محمد علی جناحؒ کے آخری ایام، قائد اعظمؒ نے اپنی بیماری راز میں رکھنے کی خواہش کیوں کی؟
جب قبل ازیں قائداعظمؒ کے زندہ رہنے کی ہر امید واقعی معدوم ہو چکی تھی، ہم نے ان کی کوئٹہ میں رحلت کی صورت میں پیدا ہونے والی امکانی پیچیدگیوں سے بچنے کے لئے انہیں کراچی لے جانے کا فیصلہ کیا تھا، لیکن اب بہتری کی کچھ علامتیں دیکھ کر مَیں نے اپنا ارادہ بدل دیا۔ بلاشبہ ایک طرف سمندر سے زیادہ بلندی ان کی قوتِ مزاحمت ختم کر رہی تھی۔ دوسری طرف اس غیر یقینی حالت میں انہیں فضائی سفر کے دباؤ کے واضح خطرے کا سامنا ہوتا۔ مَیں نے صورت حال کے ہر پہلو پر غور کیا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ انہیں فی الفور لے جانے کی نسبت کوئٹہ میں مزید دو یوم قیام کم خطرناک ہوگا۔ اپنے رفقائے کار کے ساتھ کچھ بحث کے بعد مَیں نے اس مشترکہ فیصلے سے مس جناحؒ کو آگاہ کر دیا۔ انہوں نے ہمارے ساتھ اتفاق کیا۔ ہم بہتری کی توقع رکھتے تھے، لیکن کسی ہنگامی صورت حال کے لئے تیار رہنے کی خاطر ہم نے محترمہ کو مشورہ دیا کہ وہ قائداعظمؒ کا جہاز کوئٹہ منگوالیں اور اسے دو گھنٹے کے نوٹس پر پرواز کے لئے تیار رکھا جائے۔ اس ضمن میں کراچی احکامات بھیج دئیے گئے اور مجھے بتایا گیا کہ سٹاف اور سامان کے لئے قائداعظمؒ کے جہاز کے علاوہ دوڈکوٹا (Dakota) جہاز بھی آ رہے ہیں۔
ہمارے ایس او ایس کے جواب میں ڈاکٹر عالم اپنے پورٹیبل (دستی، نقل پذیر) ایکس رے اپریٹس کے ساتھ پہنچ چکے تھے، لیکن قائداعظمؒ کی نازک حالت کے باعث ہم نے ان کی ایکسرے تصویر لینا ملتوی کر دیا۔ تمام ضروری انتظامات مکمل کرنے کے بعد اس خیال سے کہ اگر ہمیں اگلے روز کراچی کے لئے روانہ ہونا ہو، ہم سات بجے کے قریب ریذیڈنسی سے چلے آئے۔ قائداعظمؒ کی حالت میں بہتری نے میری ڈھارس بندھائی اور مَیں نے اپنے رفقائے کار کو بتایا کہ میرا جی جشن منانا چاہ رہا ہے۔ چنانچہ گورنر جنرل کی کار میں سٹاف کالج اور کوئٹہ کے مضافات کی طرف، جنہیں دیکھنے کے لئے اپنے چار ہفتہ قیام کے دوران میں ہمیں وقت میسر نہ آیا تھا، ہم طویل مسافت(Long Drive) پر نکل گئے۔ اس سفر کے دوران میں ہم نے کچھ خریداری کی۔
ڈنر سے فارغ ہو کر دوبارہ سونے کی غرض سے میں ریذیڈنسی واپس چلا گیا۔ چونکہ تشویش کی زیادہ بات نہ تھی، مَیں جلدی لیٹ گیا اور گہری نیند سویا۔ قائداعظمؒ نے بھی رات پُرسکون گزاری۔ صبح ان کی نبض تسلی بخش تھی۔ واحد افسوسناک صورت پیشاب کی مقدار میں بہتری کی کمی تھی، لہٰذا مَیں نے معائنے کے لئے انہیں بے آرام کرنا مناسب نہ سمجھا۔ اے ڈی سی کیپٹن حسین کے ساتھ راہداری میں میری ملاقات ہوگئی۔ انہوں نے مجھے بتایا، قائداعظمؒ کا جہاز جلد پہنچنے والا ہے اور مَیں اس کا جائزہ لینے جا رہا ہوں۔ مَیں نے ان کے ہمراہ جانے کا ارادہ ظاہر کیا تاکہ دیکھ سکوں مریض کو اس میں کیسے اندر لے جایا جائے گا۔ ہم نے سٹریچر ساتھ لیا اور ہوائی اڈے پر پہنچ گئے۔ ہمارے وہاں پہنچنے سے تھوڑا پہلے ہی جہاز وہاں اترا تھا۔ پائلٹ سے میرا تعارف کرایا گیا۔ وہ مجھے جہاز کے اندر لے گیا۔ یہ نہایت با آرام، پُرآسائش سازو سامان سے لیس ایک عمدہ مشین تھی۔ انجن سے ملحق فرنٹ کیبن میں چار گدے دار نشستیں تھیں۔ ان میں سے دو بستر میں تبدیل کی جاسکتی تھیں۔ قائداعظمؒ کو وقتی طور پر موزوں کئے گئے، اس بستر میں لیٹنا تھا۔ کیبن میں آکسیجن کے انتظام کے لئے آلہ موجود تھا، لیکن سلنڈر پوری طرح بھرا ہوا نہ تھا۔ یہ بہ مشکل نصف گھنٹہ کام دے سکتا تھا۔ احتیاطاً مَیں نے ملٹری ہسپتال سے آکسیجن سے بھرا ہوا ایک سلنڈر لینے کا فیصلہ کیا۔ مَیں نے آکسیجن ماسک علیحدہ کیا اور نئے آکسیجن سلنڈر کے ساتھ موزوں کرنے کے لئے اسے اپنے ساتھ ہسپتال لے آیا۔ سٹریچر جہاز کے دروازے سے زیادہ چوڑا تھا۔ چنانچہ ہم نے رسیوں سے اس کی چوڑائی گھٹا دی۔ اس کے بعد مَیں نے پائلٹ سے پوچھا، فضائی ناہمواری سے بچنے کے لئے وہ کتنی بلندی پر پرواز کرے گا۔ اس نے مجھے بتایا، کوئی آدھے گھنٹے کے لئے اسے 7000 فٹ سے زیادہ بلندی پر پرواز کرنا ہوگی، لیکن پہاڑیاں عبور کرتے ہی وہ ممکنہ حد تک کم بلندی پر آجائے گا، بشرطیکہ مطلع صاف ہوا۔ مَیں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ سفر ایک دو بجے سے پہلے بہت کم جھٹکے دار ہوگا اور پائلٹ دو گھنٹے کے نوٹس پر روانہ ہو سکتا ہے۔
کسی بھی امکانی صورت حال سے عہدہ برآ ہونے کی تیاری کر کے ہم کوئی گیارہ بجے ریذیڈنسی واپس آگئے۔ مَیں نے ڈاکٹر مستری سے ملاقات کی۔ انہوں نے مجھے بتایا، قائداعظمؒ کی سنبھلی ہوئی حالت بگڑ چکی ہے اور انہوں نے صبح سے کوئی غذا نہیں لی۔ یہ سن کر مَیں دہل گیا، کیونکہ جس واحد چیز سے تھوڑی امید بندھی تھی وہ ان کا تسلی بخش غذا لینا تھا۔ اب یہ آس بھی جاتی رہی۔ مَیں نے محسوس کیا، مرض پر قابو پانے کی کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔ اب مریض کو کوئٹہ میں مزید روکے رکھنے سے کوئی فائدہ نہیں۔ اگر گزشتہ شب والی بہتری برقرار رہتی، ہم مزید دو روز کے لئے یہاں رہ سکتے تھے، لیکن چونکہ قائداعظمؒ کی حالت ابتر ہو چکی تھی، اس لئے میری رائے تھی، انہیں کراچی لے جانے میں ہمیں وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے۔ میرے رفقائے کار نے مجھ سے اتفاق کیا۔ مَیں نے اس سے مس جناحؒ کو مطلع کر دیا۔ انہوں نے امین کو ضروری ہدایات دیں۔ پائلٹ کو ایک بجے روانہ ہونے کا کہہ دیا گیا۔
اس قدر کم وقت میں سارا سامان باندھنا مشکل تھا، لیکن ہم ایک بجے کے فوراً بعد چل پڑنے کے لئے پُر امید تھے۔ قائداعظمؒ کو روانگی سے کچھ دیر پہلے مطلع کیا گیا۔ طے پایا تھا کہ ڈاکٹر مستری اور مَیں قائداعظمؒ کے جہاز میں ان کے ہمراہ ہوں گے اور ڈاکٹر شاہ، جن کی بیوی بچے کوئٹہ میں ہیں اور وہ انہیں تنہا نہیں چھوڑ سکتے، ہمارے پیچھے آنے والے ڈکوٹا میں سٹاف کے ہمرہ آئیں گے۔ پھر ہم نے جہاز میں ساتھ لے جانے والی اشیاء کی فہرست ترتیب دے کر نرس کے حوالے کر دی۔ انہوں نے بڑی توجہ سے ان اشیاء کو پیک کیا۔ فروٹ جوس، سُوپ، کافی، چائے اور دل کے لئے دیگر محرک اشیاء بڑی احتیاط سے تیار کیں اور بوتلوں میں محفوظ کر دی گئیں۔ سرنجوں کو اُبلے ہوئے پانی میں دھو کر ہنگامی حالت کے لئے تیار رکھا گیا۔ اس کے بعد مَیں نے مس جناحؒ سے پوچھا، کیا وہ نائب نرس کو کراچی ساتھ لے جانا پسند کریں گی؟۔۔۔ انہوں نے کہا، ہمیں نائب نرس وہیں سے بآسانی مل جائے گی۔ مَیں نے انہیں کہا، اسے بالکل یقینی بنانے کے لئے امین سے کہہ دیا جائے، وہ کراچی فون کر دیں کہ وہاں نائب نرس موجود ہو۔ محترمہ نے مجھے اطمینان دلایا، تمام انتظامات مکمل کر لئے گئے ہیں۔ ایمبولینس کے ساتھ ہی ماڑی پور کے ہوائی اڈے پر ، جہاں ہمارے جہاز نے اترنا ہے، ہمیں نرس مل جائے گی، پھر مَیں اپنے گھر گیا۔ اپنی بیوی کو اس پلان سے آگاہ کیا۔ اپنی چیزیں شتابی سے پیک کیں اور ریذیڈنسی واپس آگیا۔ اس وقت ساڑھے بارہ کے قریب تھے، لیکن ایک بجے ہمارے کوچ کر سکنے کے کوئی آثار نہ تھے، اس لئے کہ ابھی بہت سا سامان پیک ہونا تھا۔ پیکنگ تقریباً ایک بیس پر مکمل ہوئی۔ پھر مَیں قائد اعظمؒ کو مطلع کرنے کی اس نازک ذمہ داری کی ادائیگی کے لئے چلا، جو مس جناحؒ نے مجھے سونپی تھی۔ جونہی مَیں ان کے کمرے میں داخل ہوا اور انہیں سلام کیا، انہوں نے میری طرف دیکھا اور ایک پھیکی مسکراہٹ میرے نذر کی۔ وہ بہت لاغر اور بے حد تھکے ہوئے نظر آ رہے تھے۔ ان کی آنکھیں شدید بیماری کا اظہار کر رہی تھیں، چونکہ مَیں کھڑا تھا، انہوں نے مجھے کرسی میں بیٹھنے کا اشارہ کیا، مَیں نے تعمیل کی۔ تب ہمارے درمیان یہ گفتگو ہوئی۔
’’سر! آپ کراچی جانا پسند کریں گے؟‘‘
’’ہاں‘‘
’’سر! آپ آج جانا پسند کریں گے؟‘‘
’’مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں‘‘۔
’’ہم جہاز کے ذریعے روانگی کے لئے تیار ہیں، آپ چند منٹ کے اندر روانہ ہونا پسند کریں گے؟‘‘
قائداعظمؒ نے سر کی جنبش سے اقرار کیا اور کمزور لہجے میں کہا، ’’ٹھیک‘‘۔
مَیں نے ازحد اطمینان محسوس کیا، لیکن اس پر حیرت زدہ رہ گیا کہ آخر کس چیز نے کراچی جانے کے متعلق انہیں اپنے پرانے اعتراض سے اس قدر بآسانی سبکدوشی پر آمادہ کیا۔ چونکہ ہم نے انہیں بتایا نہیں تھا کہ ان کی حالت کس قدر نازک ہے، پھر یہی ہو سکتا ہے کہ وہ خود ہی ہر امید کھو بیٹھے ہوں۔ اپنی جائے پیدائش کی طرف واپسی کا انہوں نے طے کر لیا ہو۔ مَیں نے جا کر مس جناحؒ کو بتایا، قائداعظمؒ نے فوری روانگی پر اتفاق کر لیا ہے۔ چند منٹ کے اندر ہم نے انہیں ایمبولینس میں شفٹ کر دیا۔ مس جناحؒ اور نرس سامنے والی سیٹ میں بیٹھیں۔ مَیں فرنٹ سیٹ میں ڈرائیور کے بعد لیفٹیننٹ مظہر کے ساتھ بیٹھ گیا۔
جونہی ایمبولینس حرکت میں آئی، مجھے احساس ہوا، ہم نے کس قدر بھاری بھر کم فیصلہ کیا ہے۔ ذہن میں آنے والی کئی حوصلہ شکن خیالات کے ساتھ مَیں اللہ تعالیٰ سے قائداعظمؒ کے لئے آرام دہ سفر کا طلب گار ہوا۔ مَیں نے دعا سے تقویت پائی اور پھر ان کئی ضروریات کی طرف بھی دھیان کرنا تھا جو دورانِ سفر میں پیدا ہو سکتی تھی۔ فاصلے سے ہمیں گورنر جنرل کا وائی کنگ (VIKING) دھوپ میں رُو پہلی پرندے (Silver Bird) کی طرح جگمگ کرتا نظر آ رہا تھا۔
2 بجے ہم ہوائی اڈے پر تھے۔ جیسا کہ قائداعظمؒ جہاز کی طرف سٹریچر میں لے جائے جا رہے تھے، عملے نے انہیں سلیوٹ کیا۔ قائداعظمؒ کی طرف سے پھرتی سے دئیے گئے جواب پر ہم ہکا بکا رہ گئے۔ وہ اس قدر لاغر ہو چکے تھے کہ بستر پر کروٹ بدلتے وقت انہیں تکلیف محسوس ہوتی تھی اور کھانسنے کے لئے انہیں زور لگانا پڑتا تھا۔ ہم تعجب زدہ ہوئے کہ انہیں نے سلیوٹ اس قدر پھرتی سے لوٹانے کے لئے اپنے اندر قوت کس طرح مجتمع کرلی۔ جذبے کا یہ ناقابل فراموش اظہار حتیٰ کہ گور کنارے بھی ان کی طرف سے یہ احساسِ فرض اور ڈسپلن کی ایک علامت تھا۔
جہاز اندر سے مناسب گرم تھا۔ مس جناحؒ ڈاکٹر مستری اور نرس فرنٹ کیبن میں اور مَیں، مسٹر امین اور لیفٹیننٹ مظہر ساتھ والے کیبن میں تھے۔ ابھی جہاز کو اڑے چند منٹ ہی ہوئے تھے،میں نے ڈاکٹر مستری کو کیبن میں سے نکلتے دیکھا۔ میرا دل ڈوب گیا، لیکن انہوں نے یہ بتا کر میری تشویش دور کر دی کہ انہیں مس جناحؒ نے بھیجا ہے کہ جب ضروری ہوا ہم آپ کو بلا لیں گے۔ وہ میرے سامنے والی کرسی میں بیٹھ گئے اور فوراً ان کی آنکھ لگ گئی۔ جلد ہی ہمارا جہاز 7000 فٹ بلندی پر تھا اور مَیں کھڑکی کے شیشے میں سے کوئٹہ کی پہاڑیوں کا ناہموار منظر دیکھ رہا تھا۔ مشترک دروازہ کھلا۔ مس جناحؒ آئیں۔ انہوں نے مجھے بتایا، نرس ہوائی سفر کی وجہ سے متلی میں مبتلا ہو کر لاچار ہو چکی ہے اور میرے بھائی اس سے آکسیجن نہیں لے رہے۔ مَیں ان کے کیبن میں گیا۔ ان کی نبض کی رفتار شمار کی۔ وہ معمول کے مطابق اور بھرپور تھی۔ مَیں نے یہ جاننے کے لئے کہ انہیں نیلا یرقان تو نہیں، ان کے ناخنوں کا جائزہ لیا۔ اس سے مطمئن ہو کر مَیں نے انہیںآکسیجن دینے کا اہتمام کیا۔ جب مَیں ماسک ان کے منہ کے قریب لایا، انہوں نے میرا ہاتھ جھٹک دیا، لیکن جب مَیں نے خوبصورتی سے ان پر واضح کیا کہ یہ ان کے نظام کو نقصان سے محفوظ رکھنے کے لئے ضروری ہے، انہوں نے میری طرف دیکھا، مسکرائے اور مجھے ماسک لگانے کی اجازت دے دی۔ وہاں میرے بیٹھنے کے لئے کوئی جگہ نہ تھی، لیکن مَیں نے دونوں کیبن کی درمیانی سیڑھی پر بیٹھ کر اپنے آپ کو ایک طرح سے مطمئن کر لیا۔ میری پشت دروازے کی طرف ہوگئی۔ قائداعظمؒ تقریباً پانچ منٹ کے لئے آکسیجن لیتے، پھر ماسک ہٹانے کی کوشش کرتے۔ ہر بار مَیں ان سے حقیقت بیان کرتا۔ وہ میرے طرف دیکھتے، مُسکراتے اور اسے دوبارہ لگانے کی اجازت دے دیتے۔ ہر چند منٹ بعد میں ان کی نبض کی رفتار شمار کرتا اور ان کے ناخنوں کی رنگت کا اپنے ناخنوں کے ساتھ موازنہ کرتا۔ وہ بے چین ہو کر کمبل ہٹانے کی کوشش کرتے، لیکن مس جناحؒ تیزی سے انہیں پھر ڈھانپ دیتیں۔ اس اکڑوں کیفیت میں 20 منٹ تک بیٹھنے کے بعد مَیں نے چند منٹ کے لئے پُرسکون ہونے کی ضرورت محسوس کی۔ مس جناحؒ نے مجھے بے چین دیکھ کر کچھ دیر کے لئے آرام کرنے کو کہا اور یہ کہ اس دوران میں آکسیجن وہ خود دے لیں گی۔ وہ کوئٹہ میں کاملاً تسلی بخش طریقے سے ایسا کرتی رہی تھیں، لہٰذا مَیں اپنے کیبن میں واپس چلا گیا۔ ہر کوئی گہری نیند میں خراٹے لے رہا تھا، ماسوا لیفٹیننٹ مظہر کے جو بہت پہلے اور ہوائی سفر کے سبب متلی میں مبتلا دکھائی دے رہے تھے۔
ابھی مجھے آئے دو منٹ ہی ہوئے تھے کہ مس جناحؒ آئیں اور کہا، آپ ہی آکر انہیں آکسیجن دیں، کیونکہ میرے بھائی مجھ سے آکسیجن نہیں لے رہے، مَیں قائداعظمؒ کے کیبن میں گیا اور انہیں مزید کوئی 20منٹ تک آکسیجن دی، لیکن تب تک ہم پہاڑیاں پیچھے چھوڑ چکے تھے اور اب جہاز 4 سے 5 ہزار فٹ بلندی پر محو پرواز تھا۔ مَیں نے مزید آکسیجن دینا ضروری نہ سمجھا اور اپنے کیبن میں واپس آگیا۔ سفر کا انتہائی مشکل اور پُر خطر حصہ گزر چکا تھا۔ اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے میں باقی ماندہ سفر میں آرام کرنے کی غرض سے کرسی میں دراز ہوگیا۔ قائداعظمؒ نے جس عمدگی سے یہ سب برداشت کیا اس نے میرے اندر ایک موہوم امید ابھاری۔ مَیں نے اخبار پڑھنے کی کوشش کی، لیکن اس پر توجہ مرکوز نہ کر سکا۔ مَیں نے آنکھیں بند کیں، لیکن نیند مجھ سے دور رہی۔ مَیں نے کھڑکی میں سے نیچے سندھ کے سیلاب زدہ علاقوں کی طرف دیکھا اور اپنے اس نوزائیدہ ملک پر قدرت کے اس ستم پر غور کیا۔
کراچی
ہم چار بج کر پندرہ منٹ پر ماڑی پور کے ہوائی اڈے پر اترے۔ میرے ذہن پر سے زبردست بوجھ اتر گیا۔ جونہی مَیں جہاز میں سے باہر آیا، مَیں نے گورنر جنرل کے ملٹری سیکرٹری کرنل نولز (Colonel Knowles) کو ایمبولینس کے پاس کھڑے دیکھا ، لیکن کوئی نرس نظر نہ آئی۔ کراچی میں قدرے گرمی تھی، لیکن تکلیف دہ نہ تھی، کیونکہ وہاں سمندر کی طرف سے آنے والی زور دار ہوا چل رہی تھی تاہم جہاز کے اندر گھٹن تھی، اس لئے ہم نے بغیر وقت ضائع کئے قائداعظمؒ کو ایمبولینس میں منتقل کر دیا۔ مس جناحؒ اور کوئٹہ سے ساتھ آنے والی نرس ایمبولینس میں بیٹھ گئیں، جبکہ ملٹری سیکرٹری، ڈاکٹر مستری اور مَیں ایمبولینس کے پیچھے گورنر جنرل کی کیڈلک(CADILLAC) میں بیٹھ گئے۔ سامان اور ملازم ہمارے پیچھے ٹرک میں تھے۔ ہم ہوائی اڈے سے گورنر جنرل ہاؤس کی طرف، جووہاں سے نو دس میل کے فاصلے پر تھا، بہت آہستہ رفتار سے روانہ ہوئے۔
ہم نے بہ مشکل چار میل طے کئے تھے کہ ایمبولینس رک گئی۔ حیرت زدہ ہو کر، کہ کیا ہوگیا، مَیں کار میں سے باہر نکلا۔ پتہ چلا انجن میں خرابی کے سبب یہ رکاوٹ پیدا ہوئی ہے۔ ڈرائیور نے ہمیں یقین دلایا کہ وہ جلد ہی اسے درست کر لے گا۔ وہ کوئی بیس منٹ تک انجن کی درستی میں لگا رہا، لیکن ایمبولینس سٹارٹ نہ ہوئی۔ مس جناحؒ نے ملٹری سیکرٹری کو دوسری ایمبولینس لانے کے لئے بھیج دیا۔ ڈاکٹر مستری بھی اس کے ساتھ گئے۔ ایمبولینس میں ناقابلِ برداشت گھٹن تھی۔ نرس اور ملازموں کے مسلسل پنکھا جھلنے کے باوجود قائداعظمؒ پسینے سے شرابور ہوگئے۔ ہم نے انہیں بڑی کار میں منتقل کرنے کے متعلق غور کیا، لیکن سٹریچر کار کے اندر نہیں لے جایا جا سکتا تھا اور قائداعظمؒ اس قدر لاغر ہو چکے تھے کہ انہیں پچھلی سیٹ پر سہارے کے ساتھ بھی نہیں بٹھایا جا سکتا تھا۔ اس کے علاوہ ان کے کپڑے پسینے سے بھیگ چکے تھے۔ اس طرح تیز سمندری ہوا سے انہیں سردی لگنے کا خطرہ تھا۔ مَیں نے ان کا معائنہ کیا اور یہ جان کر دہشت زدہ ہوگیا کہ ان کی نبض کمزور اور بے قاعدہ ہو چکی تھی۔ مَیں ٹرک کی طرف بھاگا اور وہاں سے گرم چائے کا تھرموس فلاسک لایا۔ مس جناحؒ نے فوراً انہیں چائے کا ایک کپ دیا۔ اور بتایا کہ پورے دن میں انہوں نے یہی غذا لی ہے۔ وہ ماسوا فروٹ جوس کی چند چُسکیوں کے ہر چیز سے انکاری رہے۔ مَیں نے محترمہ کو بتایا، یہ حوصلہ افزاء علامت ہے۔
ایمبولینس کے سخت اذیت ناک بگاڑ کے سوا ہر چیز مریض کے حق میں جارہی تھی۔ ہوائی سفر سلامتی سے طے کرنے کے بعد اگر قائداعظمؒ سڑک کے پہلو میں انتقال کر گئے تو یہ کس قدر آفتِ نا گہانی ہوگی۔ تشویش کی اس شدت کے ساتھ مَیں نے پھر ان کی نبض دیکھی، چائے کے کپ نے انہیں نئی توانائی بخش دی تھی۔ خوش قسمتی سے ان کی نبض پہلے سے زیادہ توانا اور منظم تھی۔ مَیں نے شہر کی طرف نظریں دیوانہ وار جما رکھی تھیں، لیکن اُدھر کسی ایمبولینس کا کوئی نشان نہ تھا۔ کئی ٹرک اور بسیں آجا رہی تھیں، لیکن ان میں سے کوئی بھی استعمال کے لئے اطمینان بخش نہ تھی۔ مَیں انپے آپ کو مکمل طور پر یکہ و تنہا اور بے یارو مددگار محسوس کرنے لگا۔ ذہنی اذیت کے طویل وقفے کے بعد بالآخر ایک ایمبولینس نظر آئی۔ ہم نے قائداعظمؒ کو فی الفور اس نئی ایمبولینس میں منتقل کر کے بدقسمتی سے رک جانے والا سفر دوبارہ شروع کیا۔ ایمبولینس پر گورنر جنرل کا جھنڈا نہیں لہرا رہا تھا، اس لئے کسی کو پتہ نہ چل سکا کہ قائداعظمؒ کو کراچی کی سڑکوں پر نازک حالت میں لے جایا جا رہا ہے۔
ماڑی پور ہوائی اڈے پر اترنے کے قریباً دو گھنٹے بعد چھ بج کر دس منٹ پر ہم اپنی منزل پر پہنچے۔ سفر، جو تکلیف دہ ثابت ہوا، کا بہ خیریت اختتام بیان کرنا مشکل ہے۔ مَیں نے اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھروسہ رکھا اور اس نے قائداعظمؒ پر نظرِ عنایت کئے رکھی۔
ایمبولینس قائداعظمؒ کے کمرے کے سامنے لے جائی گئی۔ انہیں سٹریچر پر اندر لے جایا گیا۔ مَیں نے بستر پر لٹانے میں ان کی مدد کی۔ نرس نے ان کا ٹمپریچر اور نبض دیکھی۔ اس نے ایک کے نارمل، دوسری کے منظم ہونے کی رپورٹ دی۔ قائداعظمؒ کی حالت پر مطمئن ہونے کے بعد مَیں ملٹری سیکرٹری کے کمرے میں گیا اور ان سے چائے کا ایک کپ طلب کیا۔ ناشتے کے بعد سے مَیں نے کچھ نہیں کھایا پیا تھا۔ مَیں بہت تھکا ہوا اور پیاسا تھا۔ مَیں نے منہ ہاتھ دھویا اور یکے بعد دیگرے تیز چائے کے چار کپ پئے۔ چند منٹ بعد ڈاکٹر مستری اور مَیں قائداعظمؒ کے کمرے میں گئے تو ہم نے انہیں نیند میں پایا۔ ڈاکٹر مستری نے اپنے گھر جانے کے لئے ایک گھنٹے کی اجازت چاہی۔ مَیں نے کرنل نولز سے کہا کہ کرنل ایم ایچ شاہ سے فون پر ابطہ کر کے انہیں نائٹ نرس مہیا کرنے کا کہے اور اس کے ہاتھ انیما کین (ENEMA CAN) بھیجیں، لیکن کرنل شاہ کے ساتھ کہیں بھی رابطہ قائم نہ ہو سکا۔ پھر ہم نے جناح سنٹرل ہسپتال کے سرجن کرنل سعید احمد کو فون کیا۔ چونکہ وہ اس وقت ایک آپریشن شروع کر چکے تھے، اس لئے ان تک رسائی نہیں ہو سکتی تھی۔ پھر مَیں خود کرنل شاہ کو ڈھونڈنے اور اپنے ساتھ نرس اور انیما کین لانے کے لئے نکلا، لیکن کرنل شاہ نہ تو اپنے گھر پر تھے اور نہ ہی ہسپتال میں۔ مَیں میجر آپریشن کے دوران میں کرنل سعید احمد کے مخل نہیں ہونا چاہتا تھا۔ اس لئے مَیں نرسز ہوم گیا۔ انچارج نرس کہیں گئی ہوئی تھیں اور تجربہ کار نرس دستیاب نہ تھی۔ میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کیا کروں۔ اس پر مَیں برہم ہوگیا۔ جب سے ہم ہوائی اڈے پر اترے تھے ، تب سے ہر چیز ہمارے مخالف جا رہی تھی۔ کاش! مَیں نے مس جناحؒ سے کوئٹہ سے نائب نرس لانے پر اصرار کیا ہوتا۔ میرے تصور میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ کراچی میں اس کی دستیابی اس قدر مشکل ہوگی۔ مَیں نے کرنل شاہ کو ڈھونڈ نکالنے کا فیصلہ کیا۔ آٹھ بجنے والے تھے، وہ اپنے گھر نہیں لوٹے تھے۔ کرنل شاہ کے گھر مجھے ڈاکٹر آر اے شاہ مل گئے، جہاں وہ اور ان کے اہل خانہ ٹھہرے ہوئے تھے۔ مَیں نے کراچی کو بُرا بھلا کہہ کر اپنے پریشان اعصاب کے لئے سکون ڈھونڈا۔ آٹھ بیس پر مَیں نے انہیں بتایا، مَیں مزید انتظار نہیں کر سکتا اور ہوٹل میں ڈنر کے لئے جانے سے قبل واپس جا کر قائداعظمؒ کو دیکھوں گا۔ بہرحال، انہوں نے نو پندرہ پر اکٹھا جانا تجویز کیا کہ وہ وقت قائداعظمؒ کو معمول کا ٹیکہ لگانے کا ہوگا اور یہ کہ اس اثناء میں آپ مارا مار ہوٹل پہنچ کر ڈنر کر لینا، لیکن مَیں بہت بے چینی محسوس کر رہا تھا اور پہلے گورنر جنرل ہاؤس پہنچنا چاہتا تھا۔ مجھے قائداعظمؒ کے متعلق کوئی فوری تشویش نہ تھی۔ یہ نہیں کہ انہیں دیکھنے والا کوئی نہ تھا، کیونکہ ڈاکٹر مستری سات بجے واپس آچکے ہوں گے، پھر بھی مَیں اپنے آپ کو مطمئن کرنا چاہتا تھا تاکہ مَیں سکون کے ساتھ ڈنر کر سکوں۔ چنانچہ مَیں سیدھا گورنر جنرل ہاؤس گیا اور یہ جان کر خوش ہوگیا کہ ملٹری سیکرٹری ایک نرس ڈھونڈ نکالنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ ساڑھے آٹھ بجے مَیں نے لیفٹیننٹ مظہر سے کہا، وہ مس جناحؒ کو بتا دیں، مَیں ڈنر کے لئے ہوٹل جانے سے قبل قائداعظمؒ کی حالت جاننے کے لئے آپ سے ملنا چاہتا ہوں۔ مجھے بتایا گیا، دو گھنٹے ہوئے قائداعظمؒ سکون سے سو رہے ہیں۔ کوئی پندرہ منٹ بعد مَیں نے ملٹری سیکرٹری سے دریافت کیا، آیا مس جناحؒ کو میرا پیغام پہنچا دیا گیا ہے۔ ان کے خیال میں یہ ضرور پہنچا دیا گیا ہوگا، لیکن وہ یہ نہ بتا سکے کہ اس کا کوئی جواب کیوں نہیں آیا۔ آٹھ پینتالیس پر مَیں نے اسے بتایا، چونکہ ہر چیز درست دکھائی دے رہی ہے اور تھوڑی دیر بعد ہم آجائیں گے، مَیں بھاگم بھاگ ہوٹل جاتا ہوں تاکہ جلدی سے ڈنر کر کے واپس آسکوں۔ مَیں پیلس ہوٹل پہنچا، جہاں مجھے قیام کرنا تھا، شتابی سے کھانا کھایا اور گورنر جنرل ہاؤس ٹیلی فون کرنے کے لئے باہر آگیا کہ وہ مجھے واپسی کے لئے کار بھیج دیں۔ اسی وقت استقبالیہ کلرک نے مجھے اے ڈی سی کو فی الفور ٹیلی فون کرنے کا ارجنٹ پیغام دیا۔ مجھے ٹیلی فون پر بتایا گیا، قائداعظمؒ کی نبض غیر منظم ہو چکی ہے اور آپ بلا تاخیر پہنچ جائیں۔ مَیں نے اے ڈی سی سے کہا، مجھے فوراً کار بھیج دیں۔
سوا نو بجے مَیں قائداعظمؒ کے پاس تھا۔ ان کا معائنہ کرنے کے بعد مَیں نے ان کی نبض کمزور اور قدرے غیر منظم پائی۔ انہیں ٹھنڈے پسینے آ رہے تھے اور ہاتھ پاؤں ٹھنڈے تھے۔ اس کے سبب تک پہنچنے سے قبل مَیں نے انہیں فی الفور دل کو تقویت دینے والا ٹیکہ لگایا اور خون کی گردش تیز کرنے کے لئے انہیں دوائی پلائی، جسے وہ نگل نہ سکے اور دوائی منہ کے کونے سے ٹپک پڑی۔ جسم کے نہایت ضروری حصوں کی طرف خون کا بہاؤ بڑھانے کی خاطر مَیں نے بستر کے پائے اونچا کرنے کے لئے اینٹیں یا لکڑی کے بلاک اور ٹانگوں کے لئے پٹیاں لانے کو کہا، گورنر جنرل ہاؤس میں ان چیزوں کا ملنا مشکل تھا۔ چنانچہ مَیں نے بستر کے پائے اٹھانے کی خود کوشش کی۔ بستر بہت وزنی تھا۔ اگرچہ مَیں اسے چھ سات انچ تک اٹھانے میں کامیاب ہوگیا، لیکن مَیں اسے زیادہ دیر کے لئے اٹھا نہ سکا۔ مس جناحؒ نے میری مدد کرنے کی کوشش کی ، لیکن مَیں نے انہیں یہ مشقت نہ کرنے کی استدعا کی اور اینٹوں کی جگہ استعمال کرنے کے لئے کتابیں منگوا لیں، لیکن ان سب تدابیر نے نبض میں کوئی نمایاں بہتری پیدا نہ کی۔ جب مَیں اس میں دیوانہ وار مصروف تھا، ڈاکٹر مستری اور ڈاکٹر شاہ آگئے۔ مَیں نے ڈاکٹر شاہ کورگ میں ٹیکے کے ذریعے دوائی داخل کرنے کا کہا، تاہم وہ اس کے ماہر ہونے کے باوجود ناکام ہوگئے، کیونکہ رگیں ختم ہو چکی تھیں۔ میرے آنے سے قبل ہی نرس آکسیجن دے رہی تھی، جو ابھی تک دی جا رہی تھی۔ دل کو تقویت دینے والی دوائی ایک پار پھر منہ کے ذریعے داخل کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن قائداعظمؒ اسے نگل نہ سکے۔ ہم لاچار ہوگئے۔
دوائی کا دوسرا ٹیکہ لگانے کے بعد مَیں نے قائداعظمؒ کا اعتماد بحال کرتے ہوئے کہا: ’’سر! ہم نے آپ کو ٹیکہ تقویت دینے کے لئے لگایا ہے۔ اس کا فوری اثر ہوگا۔ انشاء اللہ آپ صحت یاب ہو جائیں گے‘‘۔ قائداعظمؒ نے اپنے سر کو جنبنش دی اور مدھم لہجے میں کہا: No, I am not. (اب مَیں زندہ نہیں رہوں گا) یہ کسی سے کہے گئے ان کے آخری الفاظ تھے، جو انہوں نے اپنی رحلت سے قریباً نصف گھنٹہ قبل کہے۔ مس جناحؒ پر جذبات اس قدر حاوی تھے کہ وہ ان سے بات نہ کر سکیں۔ اس وقت کمرے میں صرف تین ڈاکٹر، مس جناحؒ اور نرس تھی۔ دس بجے ان کی نبض بہت سست روی سے بہتر ہونے لگی اور ہمارے اندر ایک موہوم امید پیدا ہونا شروع ہوگئی، لیکن دس منٹ بعد یہ پہلے کی طرح کمزور ، پھر تقریباً غائب ہوگئی۔ دس بج کر بیس منٹ پر مَیں کلائی پر نبض کا تعین نہ کر سکا اور جب مَیں نے دل پر سٹیتھو سکوپ رکھا، مجھے دل کی کوئی دھڑکن سنائی نہ دی۔ قائداعظمؒ فوت ہو چکے تھے۔ مَیں نے یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ معاملہ بالکل ختم ہو چکا ہے۔ مس جناحؒ کی طرف دیکھا۔ وہ غم سے مغلوب تھیں اور تقریباً گر پڑیں، کہ ہم نے انہیں ساتھ والے کمرے میں کرسی تک سہارا دیا اور انہیں دل کو تقویت دینے والی دوائی دی۔ ان کی حالت رقت انگیز تھی، لیکن چونکہ انہیں جو روح فرسا غم تھا، ہم اس میں انہی کی طرح ڈوبے ہوئے تھے، ہم انہیں کوئی تسلی و تشفی نہ دے سکتے تھے۔
اگرچہ 36 گھنٹے پہلے ہم نے مس جناحؒ کو بتا دیا تھا کہ ہماری رائے میں 24 تا 36 گھنٹے سے زائد قائداعظمؒ کے زندہ رہنے کا ایک فی صد بھی امکان نہیں، پھر بھی ان کی رحلت ہمارے لئے ایک شدید دھچکا تھی۔ سارا عرصہ میں ایک معجزہ سر زد ہونے کی آس کئے رہا اور اس کے لئے دعا کرتا رہا۔ آخری منٹ تک میری آس نہ ٹوٹی، لیکن معجزہ رونما نہ ہوا۔ 21 جولائی کے جس لمحے مَیں نے مسٹر محمد علی کی ٹیلی فون کال وصول کی تھی۔ تب سے مَیں قائداعظمؒ کی شفایابی کے لئے دعا کرتا رہا۔ گزشتہ پندرہ روز کے دوران میں ایک دن میں کئی بار نہایت جذبے کے ساتھ دل سے دعا کرتا رہا تھا۔ میرے ذہن پر جو بات مسلط رہی، وہ قائداعظمؒ کی بیماری تھی اور یہ کہ اس کا کس قدر انتہائی مؤثر انداز میں علاج کرنا ہے۔ صبح بیدار ہوتے اور رات سوتے وقت یہی سوچ میرے ذہن پر حاوی ہوتی۔ اب قائداعظمؒ انتقال کر چکے تھے اور میری تمام دعائیں اور کوششیں بے سود رہی تھیں۔ رضائے الٰہی کے آگے سر تسلیم خم کرتے ہوئے مَیں اس پر افسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ مجھے ایک یا دو ماہ پہلے ہی کیوں نہ بلا لیا گیا، جب ان کے صحت یاب ہونے کا بہت زیادہ امکان تھا۔
جس کسی سے بھی میں ملا وہ قائداعظمؒ کی بیماری کی تمام تر تفصیل جاننے کے لئے مضطرب رہا۔ مجھ سے اکثر پوچھا جاتا کہ اسے راز میں کیوں رکھا گیا۔ میرا جواب صرف یہی ہو سکتا تھا کہ ایسا قائداعظمؒ کی اپنی خواہش پر کیا گیا۔ ڈاکٹر کا اولین فرض یہ ہے کہ وہ اپنے مریض کی بیماری کا انکشاف اور اس کی پراگریس اس کے قریب ترین رشتے دار کو رپورٹ کرے اور مریض پر یہ اسی صورت ظاہر کرے اگر اس کا رشتے دار ایسا چاہے اور وہ خود اسے مناسب سمجھتا ہو۔ مَیں نے بالکل آغاز میں ہی مس جناحؒ کو اعتماد میں لے لیا تھا اور انہی کا اصرار اور یقین تھا کہ قائداعظمؒ کو مطلع کرنے سے علاج جاری نہیں رہ سکتا۔ اگر میں بیماری کی نوعیت اور سنگینی کسی دوسرے پر ظاہر کردیتا تو میں مریض اور اپنے پیشے سے غیر وفادار ٹھہرتا۔یہ میری سمجھ سے بالاتھا کہ قائداعظمؒ نے اپنی بیماری راز میں رکھنے کی خواہش کیوں کی۔ لیکن ایک ڈاکٹر اور نظم وضبط کے پابند ایک سپاہی کی حیثیت سے مجھے تعمیلِ حکم کرنا تھی چاہے میں اِسے درست سمجھوں یا غلط۔ اِس راز داری کے باعث اُن کی وفات کے بعد پیدا ہونے والے رِدّعمل کے بارے میں جائزہ لینا میری ذمہ داری نہ تھی۔یہ قائداعظمؒ کا معاملہ تھا۔وہ اِسے بہتر سمجھتے تھے۔ میرے بعض دوست مجھ سے متفق نہ تھے، لیکن آج کے روز تک میں اِس پر مطمئن ہوں کہ میں نے وہی راستہ اختیار کیا جس کی اُٹھان انسانی سوچ اور پیشہ ورانہ اُصول پر تھی۔
میں جنازے کے جلوس میں شرکت کے لئے مذبذب رہا ،لیکن میں نے آخری رسوم کی روئداد سخت ذہنی دباؤ میں ریڈیو پر سنی۔جب اناؤنسر نے قائداعظمؒ کو قبر میں اُتارنے کا منظر بیان کیا، میں پھوٹ پھوٹ کر رویا۔اب تک میں نے اپنے جذبات کو قابو میں رکھا تھا۔اگرچہ کئی مواقع پر میرے آنسو بہنے کو تھے،خاص طور پر جب اُنہوں نے آخری سانس لی ۔سارا عرصہ میری آنکھیں خشک رہیں۔ اب جب قائداعظمؒ کی تدفین ہورہی تھی،میں اپنے آپ کو مزید قابو میں نہ رکھ سکا ا ور اپنے بھائی اور اُس کی بیوی کی موجودگی میں ایک بے یارومددگار بچے کی طرح رونے لگا۔ میں نے قائداعظمؒ کے ساتھ ایسے ہی پیار کیا جیسا کہ اپنے باپ کے ساتھ۔میں جانتا تھا وہ مجھے بہت زیادہ پسند کرنے لگے تھے۔میں جب بھی پیشہ ورانہ وزٹ پر اُن سے ملا،اُنہوں نے ہمیشہ مسکراہٹ کے ساتھ میراخیر مقدم کیا۔میں نے جب بھی علاج کے متعلق اُن سے کچھ کرنے کی استدعا کی،اُنہوں نے میرے مشورے کو ہمیشہ توقیر بخشی۔اگرچہ کئی مواقع پر اطمینان کی خاطر وہ اپنے موقف کی درستی پر میرے ساتھ استدلال کرتے۔میرے آمادہ کرنے پر اُنہوں نے کئی تکلیف دہ ٹیکے،جن سے وہ کراہت محسوس کرتے تھے،برداشت کیے۔اُنہیں گولیوں کی صورت میں ادویات سخت ناپسند تھیں۔ پھر بھی جب میں نے اُن کے لیے یہ تجویزکیں وہ اُنہوں نے لیں۔ وہ نرسوں کی خدمات حاصل کرنا سخت ناپسند کرتے تھے۔لیکن جب میں نے اِس کی ضرورت بیان کی تو اُنہوں نے میرا مشورہ قبول کیا۔فضائی سفر کے دوران میں وہ نرس حتیٰ کہ اپنی بہن سے بھی آکسیجن لینے کے لئے تیار نہ ہوتے تھے،لیکن میں نے جب بھی اُن سے درخواست کی ،وہ مسکرائے اور آکسیجن لے لی۔یہ تمام باتیں میرے حافظے میں تازہ تھیں اوراُن کا مسکراتا چہرہ بار بار میرے ذہن میں آرہا تھا، اور یہ انتہائی محبوب شخص مٹی تلے ہمیشہ کے لئے دفن کیا جارہا تھا۔ایک عظیم ترین مسلمان مٹی تلے اُتارا جارہا تھا اور جلد ہی وہ اِس مٹی کا حصہ بن جائے گا۔اﷲ تعالیٰ نے اُنہیں اِس برصغیر کے مسلمانوں کیلئے ایک رحمت کے طو ر پر تخلیق کیا تھا ،اور اب اُس نے اُسے ہم سے واپس لے جانے میں بہتری سمجھی۔ اب ہمیں اِس پائے کی ہستی کبھی نہیں ملے گی۔
اگلے روز،سوموار،13ستمبر میں مس جناحؒ سے ملنے گیا۔اُنہوں نے دریافت کیا،رحلت سے قبل قائداعظمؒ نے آپ سے کیا کہا تھا۔محترمہ کی آنکھوں سے آنسو مسلسل بہہ رہے تھے۔مجھ پر اِس کا شدید اثر ہوا ،لیکن میرے پاس اُن کا غم ہلکا کرنے کے لئے الفاظ نہ تھے۔میں نے اُن سے اصرار کیا کہ طویل عمری کے لئے اپنی صحت کی طرف توجہ دیں تاکہ آپ ہمارے اندر نوزائیداہ مملکت کو تقویت دینے کا احساس اُبھارتی رہیں۔اِس پر وہ مزید روئیں اور کہا:’’ اب میرے زندہ رہنے کا کیا فائدہ؟‘‘ میں اُنہیں کیسے تسلی دیتا؟ میں یہی ایک دلاسا پیش کرسکتا تھا کہ اُن کے بھائی کی عظیم رُوح ہمارے ساتھ رہے گی اور ہم اُن کی تخلیق اور اُن کے تخیل،اِس عظیم مملکت، کا اپنے آپ کو اہل ثابت کرکے اُنہیں خراج تحسین پیش کرسکتے ہیں۔
اپنی طرف سے میں اﷲ تعالیٰ کا شکر گزار ہوا کہ اُس نے بابا ئے قوم(Father of the Nation) کے آخری ایام کے دوران میں اُن کے علاج کے لئے میرا انتخاب کیا۔حُزن وملال کی ہی یادگار کیفیت میں کبھی فراموش نہ کرسکوں گا۔
***