خالد علیم کی حمدیہ، نعتیہ شاعری پر اک نظر

   خالد علیم کی حمدیہ، نعتیہ شاعری پر اک نظر

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 خالد علیم روحانی اقتدار کے حامل، درویش صفت، شفیق دوست ہونے کے ساتھ ساتھ ظاہر و باطن سے آئینہ دار صفت اور صاف گو،نستعلیق آدمی تھے۔ انہوں نے شاعری کی تمام اصناف میں طبع آزمائی کی اور اس خوش اسلوبی اور انوکھے انداز سے اپنی فنی و فکری صلاحیتوں کو بروئے کار لائے کہ اہلِ دانش دنگ رہ گئے۔ ان کے حمدیہ کلام کو جب فنی و فکری لحاظ سے پرکھتے ہیں تو اس بات کا گماں بار بار ہوتا ہے کہ ان کے طرزِ احساس میں جدت، سادگی، روانی اور صفائی  اپنی مثال آپ ہیں۔ کہتے ہیں کہ”جب حمد زبان سے دل پر حرفِ دعا بن کر نغمہ ریزی کی جلوہ آرائی کا سامان مہیا کرتی ہے تو قلب و روح اللہ کی نورانیت سے معمور و منور ہو جایا کرتے ہیں۔ یہی کیفیت ہم پہ خالد علیم کی حمدیہ شاعری پڑھتے ہوئے طاری ہو جاتی ہے۔ ان کے چند حمدیہ اشعار ملاحظہ کیجیے:

جو تیری حمد کو ہو خوش رقم، کہاں سے آئے

وہ روشنائی، وہ نوکِ قلم کہاں سے آئے

گناہ گار ہوں اے میرے مہربان خدا!

اگر گناہ نہ ہوں، چشمِ نم کہاں سے آئے

خالد علیم کے حمدیہ کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے قرآن و احادیث کا گہرا مطالعہ کیا ہُوا ہے اس لیے تو ان کے کلام میں قرآن و سنت کے پاکیزہ اصولوں کے آبدار موتی دل و نظر کو آگہی خداوندی سے سرفراز کرتے ہوئے ملتے ہیں۔اسی طرح جب وہ نعت کہنے کے لیے قلم اُٹھاتے ہیں تو وہ پہلے وردِ نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے لبوں پر سجاتے، اشکوں سے باوضو ہوتے اور اپنے تصور میں گنبدِ خضریٰ کی جالیوں کو اپنے سینے سے لگاتے ہوئے اپنی پلکوں سے نعلینِ نبیؐ سر پر اُٹھائے حضورؐ کی بارگاہِ اقدس سے اجازت طلب کرتے۔ اس طرح وہ نعت کے پاکیزہ عمل سے گزرتے۔ اس لیے ان کے کلام میں دلکشی، تاثر آفرینی، مٹھاس، دلپذیری اور غنائیت پائی جاتی ہے۔ ان کی نعت کے دو اشعار ملاحظہ کیجیے:

دانائیاں تمام ہوئیں جب جہان سے

اُترا نبیؐ کا نطقِ جمیل آسمان سے

انساں کو دے گیا وہ عجب جاں گدازیاں 

جو لفظ بھی ادا ہوا اُنؐ کی زبان سے

اسی نعت کا مقطع دیکھیئے:

کے لیے اُٹھتاخالدؔ میں نعت گو کا پسر ہوں تو کیوں نہ ہو

ذکرِ رسولؐ، اور مرے خاندان سے!

نعتیہ شاعری کی بنیاد ذاتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت و عقیدت کا جذبہ ہے۔ یہ نعت گوئی کا تقاضا ہی نہیں ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ ہمارا ایمان اُس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا جب تک ہم اپنی ہر چیز اپنے تمام رشتوں سے زیادہ نبی کریمؐ کی ذات سے محبت کرنے اور اُن کا اتباع کرنے والے نہ بن جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ خالد علیم آبِ بقا کے نہیں جامِ کوثر کے تمنائی ہیں۔ ان کے نعتیہ شعری مجموعہ ”محامد“ سے چند اشعار دیکھیئے:

نعتِ رسولِ کریمؐ سوز و گداز و سرور

نعتِ رسولِ کریمؐ کیفِ شرابِ طہور

نعتِ رسولِ کریمؐ علم و خبر کا نزول

نعتِ رسولِ کریمؐ فکر و ہنر کا ظہور

خالد علیم کی نعت کا نمایاں ترین وصف سادگی ہے۔ وہ نعت کہتے ہوئے بے حد محتاط شاعرانہ روایہ اختیار کرتے، ان کے نعتیہ کلام میں کوئی ایسی بات نہیں لکھی گئی جو آداب کے منافی ہو۔ انہوں نے اپنے نعتیہ کلام میں فنی پیرائے کا استعمال کرتے ہوئے اپنے نبی کریمؐ کے سچے اُمتی ہونے کا حق ادا کر دکھایا ہے۔ ان کی نعت گوئی کے حوالے سے خورشید رضوی لکھتے ہیں کہ”خالد علیم کی نعت میں جذبے، علم اور ریاضتِ فنی کا ایک ایسا امتزاج ملتا ہے جو عجلت کے اس دور میں بہت کم یاب ہے۔ یہ ریاضتِ فنی ان کے ہاں حسب کے علاوہ نسب کا درجہ بھی رکھتی ہے کہ جس گھر میں ”شاہنامہ بالا کوٹ“ اور ”طلع البدر علینا“ کا طلوع ہوا ہو، اتنی ریاضت تو اس کی فضا میں رچی ہوئی ہوتی ہے۔“

خالد علیم نے نعت میں بعض نہایت سحر آفریں تجربے بھی کئے ہیں۔ پروفیسر جعفر بلوچ کے مطابق ”خالد علیم کی غیر معمولی قدرت کلام ہر ادب پرست قاری کو متاثر کرتی ہے، انہوں نے متعدد اساتذہ فن کی زمینوں اور متعدد مشہور و معروف قصیدوں یا شعری شاہکاروں کے تسلسل میں دادِ سخن دی ہے اور اپنے نقوش کمال کی آب و تاب کو کہیں مدھم نہیں ہونے دیا۔ وہ مشکل اور کم مروج زمینوں اور بحروں میں بھی بڑی کامیابی اور حیرت انگیز سہولت کے ساتھ تخلیق فن کی منزلیں قطع کرتے ہیں۔ انہوں نے مردف زمینوں میں بھی متوجہ کرنے والے شعر نکالے ہیں۔ پابند و آزاد فنی بنتیں ان کے وجدانی ریموٹ کنٹرول کے اشاروں کی فوری اور بلاتامل اطاعت کرتی ہیں، خالد علیم کی حمدیہ و نعتیہ رباعیاں بھی ایک شان رکھتی ہیں، رفعت فن اور تقدس موضوع کے حوالے سے یہ رباعیاں ہمیں رباعیات امجد حیدر آبادی کی یاد دلاتی ہیں۔“

خالد علیم کا کمال یہ ہے کہ ان کے نعتیہ کلام کا لفظ لفظ روح میں اُترتا چلا جاتا ہے، لہو کے گنبد میں صدا لگاتا ہے، دماغ میں گھومتا، دل میں دھڑکتا نظر آتا ہے۔ کیوں کہ انہوں نے اپنی تمام نعتوں میں محاسنِ کلام کا خاص خیال رکھا ہے اس لئے معانی سے قطع نظر، فنی پہلو سے بھی ان کی نعتیں، نعتیہ ادب کا ایک بیش بہا خزینہ ہیں۔ حضورؐ کی شان میں محبتوں کے گلدستے پیش کرنے والا یہ شاعر 10 فروری 2025 ء کے روز اپنے خالق سے ہمیشہ کے لیے جا ملے۔ ان کی وفات سے دنیائے ادب کی فضا تا دیر تک سوگوار رہے گی۔ 

مزید :

رائے -کالم -