اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 149
ایک جوان حضرت جنیدؒ کی صحبت میں رہا کرتا تھا۔ اس کی عادت تھی کہ جونہی سماع کی آواز کان میں پڑتی تو چیخنا شروع کردیتا۔
آخر آپ نے اس سے کہا کہ اگر آئندہ کبھی ایسا کیا تو میری صحبت میں نہ رہ سکے گا۔ اس پر نوجوان نے صبر سے کام لینا شروع کردیا اور جتنی جدوجہد کرسکتا تھا کرتا رہا آخر ایک دن اسی کشمکش میں بے اختیار نعرہ مارا کہ پیٹ پھٹ گیا اور وہیں جان دے دی۔
٭٭٭
ایک دفعہ حق تعالیٰ نے ایک فرشتے کو حکم دیا کہ جاﺅ اور فلاں شہر کو تباہ و برباد کردو۔ اس فرشتے نے عرض کیا کہ بار خدایا! فلاں آدمی بھی تو اسی شہر میں رہتا ہے جس نے کبھی پلک جھپکنے کے برابر بھی گناہ نہیں کیا، پھر اب کیا کروں؟
حق تعالیٰ نے فرمایا کہ تباہ کرو اس کو بھی کہ دوسروں کے گناہ کو کرتے دیکھتا رہا اور ایک لمحہ کے لیے بھی کبھی ترش روئی تک اختیا رنہ رکی۔
٭٭٭
اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 148 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
حضرت سید دوست محمدؒ صاحب کمال، رفیع الحال، صاحب تخلیق و تعدیق بزرگ تھے۔ جب آپ پر جذبہ شوق غالب ہوتا۔ آپ جنگل میں نکل جاتے۔ آپ کے نعرہ کی آواز سے درندے اور پرندے رقص کرنے لگتے۔ کبھی کبھی آپ کے نعرہ سے جنگل میں آگ بھی لگ جایا کرتی تھی۔
٭٭٭
ایک بزرگ وہب ابن الوردؒ گزرے ہیں۔ آپ اس وقت تک کوئی چیز نہ کھاتے تھے اور نہ پیتے تھے جب تک یہ اطمینان نہ ہوجاتا کہ وہ چیز ان تک کن ذرائع سے پہنچی ہے ایک دن ان کی والدہ نے دودھ کا پیالہ پینے کو دیا۔
آپ نے پوچھا کہ یہ دودھ کہاں سے آیا۔ اس کی قیمت کہاں سے ادا کی گئی ہے اور کس شخص سے خریدا گیا ہے؟
یہ سب کچھ معلوم کرنے کے باوجود اطمینان نہ ہوا پھر پوچھا کہ اس بکری نے چارہ کہاں سے کھایا تھا۔ اس پر انہیں معلوم ہوا کہ اس بکری نے ایک ایسی چراگاہ سے گاس کھائی تھی جس پر مسلمانوں کا کسی بھی طرح سے کوئی حق نہیں تھا۔ اس پر آپ نے دودھ پینے سے انکار کردیا۔
ماں نے بہتیرا کہا کہ ”بیٹا! پی لو۔ اللہ تم پر رحمت کرے گا۔“
آپ نے فرمایا ”اے مادر مہربان! وہ اگرچہ رحیم ہے، رحمت کرے گا لیکن مَیں یہ دودھ بہرحال نہیں پیوں گا کیونکہ ایک گناہ سے آلودہ ہونے کے بعد جو رحمت مجھے حاصل ہوگی اس میں گناہ کی آلائش لامحالہ ہوگی اور یہ مجھے پسند نہیں کہ اس کی رحمت کو گناہ سے آلودہ کروں۔
٭٭٭
حضرت شیخ جلال الدینؒ تھانیسری کے ایک مرید کا واقعہ ہے کہ وہ آپ کی خدمت میں چند سال رہا لیکن اس کو حالت جذب و کیف محسوس نہ ہوئی۔ جب اس نے کوئی فائدہ نہ دیکھا تو ایک روز دل میں کہنے لگا کہ پہلے زمانے میں نجم الدین کبریؒ سے صاحب عظمت اور صاحب حال بزرگ تھے جو ذرا سی دیر میں مرتبہ ولایت پر پہنچا دیتے تھے اور آج اس قسم کا کوئی بزرگ نہیں ہے۔
آپ بذریعہ کشف اس کے خیال سے آگاہ ہوئے۔ آپ نے اس کی طرف دیکھا اور فرمایا کہ آج بھی ایسے لوگ ہیں کہ ان کی ایک نگاہ سے مرتبہ ولایت حاصل ہوجاتا ہے۔ اسی وقت وہ مرید بے خود ہوا اور اعلیٰ درجہ پر پہنچا۔
تھوڑے دنوں میں اس کا انتقال ہوگیا۔ آپ کو جب اس کے انتقال کی خبر ہوئی تو آپ نے فرمایا ”ہر شخص کو اس کام کے برداشت کی تاب نہیں ہے۔
(جاری ہے)
اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 150 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں