آج بھی مزدور کے ساتھ آئی اس کے گھر کی بنی روٹی،دال،سبزی اور اچار کبھی کبھا ر ان کے ساتھ بیٹھ کر کھاؤں تو گاؤں کے پرانے دن یاد آ جاتے ہیں

مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:137
آج بھی مزدور کے ساتھ آئی اس کے گھر کی بنی روٹی،دال/سبزی اور اچار کبھی کبھا ر ان کے ساتھ بیٹھ کر کھاؤں تو گاؤں کے وہ پرانے دن یاد آ جاتے ہیں۔ آم اور سٹرس کے باغ کے ساتھ گندم کے کھیت تھے۔ گرمیوں میں لو چلتی تو بوڑھ کے بوڑھے درخت کے نیچے کھالے کے بہتے پانی کے پاس چاٹی کی لسی، تڑکا لگی دال اور سبزمرچوں کی چٹنی کا مزا آج بھی میری زبان کا سب سے مزے دار ذائقہ ہے۔ اف یاد آیا؛ سردیوں میں گرم گرم دودھ جلیبی کا پیالہ ”سڑکے“ لے لے کر پینا بھی نہیں بھولا ہوں۔ یہ جسم کی سردی کو بھگا دیتا اور پیالہ تھامنے سے دو نوں ٹھنڈے ہاتھ گرم ہو جاتے تھے۔امی جی اورآپاں ہم بچوں کو گرما گرم روٹی کی چوری بنا کر کھلاتی تھیں۔ گرم روٹی، دیسی گھی اور شکر، بعد میں شکر کی جگہ چینی نے لے لی تھی۔ یہ شکر والی روٹی آج بھی میری، عمر، احمد کی من پسند غذاہے۔ ہاں پھر ایک اور شے کا اضافہ ہو گیا تھا کہ دودھ کی ٹھنڈی بلائی میں شکر۔ یہ بھی نشہ ہی تھا۔آج بھی ان نشوں سے کبھی کبھار لطف اندوز ہوتا بچپن کی بہت سی باتوں سے جڑا ہوں۔ آج کے برگر یا ممی ڈیڈی بچیوں سے شکر، روٹی اور دیسی گھی کا ذکر کریں تو منہ چڑا کر پوچھتے ہیں؛ohh my god, whats that,.۔
میں نے اپنی پوتی امیرہ احمد کو بھی اس کی ایسی عادت ڈالی ہے کہ مجھ سے پوچھتی ہے،“دادا! ”سکر گھی باؤ۔“ دادا کی ساری تھکاوٹ دور ہو جاتی ہے۔ہاں مجھے گاؤں جانے والے بس کے سفر بھی یاد آگئے ہیں۔
جب کبھی گاؤں جانا پڑ جاتا تو بس سے ہی جانا ہوتا تھا۔اس زمانے میں سب سے اچھی بس سروس ”گورنمنٹ ٹرانسپورٹ“ تھی۔ وقت پر چلتی اور وقت پر ہی منزل پر پہنچا دیتی تھی۔پبلک یا پرائیوٹ کسی بھی بس سروس سے سفر کریں ایک چیز مشترک ہوتی تھی۔ ”بسوں میں چورن، منجن بیچنے والے فن کار۔“ زبان کے میٹھے، چرب زبانی اور دلچسپ گفتگو کے ماہر۔ ان کی باتوں سے مسافر متوجہ ہوتے اور ان کے ابتدائی جملے کچھ اس قسم کے ہوتے تھے؛
”بھائیو، مہربانو، قدردانو۔آپ کا زیادہ وقت نہیں لوں گا۔ جھوٹ بولنے کی عادت نہیں مجھے اور نہ ہی لمبی بات کرنے کی۔ گھر میں بوڑھے والدین ہوں یا بزرگ ان کے دانتوں میں درد ہو یا گرم ٹھنڈا لگتا ہو۔ میرا منجن لے جائیں دو بار لگائیں دانٹ درد کھوڑ سب غائب اور دانت سفید چمکدار بس منجن دو انگلیوں پر لگا کر درد والی، کھوڑ والی جگہ لگائیں اور دس منٹ بعد نیم گرم پانی سے دھو لیں۔ انشا اللہ شفا ہوگی۔ اگر کسی بھائی بہن کو چاہیے تو آواز دے کر بلالے۔ اگلے سٹاپ پر میں نے اتر جاناہے۔ ہاں اور قیمت پانچ نہیں دس نہیں صرف دو روپے دو روپے دو روپے۔“
یوں یہ چورن اور منجن بیچنے والے سادہ لوح مسافروں کو چار پانچ شیشیاں بیچ ہی جاتے تھے۔وقت کے ساتھ ساتھ جہاں بسیں جدیدہوتی گئیں وہاں یہ کاروبار بھی سمٹتا رہا اور پھر زمانے نے دیکھا کہ دیسی دوائیوں کا یہ قصہ ہی ماضی کی دھندلی سی یاد ہی بن گیا اورہماری یہ روایت بھی جدیدیت میں کہیں گم ہی ہو گئی ہے۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔