شعلہ بار گنڈا پور،گورنر کنڈی اور "محبوبِ ریاست" محسن نقوی بغلگیر کیسے ہو گئے۔۔۔ ؟سہیل وڑائچ نے کئی اہم سوالات اٹھا دیئے
لاہور ( خصوصی رپورٹ )شعلہ بار گنڈا پور،طرح دار گورنر کنڈی اور محبوبِ ریاست محسن نقوی کل تک دست وگریبان فریق بغلگیر کیسے ہو گئے ؟اگر آن کی آن میں جادو کی چھڑی یا کوئی خفیہ منتر کام آ سکتا ہے تو اسے پہلے سے استعمال میں کیوں نہیں لایا جاتا ؟وفاقی دارالحکومت پر چڑھائی کے دوران محسن نقوی کے سوا باقی سب کہاں تھے ۔۔؟سینئر صحافی و تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کئی اہم سوالات اٹھا دیئے ۔
"جنگ " میں شائع ہونیوالے اپنے کالم بعنوان "جادونگری!!" میں سہیل وڑائچ نے لکھا کہ چند دن پہلے جادو گر گنڈا پور نے کچھ ایسا منتر پڑھا کہ سب قانون نافذ کرنے والے اداروں کی آنکھیں بند ہو گئیں اور وہ اُڑن کھٹولے میں بیٹھ کر اسلام آباد پہنچا، وہاں سے پختونخوا ہاؤس آیا اور پھراڑتے قالین پر بیٹھ کر واپس پشاور پہنچ گیا نہ کوئی جادو گر کو دیکھ سکا اور نہ پکڑ سکا ۔اسمبلی پہنچ کر اس نے پھر دھاوےکا پروگرام بنایا ابھی ان جادوئی بیانات کا جھاگ بھی نہیں بیٹھا تھا کہ اچانک پھر سے جادو کی چھڑی نے کمال دکھادیا، کل تک پی ٹی آئی اور ریاست کے درمیان آگ اور خون کا کھیل جاری تھا مگر اگلے ہی دن شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ سے پانی پی رہے تھے۔محمودوایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے ۔شعلہ بار گنڈا پور،طرح دار گورنر کنڈی اور محبوبِ ریاست محسن نقوی سب اکٹھے بیٹھے خوش گپیاں کر رہے تھے ۔ہم جیسے فانی یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ جادو کی چھڑی نے یہ کمال کیسے دکھا دیا ،آگ کی بجائے پھول کیونکر کھل گئے، لڑائی کی بجائے عہدو پیماں کیسے ہو گئے ،کل تک دست وگریبان فریق بغلگیر کیسے ہو گئے ؟ ہمیں یہ تو علم ہے کہ یہ صرف اور صرف جادو کا کمال ہے مگر جادو کا منتر کیا ہے ہم وہ سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اگر جادو کی چھڑی راتوں رات یہ کرشمہ دکھا سکتی ہے تو پھر ریاست کو اسی جادو کے ذریعے مستقل بنیادوں پر پھولوں کی سیج کیوں نہیں بنا دیا جاتا ؟ آخر قوم کو کانٹوں پر چلانا کیوں ضروری ہے،اگر آن کی آن میں جادو کی چھڑی یا کوئی خفیہ منتر کام آ سکتا ہے تو اسے پہلے سے استعمال میں کیوں نہیں لایا جاتا ؟
سہیل وڑائچ نے کالم میں مزید لکھا کہ وفاقی دارالحکومت پر چڑھائی کے دوران نونی حکومت کی قلعی بھی کھل گئی سوائے وزیر داخلہ کے نہ تو کوئی دفاع کرنے والا تھا اور نہ کوئی معاملات کو دیکھنے والا، ایسا کیو ں تھا ؟ یہ درست ہے کہ محسن نقوی کا وزیر اعظم سے مسلسل رابطہ تھا مگر کیا وزیر اعظم ہی اکیلا وفاقی حکومت ہے، باقی سب کہاں تھے ؟ حالیہ اسلام آباد مقابلے میں دو ہی فریق نظر آئے ایک گنڈا پور اور دوسرے محسن نقوی، اس دن ایسا لگا کہ اگلا ڈوئل ان کے مابین ہی ہو گا مگر پشاور جرگے سے یہ تاثر ملا کہ آگ اور پانی ایک ہو گئے ہیں، ایسا صرف جادو نگری میں ہی ہو سکتا ہے اور ہو رہا ہے ۔
موجودہ نونی حکومت کو تمثیلی انداز میں پیش کیا جائے تو یوں لگتا ہے کہ یہ مقتدرہ کے شانوں پر بچوں کی طرح سوار ہو کر حکومت کر رہی ہے بالکل اسی طرح جیسے جنرل باجوہ کے دور میں انصافی حکومت کے وزیر اعظم بچوں کی طرح کھلونوں سے کھیلنے کیلئے آزاد تھے ۔ایک وقت آیا کہ جنرل باجوہ کو بھی یہ سوچنا پڑا کہ انصافی حکومت کھلونوں سے ہی کھیلتی رہے گی یا کوئی بہتری بھی لائے گی ۔اب بھی مجھے لگتا ہے کہ مقتدرہ نے نونی حکومت کے جس بچے کو شانوں پر بٹھا رکھا ہے یہ ایک محدود مدت ہے، اس کے بعد وہ چاہے گی کہ بچہ شانوں سے اتر کر خود چلے پھرے بلکہ دوڑے۔اگر نونی حکومت نے ایسا نہ کیا تو جس طرح والدین بچے کو پیار کے باوجود بڑا ہونے پر کندھوں پر نہیں بٹھاتے چلنے پر مجبور کرتے ہیں اب بھی ایسا ہی ہوگا اور اگر نونی حکومت نے پی ٹی آئی کے کمزور ہونے پر بھی خود چلنے کیلئے ہاتھ پاؤں نہ کھولے تو پھر نونی بوجھ کوئی نہیں اٹھائے گا۔ میرا اندازہ ہے کہ مقتدرہ اور نونی حکومت کو تحریک انصاف کی سخت مخالفت نے اکٹھا رکھا ہوا ہے جس دن پی ٹی آئی کمزور ہو گئی اس دن مقتدرہ اور نونی حکومت میں بھی فاصلے پیدا ہونا شروع ہو جائیں گے ۔
کالم کے آخر میں سہیل وڑائچ نے لکھا کہ ریاست میں جادو کے چلنے کا ذکر تو ہو چکا ۔سیاسی جماعتوں کے اندربھی ہر طرف جادو ہی جادو ہے، تحریک انصاف کے بانی پر اب بھی بشریٰ عمران کا جادو ہی چل رہا ہے فیملی کے اندر سے بہنیں بھی اپنا اتنا جادو نہ چلا سکیں جتنا اثر ان پر اپنی اہلیہ کا ہے۔ پارٹی کے اندرسب سے زیادہ جادو گنڈا پور کا چل رہا ہے ۔اب دیکھنا یہ ہو گا کہ پشاور جرگہ پر بانی پی ٹی آئی کا ردعمل کیا ہوگا ؟ گنڈا پور اور اسد قیصر، محسن نقوی کے ہمراہ بیٹھے تھے اور عمر ایوب محسن نقوی کے خلاف تقریر کر رہے تھے دیکھیں اب عمران خان گنڈا پوری منتر کو تسلیم کرتے ہیں یا عمر ایوبی طلسم کو مانتے ہیں؟
محسن نقوی کا جادو بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے مقتدرہ اور حکومت کے درمیان مضبوط ترین رابطہ وہی ہیں۔ بظاہر پی ٹی آئی کا حکومت کو گرانے کا خطرہ وقتی طور پر ٹل گیا ہے لیکن عدالتی راستے سے کئی خطرات کا اندیشہ اب بھی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ اگلے 3 ماہ میں سیاست کا منظر اور واضح ہوگا، کوئی نہ کوئی نئی صف بندی ہوگی۔ اگر تو پی ٹی آئی کمزور ہوئی تو حکومت کے اندر نئی گروپ بندی جنم لے گی اور اگر پی ٹی آئی مضبوط ہی رہی تو پھر اس سے ربط ضبط شروع ہو جائے گا۔