مشہور فلسفی اور شاعر رالف والڈو ایملسن  کے مطابق آپ کو جس عمل سے خوف محسوس ہوتا ہے، وہ کر گزریئےاس طرح آپ کے خوف کی موت یقینی ہے

مشہور فلسفی اور شاعر رالف والڈو ایملسن  کے مطابق آپ کو جس عمل سے خوف محسوس ...
مشہور فلسفی اور شاعر رالف والڈو ایملسن  کے مطابق آپ کو جس عمل سے خوف محسوس ہوتا ہے، وہ کر گزریئےاس طرح آپ کے خوف کی موت یقینی ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 مصنف: ڈاکٹر جوزف مرفی
مترجم: ریاض محمود انجم
قسط:159
آپ کو جس عمل سے خوف محسوس ہوتا ہے، وہ کر گزریئے:
مشہور فلسفی اور شاعر رالف والڈو ایملسن(Ralph Waldo Emelson) نے ایک دفعہ کہا تھا: ”آپ کو جس عمل اور فعل سے خوف محسوس ہوتا ہے، وہ کر گزریئے، اس طرح آپ کے خوف کی موت یقینی ہے۔“
ایک زمانہ وہ بھی تھا جب اس کتاب کے مصنف کو سامعین کے سامنے کھڑا ہوتے ہوئے بھی ناقابل بیان خوف محسوس ہوتا تھا۔ پھر میں نے اپنے اس خوف سے اس طرح نجات حاصل کی کہ میں سامعین اور حاضرین کے سامنے کھڑا ہو جاتا اور وہی عمل یا فعل کرتا جس سے میں خوف زدہ تھا اور اس طرح میرا خوف یقینی طو رپر اپنی موت آپ مر گیا۔
جب آپ مثبت سوچ کے انداز میں خودکو یقین دلاتے ہیں کہ آپ اپنے خوف سے چھٹکارا حاصل کر رہے ہیں اور آپ اپنے شعوری ذہن کے ذریعے ایک قطعی فیصلے اور نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں، تو پھر آپ کی ذات میں آپ کے تحت الشعوری ذہن کی قوت عمل پیرا ہوتی ہے، جو آپ کے خیال اور تخیل کی نوعیت کے مطابق اپنا ردعمل ظاہر کرتی ہے۔
(سامعین کے سامنے) سٹیج کا سامنا کرنے کا خوف:
ایک نوجوان خاتون کو ایک دفعہ آڈیشن (Audition) کیلئے بلایا گیا۔ اس کے علاوہ اسے انٹرویو بھی دینا تھا۔ بہرحال یہ خاتون گذشتہ تین دفعہ سامعین کے سامنے سٹیج پر خوف میں مبتلا ہو کر آڈیشن (Audition) میں بری طرح ناکام ہو چکی تھی۔
اس کی آواز بہت دلکش اور خوبصورت تھی لیکن وہ اس یقینی خوف میں مبتلا تھی کہ جب بھی وہ سٹیج پر اپنی گلوکاری کا مظاہرہ کرنے کیلئے جائے گی، اس پر خوف طاری ہوجائے گا۔ آپ کا تحت الشعوری ذہن آپ کے خوف پر مبنی خیالات و تخیلات کو آپ کا حکم اور درخواست سمجھتا ہے، اور پھر اس پر اپنی عملی کارروائی کاآغاز کرتا ہے اورپھر اسے کسی مخصوص حالت یا واقعے کی شکل میں آپ پر واردکر دیتا ہے۔ آڈیشن (Audition) کے گزشتہ تین مواقع پر اس کے سُروں میں ہم آہنگی نہ تھی، اور پھر بالآخر وہ اعصابی طور پر ٹوٹ پھوٹ گئی اور رونے چلانے لگی۔ جیسا کہ پہلے ذکرہو چکا ہے، اس کی وجہ غیردانستہ اور بے ساختہ خیالات اور تصورات کی آمد تھی جو اسے اپنے چنگل میں گرفتار کیے ہوئے تھی یعنی ایک خاموش خوف، اسکے رگ و پے میں سرایت کر چکا تھا۔
اس نوجوان خاتون نے اپنے اس خوف سے یوں نجات حاصل کی:
”دن میں تین دفعہ وہ ایک علیحدہ اور تنہا کمرے میں ایک آرام کرسی پر بیٹھ جاتی۔ اپنا بدن ڈھیلا چھوڑ دیتی اور اپنی آنکھیں بند کر لیتی اور جہاں تک ممکن ہوتا، اپنے بدن و ذہن کو بے حس و حرکت کر لیتی۔ آرام و سکون کی اس حالت میں ا س کا ذہن اور بدن، کسی بھی خیال یا تخیل کی آمد کو قبول کرنے پربخوبی تیار ہوتا۔ وہ اپنی ذات اور شخصیت میں موجود خوف، اس کیفیت کو زائل کرنے کیلئے اپنے آپ سے یوں ہم کلام ہوتی۔ ”میں بہت اچھا اور خوبصورت گاتی ہوں۔ میں نہایت ہی ”پراعتماد، مطمئن اورپرسکون ہوں۔“
ایک علیٰحدہ کمرے میں آرام دہ کرسی پربیٹھ کر وہ ہر دفعہ یہ الفاظ نہایت خاموشی، آہستگی اور بامقصد انداز میں پانچ سے دس منٹ کیلئے دہراتی۔ دن میں تین مرتبہ وہ یہ عمل کرتی اور ایک دفعہ رات کو سونے سے فوراً پہلے اس عمل کو دہراتی۔ ایک ہفتے کے بعد ہی اس میں اعتماد اور اطمینان پیدا ہو گیا اور پھر اس نے بہت ہی شاندار آڈیشن (Audition) کا مظاہرہ کیا۔ لہٰذا آپ بھی اپنے خوف کے یقینی خاتمے کیلئے اس عمل کواپنائیں۔(جاری ہے) 
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔(جملہ حقوق محفوظ ہیں)

مزید :

ادب وثقافت -