سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 26

وہ ان کے ہجوم سے نکلا تو تقی الدین نے گھوڑے سے اتر کر التماس کیا۔
’’بغداد سے امیر المومنین کے قاصد تاج اور تلوار اور ’’لوا‘‘ لے کر آئے ہیں اورمبارک باد پیش کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
’’ان کو ٹھہراؤ۔ مناسب وقت پر باریاب کئے جائیں گے۔ ‘‘
اب شاہِ فلسطین کے محل کے کنگرے نظر آنے لگے تھے اور اس کی سواری اس میدان میں داخل ہو چکی تھی جس میں سبزے کے بجائے عورتیں کھڑی تھیں ۔ رنگ برنگ کی بوسیدہ قبائیں ہلگائے ، سستی بدشکل صلیبیں لٹکائے، موٹی موٹی چادروں سے چہروں کو کچھ چھپائے کچھ کھولے ویران مغمول آنکھیں پھاڑے اس کے جلوس کو دیکھ رہی تھیں۔ وہ چھتر بردار اور چنور ہلانے والوں کو پیچھے چھوڑ کر ان کے قریب گیا۔ کسی نے رکاب پر سر رکھ دیا، کسی نے اپنے آپ کو زمین پر ڈال دیا۔ کسی نے کھڑے کھڑے گردن جھکالی اور کوئی رونے لگی ، فریادیں کرنے لگی اور بین کرنے لگی۔ ایک طرف سے ملک الافضل طلوع ہوئے اور گزارش کی۔
سلطان صلاح الدین ایوبیؒ. . . قسط 25 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’یہ نائیٹوں اور طبقات ’’داویہ ‘‘ اور بیطار وغیرہ کے شہ سواروں کی بیویاں ، بہنیں اور بیٹیاں ہیں۔ جب ان کے شوہر اور بھائی اور باپ حطین کی لڑائی میں کام آگئے تو یہ فلسطین چلی آئی تھیں۔ اب سلطان اعظم سے فریادی ہیں۔‘‘
’’ان کو محل میں لاؤ۔ ان کے ساتھ انصاف ہو گا۔ ‘‘
قصر بالڈون کے اس ایوان میں جلوس کیا جس کی آئینہ بند دیواروں کو وہ دن یاد تھا جب نوے برس پہلے یروشلم کے فاتحوں نے اسی چھت کے نیچے، انہیں دیواروں کے سائے میں بیٹھ کر بیت المقدس کے نہتے اور مجبور مسلمانوں کو زندہ پھونک دینے شکنجوں میں کس دینے اور پوری آبادی کو قتل کر دینے کے مشورے کئے تھے اور ان پر عمل کے احکام صادر کئے تھے ۔ بالڈون کا سونے کا تخت ٹوٹ کر لشکر میں تقسیم ہو چکا تھا ۔ اس کی جگہ آبنوس کا تخت بچھایا گیا تھا جس پر وہ دوزانو بیٹھا ہوا تھا کہ چاندی کا دروازہ کھلا اور اصفہانی ریشم کے پردے ہلے اور عورتیں زمین چوم چوم کر سایوں کی طرح خاموشی سے آکر کھڑی ہو گئیں۔ ان کو بیٹھنے کا حکم ہوا۔ پھر ستارہ لباس کنیزوں نے ان کے سامنے دستر خوان بچھایا اور وہ نعمتیں چن دیں جن کا مغرب کے بادشاہ تصور کر سکتے تھے۔ جب خالی پیٹ بھر چکے اور آنکھوں کے بھرے پیالے خالی ہو چکے تب مژدرہ سنایا گیا ۔
’’اگر آپ کے وارث زندہ ہیں تو ان کی جانیں بخشی گئیں۔ اگر وہ ممالک محروسہ میں آباد ہونا چاہیں تو اجازت مرحمت کی گئی ۔ اور اگر وہ جلالی ایوبی کا شکار ہو چکے تو روئے زمین کے جس گوشے میں آپ جانا چاہیں آپ کے شایانِ شان روانگی کے ساتھ پانچ برس کی کفالت کے اخراجات اور انتظامات منظور فرمائے گئے۔ اس کے علاوہ بھی کوئی خواہش ہے تو بیان کی جائے، پوری ہو گی ۔‘‘
کنیزیں قلمدان لے کر ایک ایک خاتون کے پاس گئیں اور سرگوشیوں میں اس کے وارث کا نام و نسبت پوچھ پوچھ کر لکھنے لگیں۔ حکم ہوتے ہی افسر البرید نے ہر کاروں کی جمعیت ڈیوڑھی پر حاضر کر دی اور اطلاع دی کہ ہر ممکن عجلت کے ساتھ ممالک محروسہ گرفتار نائیٹوں اور شہسواروں کی جاں بخشی کے پروانے ارسال کئے جانے کا انتظام ہو چکا۔
پھر ’’سخرا ‘‘ کے برج پر چڑھی ہوئی سونے کی صلیب اکھڑوادی۔ حرم شریف کے احاطے میں بنے ہوئے عیسائی امرار کے مکانات ڈھائے۔ دنیائے اسلام کے شیوخ اور علماء و فضلا کے ہاتھوں مقامات مقدسہ کی تطہیر کی رسم ادا کی اور نوے برس بعد نماز جمعہ کی ادائیگی کا اہتمام ہوا۔ صحن میں وہ شامیانہ نصب ہوا جسے شاہِ آرمینیہ نے اسے بطور خاص پیش کیا تھا۔ جس کے شہتیر سونے کے تھے۔ چھت سات رنگوں کے زربفت کی تھی اور ساری دیواریں سات رنگوں کے سنجاب کی تھیں اور سارا فرش سات رنگ کے قالینوں کا تھا۔ مسجد کے مر مریں حوض میں سونے کے فوارے سے معطر پانی اچھل رہا تھا اور مسلمان وضو کر رہے تھے ۔ انہی میں سے ایک وہ بھی تھا جو سفید سوتی عمامہ باندھے ، سفید سوتی کفتان اور سفید سوتی ازار پہنے کمر میں چمڑے کے کمر بند میں تلوار لٹکائے وضو کر رہا تھا۔ دنیائے اسلام کے بڑے بڑے محدث اور قاضی صف باندھے بیٹھے تھے۔ وہ بھی دوسری صف میں کھڑا ہو گیا۔
حلب کے قاضی القضاہ جو یہاں تک یا پیادہ چل کر پہلا خطبہ پڑھنے آئے تھے منبر پر کھڑے ہوئے ۔ وہ سیاہ بھاری عمامہ اور سیاہ چغہ پہنے تھے جس کے حاشیوں ، دامنوں اور گریبان پر چاندی کے تاروں کا کام تھا۔ داہنے پہلو میں حمائل شریف اور بائیں طرف خنجر لگا تھااور سینے پر دودھ سے سفید داڑھی جگمگا رہی تھی۔ آنکھیں خشک کیں اور فرشتوں کی سی آواز میں خطبہ شروع کیا۔
’’لوگو! خوش ہو کہ یہ کھویا ہوا صحیفہ جو گمراہ ہاتھوں میں تھا اور جس کی کفار ایک صدی سے بے حرمتی کر رہے تھے تمہارے پاک ہاتھوں میں آگیا ۔ خوش ہو کہ وہ گھرجس پر خدا نے اپنی رحمتوں کا شامیانہ کھڑا کیا تھا جس میں ہمارے جد ابراہیم نے قیام کیا تھا اور جہاں سے ہمارے رسول آسمان پر تشریف لے گئے تھے، جو ہمارا قبلہ رہا ہے ، جو رسولوں کا مسکن اور مدفن بنا ہے۔ جہاں فرشتے وحی لے کر اترے اور جہاں روزِ قیامت تمام بنی نوح انسان جمع ہوں گے تمہاری دعاؤں پر تمہیں بخشا گیا۔
اگر خدا کے محبوب نہ ہوتے تو تمہیں یہ تخت نصیب نہ ہوتا ۔ تم برکت والے ہو۔ تم جو لڑائیوں میں اصحاب کی طرح فتح و ظفر میں عمر کے مانند اور تہور جلالت میں ملی کی مثال رہے ، تم وہ ہو جنہوں نے عثمان کے لشکروں کی یاد تازہ کر دی، تم نے قادسیہ اور یرموک کی فتوحات کو زندہ کر دیا۔ اللہ تم کو اس کا اجر دے ، تمہارے خون کی نذر قبول کرے، تم کو جنت نصیب ہو اور تم دنیا میں خوش رہو۔
اے خدائے بزرگ اپنے اس بندے کی سلطنت کی مدت دراز کر جو عجزدانکسار کے ساتھ تیرا احترام کرتا ہے۔ تیری نعمت کا منت گزار ہے جو تیری مشعلِ روشن ہے اور تلوارِ آبدار ہے۔ تیرے دین کا حامی اور ارضِ مقدس کا محافظ ہے یعنی سلطانِ اعظم شہنشاہ مظفر منصور، تیرے دین کو ہیبت ، تیرے نام کو جلالت دینے والا ، شجاعانِ صلیب کو مغلوب کرنے والا، اسلام اور اسلامیوں کا سلطان، سلطان السلاطین، ابو المظفر یوسف الدین ابن ایوب صلاح الدین ۔ اے خدائے قادر! اس کی سلطنت کو روئے زمین کے تمام ملکوں میں پھیلا دے۔ فرشتے اس کے علم و روایت کے ساتھ چلیں ۔ اور اے پروردگار اسلام کی عظمت کے لئے اسے قائم رکھ ، دین کے لئے اس کی حکومت کا محافظ بن ۔ اے خدا اس کی اولاد کو اس کے بعد اپنی حفاظت میں رکھ۔ اس کے بیٹوں ، بھائیوں اور بھتیجوں کی عمردراز کر کے اس کی قوت قائم رہے کیونکہ اس کے وسیلے سے تونے یہ دائمی اجر عطا کیا اور جیسے دن گزرتے جائیں اے خدا تو اسے وہ سلطنت دے جو صالحین کے مقاموں پر ختم ہونا نہیں جانتی اور جو دعا یہ تجھ سے مانگتا ہے اسے قبول کر ۔ ‘‘
شیخ الشیوخ خطبہ دے رہے تھے اور ان کی داڑھی آنسوؤں سے بھیگ گئی تھی۔ آواز ہچکیوں میں گم ہو گئی تھی اور ساری مسجد میں کہرام برپا تھا۔
(جاری ہے ، اگلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں)