سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 25
پھر اسی میدان جنگ میں زرد مدور بارگاہ نصیب ہوئی۔ قالینوں کا فرش اور لکڑی کا تخت بچھایا گیا جس پر افریقہ کے شیروں کی کھالیں پڑی تھیں اور وہ اپنے ہی خون سے لال کپڑوں میں کھجور کی چھال کے تکیے سے پشت لگا کر بیٹھاتھا۔ ایک سو پچھتر نائیٹوں، تین سو طبقہ الداویہ، البیطار، ہاسپٹلرز اور ٹمپلرز کے سواروں کے ساتھ تبنین کا ہمفری، کرک کا ریجینا لڈ اور یروشلم کا بادشاہ یالڈون پیش کیا گیا ۔ شاہ کو اپنے تخت پر بٹھایا اور پیاسا دیکھ کر حطین کے پہاڑوں کی برف سے سرد کیا ہوا پانی کا بلوریں کٹورا عطا کیا۔ اس نے سیر ہو کر پیا اور دوسرا کٹورا لے کر اپنے بہنوئی ریجینا لڈ کو دے دیا۔
سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 24 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’شاہِ فلسطین نے پانی تم کو پلایا ہے۔ ‘‘
شاہ نے سر جھکا لیا۔
ریجینا لڈ! ہم نے تیرے قتل کی دوبار قسم کھائی تھی۔ ایک بار اس وقت جب تو نے عین صلح کے زمانے میں بے گناہ حاجیوں کا قتل عام کیا ہے اور دوسری بار اس وقت جب تو نے ہمارے پیغمبر کے شہر مقدس پر چڑھائی کا ناپاک منصوبہ بنایا۔ خدا کا شکر ہے کہ ہم اپنی قسم پوری کرنے کے قابل ہوئے‘‘
اور نیام سے لال تلوار نکلی اور اس کا سربار گاہ کے اس سرے تک لڑھکتا چلا گیا۔ اور بالڈون کا چہرہ سفید پڑ گیا۔
’’ہم سپاہی ہیں اور بادشاہوں کے ساتھ سلوک کرنا جانتے ہیں ۔ فلسطین کے بادشاہ کی تو آج سے پہلے ہمارا مشہور سپہ سالا تقی الدین بھی ایک بار جان بخشی کر چکا ہے ۔ آپ کا فدیہ وہ تمام مسلمان ہیں جو فلسطین کی حکومت میں قیدہیں۔ رہے یہ نائٹ اور سوار توان کے سروں پر بے گناہ مسلمانوں کا خون ہے۔ اس لئے یہ دمشق کی گلیوں میں سولی پر چڑھائے جائیں گے۔۔۔راہبوں اور شریفوں سے نرم سلوک کیا جائے گا۔
وہ رات فتح کے نعروں کی گونج میں بسر کی اور صبح اس قوم کے سو سو سواروں کو ایک ایک قلعے کی فتح کا حکم صادر کیا جس کے سو سو سپاہی ایک ایک نائٹ کی صورت دیکھ کر بھیڑوں کی طرح گرد نیں ڈال دیتے تھے اور خود پانچ ہزار سواروں کے ساتھ راستے کے شہروں اور قلعوں پر اپنا پرچم اڑا تا فتح کے جلوس کی مانند گشت کرتا بیت المقدس کے دروازے پر کھڑا ہو گیا اور ’’باب یافا ‘‘ کو زور کر کے لے لیا۔
اسی وقت سفارت حاضر ہوئی جسے اپنی بارگاہ میں طلب کیا۔ شہرقدس کے تاجروں ، شریفوں ، امیروں، نائیٹوں اور پادریوں کے ساتھ اسقف اور بالیان نے دستہ بستہ گزارش کی۔
’’ہم آپ کے پاس بیت المقدس پر صلح کی شرطیں لے کر حاضر ہوئے ہیں۔ ‘‘
’’کہیں فاتح مفتوحوں کی شرطیں سنا کرتے ہیں۔ ‘‘
بالیان اسقف کو وحشت سے گھورنے لگا ۔
’’سنو ۔۔۔بیت المقدس جتنا تمہارے لئے متبرک ہے ہمارے لئے بھی اتنا ہی مقدس ہے۔ ہم اس بات پر قادر ہیں کہ اگر چاہیں تو اس دن کا انتقام لے لیں جب یہ برگزیدہ شہر تمہارے ناپاک قبضے میں آیا تھا اور اس کی گلیوں میں تم نے ہمارے بچوں اور عورتوں کے خان سے نہریں بہائی تھیں۔ ہم اس بات کی بھی قدرت رکھتے ہیں کہ اپنی آنکھوں کے سامنے تمہارے گرجاؤں کو غلاظت سے پاٹ دیں۔ پھر کُھدواکر زمین کے برابر کر دیں اور تمہاری مقدس صلیبوں کی لکڑی سے اپنے غلاموں کی غذا پکوائیں۔ لیکن ہم ایسا نہ کریں گے۔ اس لئے کہ ہمارے دین نے دوسرے مذاہب کے مقاماتِ مقدسہ کے احترام کی تعلیم دی ہے اور ہمیں وہ تعلیم عزیز ہے اور تمہاری حیثیت ہمارے نزدیک مجبوروں کی ہے ، اور ہم جنہوں نے بڑی بڑی شہنشاہیاں غارت کر دیں مجبوروں پر تلوار اٹھانا کسرِ شان سمجھتے ہیں۔ حکم دیا جاتا ہے کہ بیت المقدس کے دروازے کھول دیئے جائیں۔ ساری عیسائی آبادی ہماری غلامی تسلیم کرے یا چالیس دن کے اندر زرِ فدیہ دے کر شہر خالی کر دے ورنہ تلوار ہے۔ وہ تلوار جس کے آگے فتح چلتی ہے اور پیچھے موت ۔ ‘‘
اسقف نے شہر پناہ کی کنجیاں تاج الملوک کے ہاتھ میں رکھ دیں اور سپہ سالار کو حکم دیا کہ منادی کر دی جائے کہ بیت المقدس کی ایک ایک بھیڑ کے روئیں اور ایک ایک پیڑ کے پتے گوامان دی گئی اور امان کو غصب کرنے کی سزا موت ہو گی۔ پھر اس نے اپنے ہاتھ سے شہر پناہ کے بڑے دروازے پر پرچم لہرایا اور نماز شکر پڑھی اور پاپیادہ مسجد اقصیٰ کے دروازے پر پہنچا۔ نگاہ اٹھا کر دیکھا تو افرنجیوں کے پرچم کے بجائے محمدی علم لہرارہا تھا۔ اندرونی محراب کے ٹھنڈے منقش بازو سے لگ کر کھڑا ہو گیا اور روتا رہا۔ سجدہ شکر میں گر گیا۔ آنسوؤں سے فرش بھگودیا۔ جب ذرا دل تھما تو نرم آواز میں دعا مانگی۔
’’پروردگار اس فتح الفتوح کے شکر کے لیے تیرے بندے کی زبان میں طاقت ہے اور نہ الفاظ میں وسعت۔ رب العالمین تو نے جن کمزور ہاتھوں پر عظم الشان فتح بخشی ہے وہ تیرے حضور میں ممکن خاکساری کے ساتھ دراز ہیں اور دعا مانگتے ہیں کہ جو جھنڈا تیرے گھر پر اس شکوہ سے لہرا رہا ہے وہ قیامت تک لہراتا رہے، قیامت تک لہراتا رہے ۔
آمین ، آمین، آمین‘‘
مسجد اقصیٰ کے درو دیوار اس مقدس نعرے سے گونج گئے۔ اس نے گھوم کر دیکھا اس کے پیچھے بڑے فرمانروا ، سپہ سالار ، بھائی بھتیجے اور بیٹے صفیں باندھے سجدے میں پڑے تھے۔
مسجد عمر میں نماز پڑھ کر نگاہ اٹھائی تو سپہ سالار ملک العادل کھڑے تھے۔ سفید عمامے پر ایک انگلی چوڑا ہیرا لگا تھا۔ کفتان سے جھانکتی صدری میں زمرد کے تکمے چمک رہے تھے۔ تلوار کے نیام پر ہیرے جگمگا رہے تھے۔ سلام کر کے دوزانو بیٹھ گئے۔
’’میں سلطانِ اعظم سے کچھ مانگنے آیا ہوں۔‘‘
’’ہم نے بغیر سنے عطا کیا۔ ‘‘
’’اس مقدس شہر میں رہنے والے عیسائیوں میں جنہوں نے یہاں کا متبرک دانا کھایا ہے اور برگزیدہ پانی پیا ہے ایسے مفلس بھی ہیں جو نام نہاد زرِ فدیہ ادا کر کے رہائی نہیں حاصل کر سکتے ۔ میری آرزو ہے کہ ایسے ایک ہزار عیسائیوں کو زرِ فدیہ ادا کر کے آزاد کر دوں اور ان کو بھی اپنی خوشی میں شریک کر دوں۔‘‘
’’ہم تمہاری فیاضی سے مسرور ہوئے اور حکم دیتے ہیں کہ ہماری طرف سے بھی ایسے دس ہزار عیسائیوں کا زر فدیہ ادا کر کے آزاد کیا جائے اور اجازت بخشتے ہیں کہ ہمارے سالاروں اور بھائیوں اور بھتیجوں اور بیٹوں میں سے جو بھی چاہے اس نیک کام میں شریک ہو اور اگر پیسے کی تنگی ہو تو خزانے سے قرض دیا جائے۔ ‘‘
وہ سفید سوتی کفتان ، سفید سوتی ازار اور زرد چمڑے کے موزے پہنے گھوڑے پر سوار ان خاص برداروں کے جلوس میں ’’باب یافا ‘‘ سے گزر رہا تھا جو زر بفت کی زرد کرتیاں ، سیاہ مخمل کے پاجائے، زرکار چرمی مورے اور سونے کی پیٹیاں پہنے طربوش پر مرضع کلغیاں لگائے، سنہری قبضوں کی تلواریں لٹکائے ان گھوڑوں پر سوار تھے جن کے زین قاقم کے اور پاکھریں اطلس کی اور رکابیں چاندی کی تھیں کہ نصرانی بوڑھوں ، عورتوں اور بچوں کے جمِ غفیر نے گھیر لیا اور خدا کے بیٹے کے نام پر آہ وزاری کرنے لگے۔ سپاہیوں نے چاہا کہ گھوڑے کداکر راستہ بنا دیں مگر نگاہ دیکھ کر ٹھہر گئے۔ وہ دروازے کے سامنے ہی کھڑا ہو گیا۔ حلقہ تنگ ہو گیا، سپاہی دور ہو گئے اور افسر رسالہ کے حکم کی تعمیل میں کمانوں پر تیر جوڑ لئے۔
’’آپ کون ہیں اور کیا چاہتے ہیں؟‘‘
’’ہم آپ کی بدنصیب رعایا ہیں۔ آپ نے ہمارا زرِ فدیہ ادا کر کے آزاد کیا اور ہم آپ کے اقبالِ سلطنت کو دعائیں دیتے طرابلس گئے اور وہاں کے رئیس اور دنیا کے کتے نے ہمارا بچا کھچا سامان ضبط کر لیا اور ہمیں جانوروں کی طرح ہانک دیا۔ ہم بھیک مانگتے یہاں تک آئے ہیں اور آپ کی فیاضی سے داد خواہ ہیں۔ ‘‘
’’آپ شاہی مہمان خانے میں قیام کریں اور معیشت کی بحالی کا انتظار کریں۔ ‘‘
ہزاروں آوازیں’’نائیٹوں کے نائٹ ‘‘ کو رو رو کر دعائیں دیتی ادھر ادھر ہٹ گئی۔ (جاری ہے )
سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 26 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں