مقروض در مقروض

 مقروض در مقروض
 مقروض در مقروض

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 آئی ایم ایف سے بالآخر 3 ارب ڈالر ملنے کا معاہدہ طے پا گیا ہے۔اس عظیم معاہدے کی نوید جناب شہباز شریف نے پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے نمائندگان کے سامنے گورنر ہاؤس لاہور میں سنائی۔جناب اسحاق ڈار، محترمہ مریم اورنگزیب اور گورنر پنجاب ان کے ہمراہ تھے۔ایک سینئر صحافی نے موقع کی مناسبت سے بڑا ہی اہم سوال کیا۔حکومتی اخراجات کم کرنے کے لئے کیا اقدامات کئے جائیں گے؟جناب شہباز شریف نے جواب میں کہا، میاں نواز شریف کی قیادت میں ہماری حکومت اور پارٹی اخراجات میں کمی لانے کے لئے ہر ممکن کوشش کرے گی۔
بڑی خوش آئند بات ہے۔خدا کرے ایسا ہو سکے۔ ہمارے اکابرین سی ایم، پی ایم ہاؤس، صدارتی محل، وزیروں، مشیروں کی فوج ظفر موج، عوامی نمائندوں، نوکر شاہی کے اللے تللوں پر اٹھنے والے شتر بے مہار اخراجات پر بھی نظر ثانی کی ہمت کر سکے، لیکن کام ہے بہت مشکل، معلوم نہیں وہ دن کب آئے گا؟جب ہم میں سے ہر ایک ذاتی مفاد کے بجائے قومی مفاد کی تسبیح پڑھے گا۔حالت یہ ہے۔ہم سرکار کے پیسے کو مال مفت دل بے رحم سمجھتے ہوئے بڑی ہی بے دردی سے خرچ کرتے ہیں۔یہاں پیسے کی بچت کے حوالہ سے ہماری قوم کے طرزِعمل پر ایک چھوٹی سی مثال دے دوں۔آپ سروے کرا کر دیکھ لیں۔سٹریٹ لائٹس کہیں نہ کہیں دن کے وقت بھی روشن ہوں گی۔سرکاری دفاتر، ہسپتال الغرض سرکار کے زیر استعمال جو بھی چیز ہو۔ہم اس کا خیال، اس طرح نہیں رکھتے جیسے گھر کی چیزوں کا رکھتے ہیں۔ دن ہو یا رات ہم سرکاری املاک میں فضول چلنے والے اے سی، پنکھے اور روشن لائٹس بند کرنے کی زحمت قطعی طور پر نہیں کریں گے،یہی حال پرائیویٹ اداروں میں کام کرنے والے لوگوں کا ہے۔خالی کمروں میں پنکھے، اے سی اور لائٹیں چل رہی ہوں۔بند نہیں کریں گے۔بعض اوقات تو اپنے گھر میں چلنے والی فالتو الیکٹرانکس کے آلات بند نہیں کریں گے، کیونکہ ہمیں کسی نے سکھایا ہی نہیں ہے۔باالفرض بتایا بھی ہے۔ہم پرواہ نہیں کرتے۔اجتماعی طور پر یہ حال ساری قوم کا ہے۔ہمارا قومی نشان، ٹیکس ہم نے کبھی بھی خود سے دینا ہی نہیں ہے۔اگر ٹیکس نہ دینے والوں سے سوال کیا جائے؟ آپ ٹیکس کیوں نہیں دیتے ہیں؟ ان کا سادہ سا جواب ہوتا ہے۔ہم جتنا ٹیکس دیتے ہیں اس لحاظ سے حکومت ہمیں سہولیات فراہم نہیں کرتی  اور بڑے بڑے لوگ ایف بی آر والوں سے مل ملا کر اپنا اصل ٹیکس ادا نہیں کرتے  اور ایف بی آر کے اہل کار بڑی خوبصورتی سے ٹیکس چوری کے گر خود بتاتے ہیں تو ہم پھر ٹیکس کس کھاتے میں ادا کریں؟


عوام کی اکثریت اس بات کا شکوہ کرتی نظر آتی ہے۔ پیارے دیس میں غریب اور امیر کے لئے علیحدہ علیحدہ قانون اور معیار زندگی ہیں۔فی زمانہ، امیر، امیر سے امیر تر اور غریب، غریب سے غریب تر ہوتا جا رہا ہے اور ساری گالیاں آئی ایم ایف کے کھاتے میں ڈالی جا رہی ہیں۔ہر شخص آئی ایم ایف کو ظالم قرار دے رہا ہے۔ ہر بندے کی زبان پر آئی ایم ایف کو بُرا کہنے کی پوری کہانی موجود ہے اور تو اور آئی ایم ایف کو امریکہ اور یہود کا ایجنٹ قرار دیتے ہوئے، پاکستان کے زوال کی سب سے بڑی وجہ بتاتے ہیں۔
اپنے ہاں اس تھیوری کا بہت چرچا ہے۔عوام دشمن آئی ایم ایف کو پاکستان کی ترقی اس لئے قبول نہیں کہ اگر پاکستان پھل پھول گیا تو پھر یہ امریکہ اور دوسرے ملکوں کو آنکھیں دکھائے گا۔یہودیوں کو یہ بات قبول نہیں ہے کہ ایٹم بم رکھنے والا واحد اسلامی ملک اسرائیل پر چڑھ دوڑے، اس لئے پاکستان کو قرضے اور غلامی کے چنگل سے آزادی نہیں ملنی چاہئے، اسے محکوم ہی رکھا جائے تو بہتر ہے۔معلوم نہیں، کس جاہل نے یہ تھیوری پیش کی ہے۔بجائے اس کے کہ ہم اپنا گھر، اپنا قبلہ درست کریں، ہم حسب عادت اپنی ناکامیوں، کوتاہیوں کا ملبہ دوسروں پر گرانا ثواب سمجھتے ہیں۔
آخر ایمانداری بہترین پالیسی کا مجرب نسخہ اپنانے میں حرج ہی کیا ہے؟دوسروں پر انگلیاں اٹھانے کے بجائے، ہر شخص اپنے حصے کا کام ایمانداری سے کیوں نہیں کر سکتا ہے؟ہم ایف بی آر کے اہل کاروں پر تو انگلیاں اٹھاتے ہیں اپنے گریبان میں نہیں جھانکتے ہیں۔ہمارا حال یہ ہے۔ہم بیماری کے باعث کڑوی گولیاں کھانے پر اکتفا کر لیتے ہیں، احتیاطی تدابیر کو گلے نہیں لگاتے ہیں۔ہم سڑک پر ایکسائز کے ناکوں پر ٹوکن ٹیکس ادا کرنے کے خواہشمند کیوں ہیں؟


خاکسار کو عاجزی و ایمان داری کی عمدہ مثال جناب مسعود مختار سیکرٹری ایکسائز پنجاب، جناب چوہدری آصف ڈائریکٹر ایکسائز اور انکی محنتی ٹیم بارے جان کر خوشی ہوء جنھوں اس سال  نادہندگان سے 40.3 ارب روپے وصول کئے اور خیر سے کچھ نادہندگان تو ایسے تھے جنہوں نے پچھلے 25 سال سے ٹیکس ہی جمع نہیں کروایا تھا، الا ماشاء اللہ لوگوں کی اکثریت ٹوکن ٹیکس جمع کرانے سے آشنا نہ تھی آخر ایسا کب تک چلے گا؟ ہم خود احساس کب کریں گے؟
خاکسار نے تو حکومت کو تجویز دی تھی کہ بیرون ملک کی طرح ریڑھی والے سے لیکر چھوٹی سے چھوٹی دکان سے بڑی سے بڑی دکانوں کو ایسی کمپیوٹرائزڈ پکی رسید دی جائے،جس کا لنک سنٹر ٹیکس کلیکشن سے منسلک ہو۔ہر شے کی خریداری بینک کارڈ سے کی جائے یا حکومت اس مقصد کے لئے سپیشل مشینیں امپورٹ کرے اور ان پر سپیشل کارڈ ہو۔اس کے بنا کاروبار کرنے کی قطعی طور پر اجازت نہ ہو۔ہر شے کے ریٹ طے کئے جائیں بالخصوص مری، شمالی علاقہ جات کے ہوٹلوں میں کیٹگری کے لحاظ سے کمروں اور کھانے پینے کے ریٹ رکھے جائیں۔یہ بات بچہ بچہ جانتا ہے۔روزانہ لاکھوں روپے کمانے والے شام کو صفر/صفر ٹیکس دے کر چلتے بنتے ہیں۔مانا کہ حکومت کو ٹیکس چوروں کے خلاف شکنجہ کسنے پر شٹرڈاؤن ہڑتال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جو سیاسی طور پر نقصان دے سکتا ہے، مگر پیارے دیس کی خاطر یہ کام کسی نہ کسی کو تو کرنا پڑے گا اور سب سے اہم بات جو ہمیں مقروض در مقروض ہونے سے کوسوں دور لے جا سکتی ہے۔
خدارا!


اپنے آدھے پاؤ گوشت کے لئے پورا بیل حلال کرتے ہوئے سیاسی لیڈران کو بوگس کیسز میں نااہل کروا کر حکومت کو چلتا نہ کیا جائے۔ملک پہلے ہی بار بار کے تجربات، تقسیم در تقسیم اور ڈنگ ٹپاو پالیسی کی بدولت عدم استحکام کا شکار ہو چکا ہے۔اب مزید، جھوٹ، منافقت اور سیاسی انجینئرنگ کی گنجائش باقی نہ ہے۔
اللہ کرے۔سمجھنے والے یہ بات سمجھ جائیں۔آمین

مزید :

رائے -کالم -