بھٹو تیار تھے کہ شیخ مجیب کے ساتھ مل کر حکومت بنائیں مگر یحییٰ خان اور ملک میں ہونے والی عجیب و غریب سازشی لہر نے معاملات کو اُلجھا دیا

بھٹو تیار تھے کہ شیخ مجیب کے ساتھ مل کر حکومت بنائیں مگر یحییٰ خان اور ملک میں ...
بھٹو تیار تھے کہ شیخ مجیب کے ساتھ مل کر حکومت بنائیں مگر یحییٰ خان اور ملک میں ہونے والی عجیب و غریب سازشی لہر نے معاملات کو اُلجھا دیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:جسٹس (ر) بشیر اے مجاہد 
 قسط:20
اس وقت تک پاکستان کی سیاست میں بہت زیادہ تبدیلی آ گئی تھی۔ ہمارے سیاست دانوں کی سیاست بہت جارحانہ انداز اختیار کر گئی تھی۔ سیاسی لیڈر باہمی مفاہمت اور قومی جذبہ کی بجائے اقتدار میں آنے کے لئے بے تاب تھے اور ان کا رویہ بہت تلخ تھا۔ قیام پاکستان کے بعد…… پاکستان کا سیاسی ماحول بہت نرم اور خوشگوار تھا۔ تحریک پاکستان میں بابائے قوم کا ساتھ دینے والے لیڈروں کا احترام کیا جاتا تھا اور سیاست میں الزامات بہت کم تھے۔ مگر میں جب انگلینڈ سے واپس آیا تو حیران و پریشان ہوتا رہا کہ پاکستان کی سیاست کس رُخ پر جا رہی ہے۔ بھٹو ایک مقبول عام لیڈر نظر آ رہے تھے۔ ان کے مقابلہ میں کوئی اور لیڈر نہیں تھا۔ بھٹو…… پنجاب اور سندھ اسمبلی میں بھاری اکثریت رکھتے تھے۔صوبہ سرحد (اب خیبر پختونخوا) میں بھی اُن کی مؤثر نمائندگی موجود تھی۔ بلوچستان اسمبلی کا ماحول ہی علیٰحدہ تھا۔ یہاں بلوچستان کے قبائلی سردار صوبائی اسمبلی اور قومی اسمبلی کے ارکان منتخب ہو گئے تھے۔ پورا ملک بھٹو کے حامیوں اور مخالفوں کے درمیان تقسیم ہو گیا تھا۔ مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن اور ان کے ساتھی مکمل اور بھاری اکثریت سے صوبائی اور قومی اسمبلیوں کے ارکان منتخب ہو چکے تھے۔ اب مغربی پاکستان کے پارلیمانی لیڈر بھٹو اور مشرقی پاکستان کے شیخ مجیب تھے۔ مغربی پاکستان کے وہ سیاسی لیڈر جو اسمبلیوں میں انفرادی حیثیت سے کامیاب ہوئے یا چھوٹی پارٹیوں کے لیڈر تھے یا آزاد منتخب ہوئے تھے یہ سب انٹی بھٹو فورس بن کر شیخ مجیب الرحمن کے پیچھے چل پڑے۔ ذوالفقار علی بھٹو پیپلز پارٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے چاہتے تھے کہ شیخ مجیب آئین ساز اسمبلی میں جانے سے پہلے باہم مل کر پی پی پی کے ساتھ کوئی آئینی معاہدہ کریں۔ دونوں سیاسی پارٹیوں کی کوئی بات چیت ہو جائے۔ اصولاً پارلیمانی روایات کے تحت اسمبلی سے باہر دونوں پارٹیوں کے مذاکرات کرنا ضروری تھے تاکہ آئین سازی کے لئے کوئی متفقہ فیصلہ کر لیا جائے مگر بھٹو مخالف لابی جس کے لیڈر خان عبدالولی خان اور ایئرمارشل (ر) اصغر خان تھے۔ دونوں پارٹیوں کے درمیان نتیجہ خیز مذاکرات کی مخالفت کرتے رہے۔ یہ دونوں لیڈر مغربی پاکستان کے دیگر چھوٹے موٹے لیڈروں کے ساتھ مل کر ایک ایسا پریشر گروپ بنانے میں کامیاب ہو گئے جس نے مغربی پاکستان کے پارلیمانی لیڈر بھٹو اور مشرقی پاکستان کے پارلیمانی لیڈر شیخ مجیب الرحمن کو باہم مذاکرات کی بجائے ایک دوسرے کی بات نہ ماننے اور ہٹ دھرمی اختیار کرنے پر مجبور کر دیا۔ سیاسی لحاظ سے دیکھا جائے تو مغربی پاکستان کے چار صوبے تھے جبکہ مشرقی پاکستان ایک صوبہ تھا۔ دونوں پارلیمانی لیڈروں کو اسمبلی کے باہر آئینی ضروریات کی حدود و قیود طے کر کے اسمبلی میں آئین سازی کے لئے جانا چاہئے تھا۔ بھٹو اس کے لیے تیار تھے کہ شیخ مجیب الرحمن کے ساتھ مل کر حکومت بنائیں مگر اس وقت کے فوجی حکمران جنرل یحییٰ خان اور ملک میں ہونے والی ایک عجیب و غریب سازشی لہر نے معاملات کو بہت اُلجھا دیا۔ بھارتی حکومت نے اپنی فوج مشرقی پاکستان کے بارڈر پر ڈال دی اور مکتی باہنی کے نام سے ایک فورس مشرقی پاکستان میں داخل کر دی۔ جس سے وہاں مقامی انتہا پسندوں نے تشدد آمیز کارروائیاں بہت زیادہ بڑھا دیں۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -