آئی پی پیز سے معاہدے کی منسوخی سے بجلی صارفین کو کتنا ریلیف ملے گا؟ حیران کن انکشاف
اسلام آباد (ویب ڈیسک) حکومت کی جانب سے پانچ انڈپینڈنٹ پاور پروڈیسرز (آئی پی پیز) کے معاہدوں کے خاتمے کے بعد عوام کے لیے بجلی کی قیمتوں میں کمی سے متعلق قیاس آرائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ اب سوالات جنم لے رہے ہیں کہ معاہدے کی منسوخی سے حکومت کو کئی ارب روپے کا فائدہ ہوگا لیکن بجلی کے عام صارفین بھی معاہدوں کی منسوخی سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کو موجودہ مالی سال میں 2000 ارب روپے سے زائد کی کیپسٹی پیمنٹ پاور کمپنیوں کو ادا کرنی ہوگی۔ اس بارے میں پاکستان انسٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس میں توانائی کے شعبے کی ماہر عافیہ ملک نے وضاحت کی کہ ”پانچ کمپنیوں کے معاہدوں کے خاتمے کے بعد کیپسٹی پیمنٹ میں کوئی خاطر خواہ ریلیف نہیں ملے گا۔ دراصل، جن پانچ کمپنیوں کے معاہدے ختم ہوئے ہیں، ان کی مدت معاہدہ ویسے بھی آئندہ ڈیڑھ یا دو برس میں ختم ہونے والی تھی۔“
انہوں نے مزید کہا کہ 1994، 2000، اور 2006 کی پاور پالیسیوں کے تحت لگائے گئے پاور پلانٹس کی تعداد 46 تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پانچ کمپنیوں کے معاہدے کے خاتمے کے بعد 41 کمپنیاں باقی رہ جائیں گی۔ اس کے علاوہ 2015 میں لگائے جانے والے پاور پلانٹس اور حکومت کے اپنے ہائیڈل اور نیوکلیئر پاور پلانٹس بھی موجود ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ”معاہدوں کے خاتمے سے کیپسٹی پیمنٹ میں کوئی قابل ذکر کمی نہیں آئے گی اور نہ ہی صارفین کے بجلی کے بلوں میں کوئی خاص کمی متوقع ہے۔“
دوسری جانب وزیر اعظم پاکستان کے کورآرڈینیٹر رانا احسان افضل نے اعتراف کیا کہ ”ان پانچ معاہدوں کے خاتمے سے فوری طور پر صارفین کے بجلی کے بلوں میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔ اگرچہ پانچ کمپنیوں کے معاہدے ختم ہونے سے بجلی کے فی یونٹ ٹیرف میں تقریباً 70 پیسے فی یونٹ کی کمی ہوئی ہے، لیکن اس سے حکومت کو صرف 70 ارب روپے کی بچت ہوگی۔“
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ یہ ایک جاری عمل ہے اور حکومت دوسرے آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظر ثانی کے لیے مذاکرات کر رہی ہے، اور ٹاسک فورس اس سلسلے میں اپنی ورکنگ کر رہی ہے۔
رانا احسان افضل نے مزید کہا کہ چینی پاور پلانٹس کے ساتھ قرضوں کی ری پروفائلنگ پر بھی بات چیت جاری ہے، جس میں پیش رفت کے بعد امید ہے کہ صارفین کے بجلی کے بلوں میں کمی آئے گی۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پانچ کمپنیوں سے معاہدے کا خاتمہ ایک مثبت پیش رفت ہے، کیونکہ یہ دونوں فریقین کی باہمی رضا مندی سے ہوا۔