گر گئے سجدے میں جب وقت جہاد آیا!

اسلام ایک مکمل دین ہے یہ صرف عبادات تک محدود نہیں،زندگی کے ہر شعبہ پر محیط ہے۔ واعظان کرام اور عبادت گذار حضرات نے اسے محدود کر دیا اور اب ہم مسلمان عبادات اور خیرات ہی کو دین تصور کئے بیٹھے ہیں۔ دین مصطفویؐ، علم، تجارت،اخلاق، معاشرے اور دنیاوی زندگی کے ہر حصے کے لئے ہدایت اور راہیں متعین کرتا ہے اور اسی میں جہاد کا فلسفہ بھی ہے جس کے مطابق مسلمان کو ہر برائی کے خلاف جہاد کرنا ہے خصوصاً جھوٹ سے قطعی گریز اور سچ کا علم بلند کرنا ہے کہ نبی اکرمؐ نے جو پہلا وعظ کیا اس کے ذریعے سچ ہی کی گواہی لی تھی، جب آپؐ نے مکہ کے پہاڑ پر کھڑے ہو کر اہل مدینہ کو پکارا اور ان سے پوچھا ”اگر میں یہ کہوں کہ اِس پہاڑ کے پیچھے سے دشمن آ رہا ہے تو آپ یقین کر لیں گے“ سب نے یک زبان ہو کر کہا ”ضرور کہ آپؐ سچے اور امین ہیں اور آپؐ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا“۔اس کے بعد ہی آپؐ نے اہل ِ مکہ کو اللہ کے دین کی بشارت اور دعوت دی،لیکن اہل ِ مکہ نے منہ پھیر لیا،یوں حق و صداقت کی مہم شروع ہوئی اور ان تمام برائیوں کے خلاف جہاد شروع ہو گیا جو معاشرے میں جڑ پکڑ چکی تھیں،اس کے بعد ایک تاریخ ہے جو اسلام کی ترویج اور عروج پر مبنی ہے۔یہی تاریخ ہمیں ان فتنوں کے بارے میں بھی بتاتی ہے جو ریاست مدینہ کے بانی اور ان کے خلفاء راشدین کے دور میں ہوئے اور ان فتنوں اور برائیوں کے خلاف علمی اور عملی جہاد کے ذریعے قابو بھی پایا گیا، اسلامی سلطنت کا دائرہ مغرب و مشرق تک پھیلا۔ ریاست ِ مدینہ عملی زندگی کا نمونہ تھی،اس میں نہ تو برائی کی کوئی جگہ تھی اور نہ جھوٹ کی گنجائش اور استحصال کا استعمال۔ اسلامی تاریخ ہمیں حضرت عمرؓ کے دور کے بارے میں آگاہی دیتی ہے جس کے بارے میں مغربی مفکرین کہتے ہیں کہ اگر مسلمانوں میں ایک اور عمرؓ ہوتے تو دنیا بھر میں دین ِ اسلام ہوتا اور مسلمانوں کی حکومت ہوتی۔
مسلمانوں اور اسلام کے اِس شاندار دور یا ادوار میں عبادت بھی ہوتی تھی تاہم معاشرتی زندگی بھی رواں دواں تھی، یہ نہیں کہ صرف عبادات ہی کی جاتیں،جہاد بھی جاری رہا اور اس کے مفید تر نتائج بھی ملے۔بدقسمتی سے تاریخ ہمیں اختلافات خصوصاً قبائلی تفاخر اور آپس میں بھڑنے والے واقعات اور ان کے نتائج سے بھی آگاہ کرتی ہے اور اِسی پیمانے میں فتوحات اور شکست کا ذکر اور مسلمانوں کی فتوحات میں کمی اور پھر مخالفوں کے عروج کی داستان بھی ہے اور آج تک جو نوبت پہنچی وہ بھی ساری ظاہر ہے۔
اس سلسلے میں عرض کروں گا کہ آنحضرتؐ کا ویژن اور نگاہ قیامت تک کے منظر پر تھی اور آپؐ نے بڑی تفصیل سے آنے والے وقت کا نقشہ کھینچا تھا اور بتا دیا تھا کہ مسلمانوں کا عروج و زوال کیسے ہو گا اور اغیار کی برتری کی صورت کیا ہو گی۔حضورؐ کے جو فرامین ہیں ان کے مطابق جو نقشہ بتایا گیا آج وہ ہمارے سامنے ہے،مسلمان دولت کے لحاظ سے مالا مال ہیں،لیکن ان کے اندر ریاست ِ مدینہ کی صفات اور جذیہ جہاد نہیں رہا،ہم مسلمانوں نے اپنی زندگی کو عبادات اور دعاؤں تک محدود کر لیا اور عملی زندگی کے ساتھ ساتھ جہاد کے جذبے سے بھی دور ہو گئے ہیں، فتنوں کی کوئی حد نہیں،دورِ نبوتؐ اور خلافت راشدہ کے دور جیسے منکر اور خوارج بڑھ گئے ہیں۔
قیامت کی نشانیوں کے حوالے سے حضورؐ کے جو فرمان تھے اور جو بتایا گیا وہ سچ ہو رہا ہے۔آج کے دور میں اس سے پہلے فرعون نما شخصیات اور اب دجالوں (صغیر) کی آمد جاری ہے۔آپؐ کا فرمان ہے کہ ایسا دور بھی آتا رہے گا جب منکر لوگ رہنمائی کا فریضہ انجام دیں گے وہ سرا سر جھوٹے ہوں گے،لیکن لوگ ان پر یقین کریں گے۔ بڑے اور حقیقی دجال سے پہلے کئی چھوٹے چھوٹے دجال نمودار ہوں گے۔آج اگر حقائق پر نظر ڈالی جائے تو مسلمان جہادی اور فوجی نقطہ نظر سے کفار کے مقابلے میں کمزور ہیں،لیکن ان کے مقابلے میں دجالی قوتیں فتح پا رہی ہیں۔دو روز سے ملک میں مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لئے بڑے بڑے مظاہرے اور کانفرنسیں ہو رہی ہیں،کہ معصوم فلسطینیوں کے لئے تو قیامت کا سماں ہے۔غزہ ملبے کا ڈھیر، ہزاروں فلسطینی افراد شہید اور زخمی ہو چکے۔اسرائیل امریکہ کی مکمل حمایت سے ان پر مسلسل آگ برسا رہا ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیلی نیتن یاہو کے ذریعے رئیل اسٹیٹ کے منصوبے کو عملی جام پہنا رہا ہے اور اب واضح طور پر فلسطینیوں کی بے دخلی کے انتظامات شروع کر دیئے گئے ہیں،فلسطینیوں کی مظلومیت کا اندازہ لگا لیں کہ ان کو ان کی اپنی سرزمین سے بے دخل کرنے کے لئے آگ برسائی جا رہی ہے۔فلسطینی جو صرف مسلمان ہی نہیں،عیسائی بھی ہیں، نعشیں اٹھائے،بچوں کا غم سہنے اور شہادت کا درجہ پانے کے لئے موجود ہیں۔حالیہ دِنوں میں اسرائیلی بمباری کی جو ویڈیوز موصول ہو رہی ہیں وہ بہت ہی دُکھی کرنے والی ہیں کہ گری ہوئی عمارتوں کے ملبے تلے معصوم بچے دبے ہوئے ہیں،جن کو زندہ یا نعشوں کی صورت میں نکالا جا رہا ہے۔یہ ویڈیوز اچھے بھلے حضرات کے دِل ہلا دیتی ہیں،لیکن مسلمان حکمران ہیں کہ وہ مذمت سے آگے نہیں بڑھ سکے،اسرائیل نے سلامتی کونسل، اقوام متحدہ اور عالمی عدالت جیسے اداروں کے فیصلے اور احکام ہوا میں اُڑا دیئے ہیں اور وہ خود اپنے شہریوں اور دنیا بھر کے افراد کے مظاہروں اور مطالبوں کو بھی درخوراعتنا نہیں سمجھ رہا اور یوں فلسطین آگ و خون میں نہا کر اسرائیل کے لئے راستہ صاف کر رہا ہے،جو گریٹر اسرائیل کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔اِس سلسلے میں امریکہ اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی حیثیت سے پشت پناہ ہے اور اب اسرائیل کے نیتن یاہو اس کے منصوبے پر عمل پیرا ہیں،جو غزہ کی اس پٹی کو تفریح گاہ بنانے اور حماس اور ایسی جہادی تنظیموں کو ختم کرنے پر تُلا ہوا ہے۔امریکہ نے ایک کے بعد دوسرا طیارہ بردار بحری بیڑہ بھی خلیج میں پہنچا دیا اور حوثیوں پر بھی حملہ آور ہے۔ایران کے بعد ترکیہ کے بارے میں بھی ٹرمپ نے اپنے ارادوں کو مخفی نہیں رکھا اور جب وہ کہتا ہے کہ اسے ایٹمی حیثیت حاصل نہیں ہونا چاہئے تو وہ پاکستان سے بھی نظر نہیں ملاتا۔
آیئے ذرا ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کا رویہ متعین کر لیں۔ڈونلڈ ٹرمپ نے تو نئے ٹیکسز کا اطلاق اور اعلان کر کے دنیا بھر کی معیشتوں کو چیلنج کیا، لیکن پس ِ پردہ عزائم مختلف ہیں وہ اس طرح مغربی ممالک سے مل کر چین کے گرد گھیرا تنگ کر رہا ہے اور اس کی کھلی معاشی جنگ بھی چین ہی کے ساتھ ہے جو اس کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہو گیا ہے۔میرے یقین کے مطابق ٹرمپ اور مغربی ممالک چین مخالف نکتے پر ایک ہو جائیں گے اور یوں دنیا میں سوویت یونین اور مغرب کی سرد جنگ کے بعد اب چین اور مغرب کی معاشی جنگ(سرد) شروع ہو چکی ہے، اس سے ہمارا خطہ بھی متاثر ہو گا اور ہم بھی جبری طور پر امریکہ مخالف معاشی محاذ کی حمایت و اعانت پر مجبور رہوں گے۔اگرچہ ہماری پالیسی میں یہ شامل نہیں کہ ہمارا انحصار امریکہ اور مغرب پر بھی ہے۔بہرحال پاکستان کو اپنی معاشی اور خارجی پالیسیوں پر نظر ڈال کر بڑی دور اندیشی سے اقدامات کرنا ہوں گے۔دُکھ کی بات تو یہ ہے کہ جہاں ہمارے خلیجی (مشرق وسطیٰ) ممالک امریکی اڈوں اور امریکی ٹیکنالوجی کے باعث فلسطین کی عملی مدد سے مجبور، مستقبل میں سچ ہونے والے آگاہی حادثات سے دوچار ہونے کے منتظر ہیں،اِسی طرح ہم بھی عاقبت نا اندیشی کا مظاہرہ کرتے چلے جا رہے ہیں۔ملک میں افراتفری اور انتشار کو ختم نہیں کر پا رہے اور دجالی قوتوں کے بالواسطہ اسیر ہو گئے ہیں،حالانکہ نوشتہ دیوار دیکھ کر ہمیں نہ صرف دین سے غفلت کو ختم کر کے دُعاؤں کی جگہ حقیقی عمل کے لئے تیار ہونا اور حقیقی مسلمان بننے کی کوشش کرنا چاہئے، بلکہ ہر نوع کے اختلاف ختم کر کے غیر مشروط طور پر متحد ہونا چاہئے اور مخالفت،برائیوں اور بدعتوں سے گریز کرنا چاہئے۔ اللہ ہمارا،مظلوم فلسطینیوں اور کشمیریوں کا محافظ ہو!
٭٭٭٭٭