر منسلک رہے۔ڈاکٹر زاہد حسن نے عزیز ملک کی بیعت کا تعلق سید اعجاز علی نیازی سے جوڑا ہے۔ ان کے مطابق وہ تحریک پاکستان سے ذہنی وابستگی رکھتے تھے۔کتاب مذکورہ میں عزیز ملک کی راول پنڈی کے حلقہ اربابِ ذوق اور دیگر ادبی تنظیموں سے وابستگی کو تفصیل سے لکھا گیا ہے۔ڈاکٹر زاہد حسن چغتائی نے کمال مہارت سے اس کتاب میں عزیز ملک کی مدون اور غیر مدون تحریروں، یاداشتوں،ان کے نام مشاہیر کے خطوط، غیر مرتبہ تنقیدی مضامین، صحافتی تحریروں، کتابوں پر نقد و نظر، ریڈیائی تقاریر،پیش لفظ، دیباچوں، ان کے انٹرویوز، تحقیقی مقالات،عزیز ملک نمبرزاور ان کی صحافتی تحریروں کے حوالے سے تحقیقی اصولوں کومدنظر رکھ کر بہت تفاصیل سے لکھا ہے۔

زیر نظر کتاب میں خطہ پوٹھوہار میں مسلم دور کی ابتدا اور عروج, سکھا شاہی دور کے حالات اور تحریک مجاہدین میں اس علاقے کے کردار کے علاوہ تحریک پاکستان، تحریک خاکسار اور تحریک ریشمی رومال، جیسے تاریخی موضوعات پر بھی تحقیقی مواد موجود ہے۔انہوں نے ادبی تحریکات، پنجابی مشاعروں کی روایات، ادبی بیٹھکوں اور تنظیمات، انجمن ترقی پسند مصنفین،انجمن تعمیرادب اور راولپنڈی میں حلقہ اربابِ ذوق کے عہد زریں کو سامنے رکھ کر عزیز ملک کی نثر نگاری پر سیر حاصل بات کی ہے۔ڈاکٹر زاہد حسن چغتائی نے عزیز ملک کے حفیظ جالندھری، سید ضمیر جعفری اور یوسف ظفر سے تعلق کو منفرد انداز میں پیش کیا ہے۔انہوں نے عزیز ملک کی تحریروں میں، طنز کی کاٹ، خندہ زیر لب، شگفتگی، دانائی، شیریں بیانی، نکتہ آفرینی، برجستگی اور سجائی جسے اوصاف کو تلاش کرنے کی کامیاب کوشش ہے۔ڈاکٹر زاہد نے عزیز ملک کا تقابل طنز میں مشتاق احمد یوسفی اور باطنی حوالے سے ممتاز مفتی سے مضبوط حوالوں اور واقعات سے جوڑا ہے۔ان کے مطابق عزیز ملک کی تحریروں میں پاکستانیت کے نقوش اور شناخت موجود ہے۔ڈاکٹر چغتائی نے عزیز ملک کی کتب راول دیس، پوٹھوہار، خون حسین اور دیگر تاریخی تحریروں کو سامنے رکھ کر عزیز ملک کو ایک منفرد تاریخ نگار کے طور پر دریافت کیا ہے۔اِس سلسلے میں انہوں نے عزیز ملک کا تقابل مولانا آزاد, پروفیسر کرار حسین اور شبلی نعمانی جیسے مشاہیر سے کیا ہے۔کتاب مذکورہ میں عزیز ملک کے دوستوں، مشاہیر، تاریخی واقعات اور بہت سی اہم شخصیات کے بارے میں اتنا کچھ لکھا ہوا کہ یہ کالم ان تفاصیل کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ عزیز ملک کے حوالے سے ڈاکٹر زاہد حسن چغتائی کی کتاب ”عزیز ملک، شخصیت اور علمی وادبی خدمات“تاریخ علم وادب میں اہم حوالے کا درجہ رکھتی ہے جس سے ادب وتحقیق کے طالب علم مدتوں فیض یاب ہوتے رہیں گے۔ڈاکٹر چغتائی نے یہ مقالہ لکھ کر تحقیق کا حق ادا کردیا ہے۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اس حوالے سے سچ کہا ہے کہ ”انھوں نے تحقیق کی گتھیاں اس طرح سلجھائیں ہیں کہ بے ساختہ منہ سے واہ واہ نکلتا ہے“۔

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -