دلیپ کمار کی کہانی انہی کی زبانی ۔ ۔ ۔ قسط نمبر34
نظام الدولہ
ایکٹنگ کا ایگریمنٹ تو میں نے کرلیا تھا لیکن یہ اتنا آسان کام نہیں لگ رہا تھا۔کسی کردار میں اپنے آپ کو ڈھالنا دل اور دماغ میں کشمکش پیدا کرتا ہے ۔دماغ کئی بار سوال کرتا ہے کہ یہ کیا بے وقوفی کررہے ہو لیکن کردار میں ڈھل وہی سکتے ہیں جو دل کی بات مان لیتے ہیں ۔
یہ میری تربیت کے ابتدائی ایام تھے۔ میں اس فلور پر چلا جاتا جہاں اشوک بھیا کی شوٹنگ چل رہی ہوتی ۔یہ 1943کا زمانہ تھا۔ان کی فلم قسمت کی شوٹنگ ہورہی تھی ۔ یہ فلم بھی وہی ڈائریکٹر بنا رہے تھے جنہوں نے دوسال پہلے ان کی فلم جھولا بنائی اور ریکارڈ قائم کردیا تھا کامیابی کا۔سیٹ پرپہنچا تو اشوک بھیا کے ساتھ وہ بھی موجود تھے ۔ڈائریکٹر گیان مکھر جی ،بہت نفیس اور ان تھک انسان تھے۔اشوک بھیا کا کمال یہ تھا کہ وہ ہر ایک کے ساتھ دوستی گانٹھ لیتے۔ان کا رویہ نرم اور دوستانہ ہوتا تھا جس کی وجہ سے اجنبی بھی ان سے مل کر اپنائیت محسوس کرتے تھے۔
دلیپ کمار کی کہانی انہی کی زبانی ۔ ۔ ۔ قسط نمبر33 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
سیٹ پر پروڈیوسر ایس مکھرجی بھی تھے۔دونوں میرے ساتھ شفقت سے پیش آئے ۔ایس مکھر جی کا مزاج بھی دوستانہ اور نرم تھا ۔وہ مجھے دیکھتے رہے پھر مجھے اپنے ساتھ لیا اور سیٹ سے باہر باغیچہ میں لے گئے اور کہا’’ تم جانتے ہویہ سب کتنا سادہ ہے‘‘ وہ مجھے فلم کے بارے میں سمجھانے لگے’’ تم میں بہت ٹیلنٹ دکھائی دیتا ہے۔تمہارے چہرے اور انداز میں کچھ خاص بات نظر آتی ہے‘‘انہوں نے کرسیاں منگوائیں اورگویا ہوئے’’ اداکاری ۔۔۔ دیکھو اگر تم وہی کرو جو تمہیں کہا جارہا ہے اور خود کو اس جگہ محسوس کرو گے تو بہتر کردار کرلو گے لیکن اس کردارکو خود پر طاری کرنے کی کوشش کروگے تو بڑے احمق لگو گے۔بس یہ فرق بہت بڑا فرق ہوتا ہے ایک چھوٹے اور بڑے فنکار میں ‘‘
ان کی بات سن کر میں پریشان ہو ا کہ کیا مجھے کردار کو پکڑنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے ،ایکٹنگ کا تاثر پیدا نہیں کرنا چاہئے۔میری پریشانی بھانپ کر بولے’’ایسا نہیں جو تم سوچ رہے ہو۔بس ایکٹنگ خود پر طاری نہ کرنا اور خود کو اس کردار کے ماحول میں ڈھالنا ۔‘‘
کچھ ہی دیر میں اشوک بھیا بھی آگئے اور میراایس مکھر جی سے مکمل تعارف کرایا ۔معلوم ہوا وہ ان کے بہنوئی ہیں ۔ان سے ملاقات کا مجھے بڑا فائدہ ہوا ۔میں انکے چھوٹے بھائی جیسا بن گیا اور وہ ساتھ ساتھ میری تربیت کرنے لگے تو میری جھجک اور شرمیلا پن و کم گویائی ختم ہونے لگی۔
مزے کی بات سنیں ۔اشوک بھیا ایس مکھر جی کے ساتھ میری دوستی بڑی مضبوط ہوگئی اور ہم بہت سی باتیں کیا کرتے تھے لیکن جب دیوکا رانی سیٹ پر آتی تو ہم خاموش ہوجاتے ۔وہ اپنے فرانسیسی فوٹوگرافر کے ساتھ فرنچ زبان میں باتیں کرتیں تو ہم انہیں دیکھتے رہتے لیکن اشوک بھیا جو زبانیں سیکھنے اور معلومات میں اضافہ کرنے پر لگے رہتے تھے وہ بھی ان کے ساتھ گفتگو میں شریک ہوجاتے تھے۔
ایک دن اشوک بھیا اور ایس مکھر جی نے کہا کہ آج پیک اپ کے بعد ہم تمارے ساتھ اردو اور فارسی کا کلام سنیں گے ۔سنا ہے تمہیں اس پر بڑی دسترس ہے۔میں نے کہا کیوں نہیں اور شام کو جب میں نے انہیں فارسی اور اردو کا کلام تحت الفظ میں سنایا تو میری ادائیگی نے دونوں کو متاثر کیا ۔
اس وقت یہ عقدہ کھل گیا کہ دونوں مجھ سے اردو اور فارسی میں کلام کیوں سن رہے تھے۔انکشاف کیا گیا ’’ یوسف اچھا ہوگا اگر تم ہمارے اسٹوری اجلاسوں میں شرکت کرو اور لکھاریوں کی ٹیم میں شامل ہوجاؤ کیونکہ جیسی زبان پر تمہیں دسترس ہے کسی اور کو نہیں ۔بنگالی رائٹرز کو اس سے تقویت ملے گی‘‘
خیال اچھا تھا ،میں جان گیا تھا کہ بنگالی رائٹرز انتہائی پڑھے لکھے اور ماہر ہیں ۔دراصل انہیں میری ضرورت ایک اردو دان کے طور پر تھی جو انکے مکالموں کی اردو ٹھیک کرسکے۔یہ تو نہیں ہوسکتا تھا کہ میں وقت کے ان بڑے بڑے رائٹرز کے ہم پلہ ہوکر برابری کرتا ۔اس ایک خدمت کو انجام دینا میرے لئے فخر بھی تھا اور تربیت کا مرحلہ بھی۔
ایس مکھر جی فزکس کے پروفیسر تھے جنہیں بمبئی ٹاکیز کے مالک ہیمانشورائے تلاش کرکے اسٹوڈیو میں لے آئے تھے حالانکہ ایس مکھر جی تو مزید پڑھائی کے ارادہ سے باہر جانا چاہتے تھے ۔ویسے بھی وہ انگریزی میں ماہر تھے لیکن جب ہیمانشورائے انہیں قائل کرکے لے آئے کہ وہ ہندوستان میں عالمی طرز کا سٹوڈیو بنارہے ہیں اور انہیں انکی ضروروت ہے تو ایس مکھر جی مان گئے اور پھر اس فیلڈ میں بڑا کام کیا ۔ایس مکھر جی انگریزی میں ہی بات چیت کرتے تھے لیکن ہم جو کہ بنگالی کہلاتے تھے ان کے ساتھ بنگلہ میں بات کرتے تھے۔
مجھے اور اشوک بھیا کو فلمیں دیکھنے کا بہت شوق تھا۔کہا کرتے تھے’’ فلمیں دیکھو تو فلم کو جان لوگے‘‘
واقعی فلم سے بڑا کوئی استاد نہیں ہوتا ۔اس زمانے میں کوئی فلم دیکھنا نہیں چھوڑتا تھا ۔یہ عادت کبھی نہیں چھوٹی۔(جاری ہے )
دلیپ کمار کی کہانی انہی کی زبانی ۔ ۔ ۔ قسط نمبر35 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں