اسٹیبلشمنٹ نے "انصافی احتجاجوں "سے بھاپ نکال دی،علی امین گنڈاپور کو کس نے اسلام آباد کا محفوظ راستہ دیا؟حفیظ اللہ نیازی نے اہم تفصیلات شیئر کر دیں
لاہور ( نیوز ڈیسک )تحریک انصاف کی جتنی قیادت جیل سے باہر ہے آج باجماعت اسٹیبلشمنٹ کے رحم وکرم پر ، اسکے اشارہ ابرو کی محتاج ہے ۔ اسٹیبلشمنٹ نے کمال مہارت سے اپنے مہرے استعمال کرکے انصافی احتجاجوں سے توانائی اور بھاپ نکال دی ۔ علی امین گنڈاپور کو کس نے اسلام آباد کا محفوظ راستہ دیا؟سینئر تجزیہ کار و کالم نگار حفیظ اللہ نیازی نے اہم تفصیلات شیئر کر دیں۔
"جنگ " میں شائع ہونیوالے اپنے بلاگ بعنوان "وطن سلامت تو نظام بھی نظریہ بھی" میں حفیظ اللہ نیازی نے لکھا کہ وجود میں آتے ہی مملکت سیاسی عدمِ استحکام کی زد میں ، 70 سال سے ارتعاش ، عدم تیقن ایک مستقل و مستحکم عمل بن چکا ہے ۔ عملاً 33 سال سے اسٹیبلشمنٹ وطنی سیاہ و سپید کی مالک ، بلاشبہ وطنی سیاسی عدمِ استحکام کی بلا شرکتِ غیرے ذمہ دار ہے ۔ ستم ظریفی کہ عدمِ استحکام کی صورت میں ہماری اسٹیبلشمنٹ اپنے مفادات کیلئے وطن عزیز کی بیخ کنی کرنیوالے " مفاداتی ٹولہ " سے گٹھ جوڑ کر تی رہی ۔ مفاداتی ٹولہ دہائیوں سے زبان ، قومیت ، فرقہ واریت ، لبرل ازم کی آڑ میں نظریاتی چولیں ہلا چکا ہے ۔ کُلی ذمہ دار ہماری اسٹیبلشمنٹ ہے۔7 دہائیوں کا سفر بیتے 2 سال ہو چکے ، وطن عزیز کے تناظر میں 7 دہائیوں کاجائزہ لیناہے ۔مجھے وطنی سالمیت کی گارنٹی چاہیے ، 10 سال پہلے " سیاسی مسخروں " نے " سیاست نہیں ریاست بچاؤ " کا ڈرامہ رچایا ۔ آج ملکی سالمیت متزلزل کر چکا ہے ۔تکلیف دہ کہ سارا عرصہ پشت پناہی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی تھی ۔ نتیجتاً2018 تک ! جنرل باجوہ کی قیادت میں ایک ٹرائیکا وجود میں آچکا تھا، 2022 تک مملکت کو گہری کھائی میں دھکیل گیا ۔ کہنا مشکل کہ ایسا عمل مفاداتی تھا یا باقاعدہ منصوبہ بندی کےمطابق تھا۔
بلاگ میں حفیظ اللہ نیازی نے مزید لکھا کہ 2018سے وطن عزیز میں ہائی برڈ سسٹم متعارف ہے ۔ ریاست بگولے کی زد میں ، عرصہ ہوا نظریات پس پشت ڈالے ، آئین و قانون میں سہارا ڈھونڈا کہ سیاسی استحکام نصیب بنے ۔آج وطنی سالمیت خطرات کے گھیرے میں ہے ۔ 2022 میں ایک وزیراعظم نے دم رخصت مروت اور اخلاص سے مملکت کو ڈیفالٹ کی طرف دھکیلنے کیلئے ہر ہنر آزمایا کہ " میں نہیں تو پاکستان نہیں " ، ریاست برباد کرکے رکھ دی۔ ا ۔ آخری 7 مہینے ، فیض عمران کو ریاست پرچڑھا دیا ۔ جنرل فیض سکرپٹ تیار کرتا رہا تو عمران خان جلسے جلوس ، ریلیاں ، 2 لانگ مارچ ، جیل بھرو تحریک وغیرہ وغیرہ سے اس سکرپٹ کو عملی جامہ پہناتا رہا ۔ ادارے کیخلاف مہم جوئی کا مقصد ، لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کی تعیناتی رکوائی جائے ۔
پچھلے جمعہ دو باتیں عرض کی تھیں ، SCO کے سربراہی اجلاس کو سبوتاژ کرنے کیلئے اسلام آباد پر عمرا ن خان کی چڑھائی کا پلان ناکام ہوگا ۔ علی امین گنڈاپور اسلام آباد سے ناکام لوٹیں گے ۔ علی امین گنڈاپور کی سیاست EXPOSE ہو چکی ہے ۔ رام کہانی میں دلچسپی نہیں ، اسٹیبلشمنٹ نے کمال مہارت سے اپنے مہرے استعمال کرکے انصافی احتجاجوں سے توانائی اور بھاپ نکال دی ۔ اسلام آباد احتجاج کا شاخسانہ کہ تحریک انصاف میں ورکر بمقابلہ قیادت دست و گریباں ہیں ۔ وسیع سیاسی سپورٹ کے باوجود عمران خان جیل میں بے بسی کی تصویر، کسمپرسی سے دوچار ہے ۔
بلاگ کے آخر میں حفیظ اللہ نیازی نے لکھا کہ عرصہ دراز سے عقیدہ ایک ہی کہ جو سیاسی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کی تخلیق ، وہ اسٹیبلشمنٹ کے آگے ڈھیر رہنی ہیں ۔ تحریک انصاف کی جتنی قیادت جیل سے باہر ہے آج باجماعت اسٹیبلشمنٹ کے رحم وکرم پر ، اسکے اشارہ ابرو کی محتاج ہے ۔بتایا تھا ،علی امین گنڈاپور کا امتحان کڑا ، " اے غم زندگی کچھ تو دے مشورہ ،میں کہاں جاؤں ہوتا نہیں فیصلہ " ، ایک طرف کور کمانڈر پشاور کا گھر اور ایک طرف چیئرمین کا میکدہ ۔ علی امین گنڈاپور کو کس نے اسلام آباد کا محفوظ راستہ دیا ۔ علی امین D چوک نہ سہی ، چائنہ چوک کو ہاتھ لگا کر شہیدوں میں شامل ہونے کی ناکام کوشش ضرور کی ۔ اصل کام آئینی ترامیم رکوانا ، اگلا میدانِ جنگ یہی کہ آئینی ترامیم کو کامیاب کروانا ہے ۔ SCO اجلاس کیوجہ سے شاید فوری ممکن نہیں ، قوی امکان کہ فوراً بعد ہو جانی ہیں ۔ دیر سویر میں ویسے25 اکتوبر کی میجک تاریخ کے بعد بھی ہو جائیں گی ۔ منصور علی شاہ چیف جسٹس بن بھی گئے تو اسٹیبلشمنٹ کے عزم صمیم اور مصمم ارادوں کے آگے بے بس رہیں گے ۔ بندیال کے بینچ اور شاہ صاحب بمع 7 ججز کے فیصلہ پر عدم عدولی کی نشاندہی ضروری ہے ۔ دورائے نہیں ، وطنی سیاسی استحکام کا انحصار جنرل عاصم منیر پر ہے ۔ ایک بات ذہن نشین کرنی ہوگی ، اللّٰہ تعالیٰ نے جس طریقہ سے ٹرائیکا اور بیرونی طاقتوں کی سازشوں کو اب تک ناکام بنایا ، شاید کوئی معجزہ ہی تھا ۔ وطنی سالمیت کا انحصار بھی اس معجزہ پر ہے۔ وطن باقی ! تو نظریہ اور نظام باقی، باقی رہے نام اللّٰہ کا۔