معلوماتی سفرنامہ۔۔۔ 37ویں قسط
حکمِ سفر
آخر کار وہ دن بھی آگیا جب ہمیں اس بہشت سے نکلنا تھا۔میرے ساتھ میری اہلیہ کے علاوہ سالی کو بھی کراچی جانا تھا۔ فلائٹ صبح پونے چار کی تھی اور اس وقت رات کے آٹھ بج رہے تھے۔وہ رات ہم سب نے جاگ کر گزاری۔ دو بجے روانہ ہوئے۔
آخر میں سب لوگوں سے گلے ملے۔میری ساس، سسر، رضوان بھائی ، بھابی، شہیر اور جویریہ سب چھوڑنے آئے تھے۔ پچھلی دفعہ میرے جاب چھوڑ کر یہاں سے جانے پر سب بے حد دل گرفتہ تھے۔مگر غم کی یہ عجب تاثیر ہے کہ جب بار بار ملتا ہے تو اسے برداشت کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ اس لیے اس دفعہ ایسی غمگینی کی کیفیت نہ تھی۔ جہاز میں پہنچے تو پتا چلا کہ ہماری سیٹ فرسٹ کلاس میں کی گئی ہے۔ اس نظرِکرم کی کوئی اور وجہ میری سمجھ میں نہیں آئی سوائے اس کے کہ یہ اللہ کا احسان تھا۔ جہاز بلند ہوا تو جدہ کی روشنیوں پر الوداعی نظر ڈالی۔ خدا کی دھرتی کو آخری سلام کہا۔ اور سیٹ سے پشت لگاکر بیٹھ گیا۔ سیٹ بے حد آرام دہ تھی۔ تین چار طریقوں سے اپنی سہولت کے حساب سے اسے ایڈجسٹ کیا جاسکتا تھا۔ مگر مجھے یہ سیٹ سکون نہیں دے پارہی تھی۔ میری نگاہوں کے سامنے سے بار بار مختلف مناظر گزررہے تھے۔ مدینہ، مکہ اور جدہ میں اپنے مہینے بھر کے قیام کے سارے لمحات ایک فلم کی طرح میری نظروں کے سامنے گھوم رہے تھے۔میں اسی کیفیت میں تھا کہ حضرتِ اقبال کا دلپذیر کلام میرے کانوں میں گونجنے لگا۔
معلوماتی سفرنامہ۔۔۔چھتیسویں قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
سفرنامہ جنوب مشرقی ایشیا
اردو زبان کے کلاسیکی دور میں ایک مصنف مرزا رجب علی بیگ سرور گزرے ہیں۔ وہ مشکل الفاظ سے آراستہ اور نظم کے انداز میں نثر لکھنے کے لیے مشہور تھے۔ انھوں نے کہیں لکھا تھا کہ سفر اور سقر (جہنم) کی صورت ایک ہے، ان سے بچنا نیک ہے۔ ان کا یہ جملہ زمانۂ قدیم کی ان مشکلات کا بہت خوبصورت بیان ہے جو دورانِ سفر لوگوں کو پیش آیا کرتی تھیں۔ مشینی دور سے قبل سفر کا مطلب بے وطنی کا وہ طویل وقفہ تھا جو ہر طرح کی مشکلات اور خطرات سے پر ہوتا تھا۔ دورِ جدید میں سفر بہت آرام دہ ہوچکا ہے، مگر کچھ لوگوں کے لیے آج بھی یہ ایک مشکل کام ہے۔ میرا شمار ایسے ہی لوگوں میں ہوتا ہے۔ لیکن لگتا ہے کہ میرے ہاتھ میں سفر کی لکیر شاید عام لوگوں سے زیادہ طویل ہے۔ اس لیے بار بار مجھے سفر کے مواقع پیش آجاتے ہیں۔
مئی 2008 میں مجھے جنوب مشرقی ایشیا کے تین ممالک سنگاپور، ملائیشیا اور تھائی لینڈ جانے کا موقع ملا۔ سفر ذاتی نوعیت کا تھا اس لیے اس کی روداد لکھنے کا کوئی جواز میرے پاس نہ تھا۔ لیکن سفر مجھے جس وجہ سے ناپسند ہے وہی وجہ قلم اٹھانے کا سبب بھی بنی ہے۔ مجھے معمول کی زندگی گزارنا پسند ہے۔ جبکہ سفر میں عام روٹین کی لائف اور معاملات درہم برہم ہوجاتے ہیں۔ لیکن یہ قیمت دینے کے بعد سفر کے نتیجے میں انسان ایک نئی دنیا میں پہنچ جاتا ہے۔ اس دنیا میں پہنچ کر شعور کی وہ آنکھ کھل جاتی ہے جو معمول کی زندگی میں کم ہی بیدار رہتی ہے۔ یہ آنکھ انسانی ذہن کے معاملات کو دیکھنے کا ایک نیا انداز دیتی ہے، حقائق اور تصورات کے درمیان تفریق سکھاتی ہے، مسائل کے ادراک اور حل کا ایک نیا زاویہ دیتی ہے، دو چیزوں کے درمیان فرق کرنا سکھاتی ہے اور سب سے بڑھ کر اگر ایمان کی روشنی حاصل ہے تو معرفت کی اُس منزل تک پہنچادیتی جو ایک مؤمن کے لیے سرماےۂ حیات ہوتا ہے۔ سفر کے یہی روحانی اور اس کے علاوہ یقیناًبہت سے مادی فوائد بھی ہیں جن کی بنا پر سفر کو وسیلۂ ظفر بھی کہا گیا ہے۔
خوشی اور معرفت
میں روانہ ہونے لگا تو دوست احباب میں سے ہر شخص نے خوشیوں کی دعا دی۔ وہاں پہنچ کر بھی یہ لوگ رابطے میں رہے اور یہی دعا دہراتے رہے۔ مگر میں نے پروردگار سے مستقل یہ دعا کی مجھے معرفت ملے۔ خوشیوں سے کس کافر کو انکار ہوسکتا ہے؟ مگر جس خوشی کے پیچھے معرفت نہ ہو وہ اکثر دل کی سختی کا سبب بن جاتی ہے۔ انسان پر غفلت چھاجاتی ہے۔ اسے معلوم بھی نہیں ہوتا اور وہ پروردگار کی حضوری سے نکل جاتا ہے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے خوشی کی اس حیثیت کو جگہ جگہ اپنے نافرمانوں کے ذکر میں بیان کیا ہے۔ وہاں اگر خوشی مثبت انداز میں بیان ہوئی ہے تو جنت کی کامیابی کے ضمن میں یا اس دنیا میں قرآن پاک کی عظیم نعمت کے حوالے سے جو دراصل سارے حقائق اور معرفت کا بنیادی سرچشمہ ہے۔
خوشی ویسے بھی اپنی ذات میں کسی چیز کا نام نہیں۔ یہ ہمیشہ کسی دوسری چیز کے پانے کا ایک نتیجہ ہوتی ہے۔ اور اس دنیا میں تو انسان جو پائے گا وہ بہت جلد کھودے گا۔ اس لیے یہاں کی ہر خوشی عارضی اور ہر لذت فانی ہے۔ اصل خوشی کی جگہ تو آگے آرہی ہے۔ جہاں ہمیشہ اور ہر لمحہ رب کی عنایت کو ایک نئی شان کے ساتھ پانا ہوگا۔ جہاں کا ہر ایک لمحہ، ہر ایک منظر، ہر ایک محفل اور ہر ایک محمل خوشیوں، لذت اور سکون کا وہ خزانہ انسان کو عطا کرے گا کہ انسان اس دنیا کی ہر تکلیف، ہر دکھ اور ہر محرومی کو بھول جائے گا۔
مشاہداتِ سفر
میں اس سفر کی روداد تو خیر یہاں بیان نہیں کروں گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میرا یہ سفر بالکل ذاتی نوعیت کا تھا، مگر جیسا کہ اوپر میں نے عرض کیا کہ حالتِ سفر میں شعور کی آنکھ خود بخود بیدار ہوجاتی ہے۔ جس کے بعد نہ ذہن کو روکنا ممکن ہوتا ہے اور نہ قلم کو۔ میں چاہوں تو اپنی ذات کے لیے کچھ لکھ کر اپنے پاس رکھ کر یہ مشاہدات محفوظ کرلوں لیکن میری زندگی کا مقصد اپنے رب کی ذات و صفات سے انسانوں کو متعارف کرانا ہے۔ نیز مجھے اپنی قوم کی تعمیر و ترقی سے بڑی دلچسپی ہے۔ اس لیے میں کم از کم ان دو حوالوں سے لکھی گئی چیزوں کو اپنے قارئین تک ضرور پہنچانا چاہتا ہوں۔ اور اس لیے بھی کہ میں جانتا ہوں کہ قارئین کی ایک بڑی تعداد ہے جن کے لیے میں گھر کا ایک فرد ہوں۔ ان سے یہ سب شئیر نہ کرنا شاید ان کے ساتھ زیادتی ہوگی۔
ائیرپورٹ کا محشر
ہوائی سفر کا پہلا مرحلہ ائیر پورٹ ہوتا ہے۔ ائیرپورٹ مجھے ہمیشہ حشر کے میدان کی یاد دلاتا ہے۔ حشر اس مختصر اور فانی دنیا کے بعد شروع ہونے والی اصلی اور ابدی زندگی کا پہلا مرحلہ ہوگا۔ صور پھونکا جائے گا۔ لوگوں کو جمع کیا جائے گا۔ اعمال کا جائزہ لیا جائے گا۔ اور پھر لوگوں کے اعمال کے مطابق ان کے لیے جنت یا جہنم کا فیصلہ کردیا جائے گا۔ ائیرپورٹ بھی کچھ ایسی ہی جگہ ہے۔ یہاں کسٹم پر سامان چیک ہوتا ہے، وہاں بھی کسٹم پر اعمال چیک ہوں گے۔ یہاں کی سیکیورٹی پر جامہ تلاشی ہوتی ہے، وہاں کی سیکیورٹی پر اخلاقی وجود کی جامہ تلاشی ہوگی۔ یہاں کاؤنٹر پر سامان کا وزن کرکے سیٹ دی جاتی ہے، وہاں میزان پر اعمال کا وزن کیا جائے گا اور جنت یا جہنم میں مقام کا فیصلہ کیا جائے گا۔ یہاں امیگریشن پر پاسپورٹ اور ویزا چیک ہوتا ہے اور وہاں حساب کتاب میں ایمان کا پاسپورٹ اور اخلاق کا ویزا چیک کیا جائے گا۔
میں امیگریشن کی لائن میں کھڑا یہ سب کچھ سوچ ہی رہا تھا اور ساتھ میں قرآنِ کریم کی یہ آیت پڑھ رہا تھا: رَبَّنَا إِنَّکَ جَامِعُ النَّاسِ لِیَوْمٍ لاَّ رَیْْبَ فِیْہِ إِنَّ اللّہَ لاَ یُخْلِفُ الْمِیْعَادَ، (اے ہمارے رب تو لوگوں کو ایک ایسے دن جمع کرنے والا ہے جس کے آنے میں کوئی شک نہیں۔ اللہ تعالیٰ وعدہ خلاف نہیں کیا کرتے )کہ اچانک میری اہلیہ نے مجھ سے پوچھا: آپ کیا سوچ رہے ہیں؟ میں جس کیفیت میں تھا، اِس میں اُن کی بات کا کوئی جواب نہ دے سکا لیکن میرے دل نے کہا کہ میں اس وقت جو سوچ رہا ہوں وہ ہوکر رہے گا۔ پھر مجھے خیال آیا کہ جو کچھ میں دیکھ رہا ہوں وہ نہ جانے کتنے لوگ دیکھتے ہوں گے لیکن جو کچھ میں سوچ رہا ہوں وہ کم ہی لوگ سوچ پاتے ہوں گے۔ یہ سوچ مجھ میں میرے اساتذہ سے آئی ہے۔ لیکن اس سوچ کا حقیقی ماخذ قرآن مجید ہے جو اہل ایمان کو دعوت دیتا ہے کہ وہ انفس و آفاق کی نشانیوں میں گم ہونے اور مشاہدات میں کھوجانے کے بجائے انہیں اپنے روح کی غذا بنائیں اور ان کے ذریعے اپنے ایمان میں اضافہ کریں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں قرآنِ مجید کا مصرف اب بس یہی رہ گیا ہے کہ بلاسمجھے پڑھ کر مردے بخشوائے جائیں اور دلہنوں کو اس کے سائے میں رخصت کیا جائے۔ اس رویے کے بعد کون قرآنِ مجید کو سمجھ کر پڑھے گا اور کون اس کی بنیاد پر غور و فکر کو اپنی عادت بنائے گا!
دورِ جدید کے دو پہلو
ہماری فلائٹ ساڑھے گیارہ بجے شب روانہ ہوئی۔ پانچ گھنٹے بعد ہم بنکاک کے ائیرپورٹ پر اترے جہاں سے دو گھنٹے بعد ہمیں سنگاپور کے لیے اگلی فلائٹ لینی تھی۔ فجر کی نماز ادا کرنے کے لیے ہم نے کوئی جگہ تلاش کرنا چاہی تو وہاں ایک بہت اچھی مسجد مل گئی۔ ائیر پورٹ کے اندر بنی ہوئی اتنی بہتر مسجد میں نے کسی اور ائیرپورٹ پر نہیں دیکھی۔ واپسی پر اسی ائیرپورٹ کے اندر بنی ہوئی ایک اور مسجد میں نمازِ مغرب ادا کی۔ اس مسجد میں مرد اور خواتین کے لیے نماز کی الگ الگ جگہ کے ساتھ الگ الگ وضو خانے بھی بنے ہوئے تھے۔ اس مسجد کے باہر مجھے ایک عجیب تجربہ ہوا جس سے دورِ جدید کے دو پہلو مجھ پر واضح ہوئے۔
میں اور میری اہلیہ نماز کے بعد مسجد سے باہر آئے تو دیکھا کہ ایک خاتون مسجد کے شیشوں سے جھانک کر اندر دیکھ رہی ہیں۔ مجھے یہ خیال ہوا کہ شاید ان خاتون کو کوئی غلطی لگی ہے اور یہ اس جگہ کو ڈیوٹی فری لاؤنج کا کوئی دفتر یا دکان سمجھ رہی ہیں۔ میں نے انہیں بتایا کہ یہ مسلمانوں کی عبادت کی جگہ ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ میں دراصل اپنے شوہر کو تلاش کررہی ہوں جو نماز پڑھنے مسجد میں گئے ہیں۔
ان کا یہ جواب میرے لیے قطعاً غیر متوقع تھا۔ کیونکہ وہ اپنے حلیے اور وضع قطع سے کوئی مسلمان خاتون نہیں لگ رہی تھیں۔ یہ تو مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ عربی ہیں، لیکن ہر عربی مسلمان نہیں ہوتا۔ میں زیادہ سے زیادہ یہ حسنِ ظن کرسکا کہ وہ کسی مسلمان کی غیر مسلم بیوی ہیں۔ تاہم وہ اگر مسلمان تھیں تو اپنے دین کا کوئی اچھا تعارف نہیں کرارہی تھیں اور اگر غیر مسلم تھیں تو اپنے شوہر کے دینی ذوق کا کوئی اچھا تعارف نہ تھیں۔
آزادی دورِ جدید کی بنیادی قدر ہے۔ اس کا مثبت پہلو یہ ہے کہ مذہبی آزادی عام ہوگئی ہے۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ جس ملک میں لوگ خدا کو نہیں مانتے وہاں خدا کی عبادت کے لیے مسجد موجود ہے۔ مگر آزادی کا ایک دوسرا نتیجہ عریانی ہے۔ میڈیا نے اس کو فروغ دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور خواتین اس کا سب سے زیادہ نشانہ بنی ہیں۔ خوبصورت نظر آنا خواتین کی کمزوری ہے اور میڈیا کے زیرِ اثر وہ اس مقصد کے لیے بلاتکلف عریانی کا سہارا لیتی ہیں۔ دوسری طرف مردوں پر اس کے اثرات یہ ہوئے ہیں کہ وہ حدِ اعتدال سے زیادہ حسن پرست ہوگئے ہیں۔ شادی کرتے وقت ان کا معیار صرف یہ رہ گیا ہے کہ عورت خوبصورت ہو۔ عورت کا دین اور اس کی سیرت بڑی حد تک غیر متعلق باتیں ہوگئی ہیں۔ اس رویے کا لازمی نتیجہ نئی نسلوں کی بدترین تربیت ہے۔ یہ وہ چیز ہے جسے ہم بھگت رہے ہیں۔
جاری ہے۔ اٹھتیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں