اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 150
سیدنا امیر ابو العلیؒ کے عہد میں ایک بدمست ہاتھی لوگوں کو پریشان کرتا تھا ۔ اس کے خوف سے لوگ چھپ جاتے تھے۔
ایک دن سیدنا امیر ابو العلیؒ جامع مسجد سے خانقاہ جارہے تھے، آپ نے شور سنا تو لوگوں سے پوچھا کہ یہ شور کیساہے؟
مریدوں نے عرض کیا ”ایک بدمست ہاتھی آرہا ہے۔ اس سے بچنے کی تدبیر ضروری ہے کسی گلی میں جانا مناسب ہے۔“
آپ نے یہ سن کر فرمایا ”بابا ابو العلیؒ اپنی راہ جاتا ہے وہ اپنی راہ جائے۔“
جب وہ مست باتھی سامنے آیا۔ اس نے اس کی طرف بغور دیکھا۔ ہاتھی ایک دم رک کر کھڑا ہوگیا۔ آپ اس بدمست ہاتھی کے برابر سے نکل کر چلے گئے۔
کچھ دنوں کے بعد آپ کو اطلاع ملی کہ وہ بدمست ہاتھی خانقاہ کے دروازے پر کھڑا ہے آپ اس کے پاس تشریف لے گئے اور اس سے فرمایا کہ مخلوق کو پریشان کرنا اچھا نہیں بہتر یہ ہے کہ راج گھاٹ جاکر لوگون کو دریا پار کراﺅ۔“
وہ ہاتھی راج گھاٹ گیا اور لوگوں کو اپنی پیٹ پر بٹھا کر دریا پار اُتارنے لگا۔ کچھ ہی دنوں کے بعد وہ ہاتھی میر صاحب کا ہاتھی کہلایا۔
٭٭٭
اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 149 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
بزرگان سلف میں سے ایک بزرگ نے اپنے وکیل کے ذریعے کچھ اناج بصرہ میں فروٹ کرنے کے لیے بھیجا۔ وکیل اس اناج کو لے کر بصرہ میں پہنچا تو دیکھا کہ وہاں غلہ بہت سستا بک رہا ہے اور اس خیال سے کہ کہیں نقصان ہی نہ اُٹھانا پڑے، اس نے ایک ہفتہ تک انتظار کیا۔ دریں اثنا غلہ کا بھاﺅ چڑھ گیا۔ وکیل نے دگنے بھاﺅ پر غلہ فروخت کیا اور مالک کو لکھ بھیجا کہ میں نے ایسا کیا ہے۔
بزرگ کو یہ بات اچھی نہ لگی۔ اس نے جواب میں لکھا کہ ہم نے تھوڑے نفع پر قناعت کا ارادہ کیا تھا جس سے دین کی سلامتی پرقرار رہے۔ تو یہ کب مناسب تھا کہ تم ہمارے دین کو نسبتاً زیادہ دنیاوی منافع کے عوض بیچ ڈالو۔ یہ تم نے کیا کردیا؟ یہ تو تم نے بہت بڑا گ ناہ مول لے لیا ہے۔ اب یہی ہوسکتا ہے کہ جس قدر رقم اس سے حاصل ہوئی وہ سب کی سب نفع سمیت صدقہ میں دے ڈالو کہ اس کا کفارہ ادا ہوجائے۔ اگرچہ پھر بھی ضروری نہیں کہ اس شومی سے ہمیں خلاصی نصیب ہوہی جائے۔
٭٭٭
حضرت ملا عمرؒ کو سماع میں کیفیت ہوئی۔ انہوں نے اسی حالت میں اپنی جان شیریں جان آفرین کے سپرد فرمائی۔ جب ان کو سیدنا امیر ابو العلیؒ کی خدمت میں لایا گیا تو آپ نے ان پر ایک نگاہ ڈالی۔ ملا عمرؒ اُٹھ کر بیٹھ گئے اور پھر حالت وجد میں رقص کرنے لگے۔
٭٭٭
حضرت ربیع بن خشیمؒ نے جن کا مزار طوس میں ہے۔ اپنے لہے گھر میں ایک قبر کھود رکھی تھی اور جب کبھی انہیں محسوس ہوتا کہ وہ تسابل و تغافل کا شکار ہوئے جارہے ہیں تو جاکر قبر میں لیٹ جاتے اور تھوڑی دیر اس میں پڑے رہنے کے بعد کہتے کہ اے پروردگار! مجھے ایک بار پھر دنیا میں بھیج دے تاکہ میں اپنی خطا کی تلافی کرسکوں اور تب وہاں سے اُٹھتے اور اپنے آپ سے کہتے
”اے ربیع! دیکھ تجھے نئی زندگی دے کر دوبارہ دنیا میں بھیج رہے ہیں۔ اب کوشش کرنا کہ جو نیک عمل کرسکتے ہو کر لو۔ پیشتر اس کے کہ آخر وہ وقت آپہنچے کہ دوبارہ واپسی کا موقعہ تجھے نہ مل سکے اور پھر ہمیشہ کے لیے واقعی اس قبر میں سونا پڑے۔
٭٭٭
ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ میں نے ذوالنونؒ کو دیکھا کہ اُن کے پاس دو شخص حاضر ہوئے۔ ان میں ایک فوجی تھا اور دوسرا رعیت سے تعلق رکھتا تھا۔
کچھ دن پہلے عام آدمی نے فوجی کے ساتھ لڑائی میں اس کے سارے دانت ہلا ڈالے تھے، وہ اسے بادشاہ کے پاس لے جانے پر بضد تھا مگر لوگوں نے کہہ کہلا کر ان دونوں کو حضرت ذوالنون مصریؒ کے سامنے پیش کردیا۔
جب آپ نے فوجی کی بات س نی تو آپ نے اس کے دانتوں کو اپنا لعاب مبارک لگادیا۔ جب اس فوجی نے اپنی زبان منہ کے اندر گھمائی تو اس نے اپنے دانتوں کو مضبوطی سے اپنی اپنی جگہ پر جما ہوا پایا۔ وہ اسی وقت آپ کا معتقد ہوگیا۔(جاری ہے)
اللہ والوں کے قصّے... قسط نمبر 151 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں