لوگ ہوتے ہوئے آباد بھی آباد نہیں ۔۔۔
کیسا آسیب ہے بستی میں کوئی شاد نہیں
لوگ ہوتے ہوئے آباد بھی آباد نہیں
جو بھی مل جاے مقدر کا لکھا مانتے ہیں
کوئی شکوہ نہیں کرتے کوئی فریاد نہیں
مشکلیں ایک تواتر سے چلی آتیں ہیں
تم کو لگتا ہے کہ ہم پر کوئی افتاد نہیں
ہم کو محکوم سمجھتے ہو ہمیں ہے معلوم
تم کو لگتا ہے کہ ہم شاد ہیں برباد نہیں
کام کوئی بھی منافع میں نہیں ہے اپنا
ہر طرف صرف خسارہ ہے کوئی شاد نہیں
خود کو آزاد سمجھتے ہیں وطن میں اپنے
یہ غلط فہمی ہے جیسے کوئی صیاد نہیں
ایسی مہنگائی ہے محشر کا سماں لگتا ہے
کب یہ بحران ٹلے گا کوئی معیاد نہیں
لوٹ کر سارا وطن تم جو ہڑپ کر بیٹھے
اور دیکھو تو تمھاری کوئی تعداد نہیں
کس سے شکوہ کروں ثقلین کہاں دستک دوں
وہ ہیں سفاک فقط کام میں استاد نہیں