ے نام خوف کی لہر اٹھی ریڑھ کی ہڈی برف کی طرح سرد ہوگئی، شدید اندھیرا ہوگیا جس کا تصور بھی نہ تھا،چور اچکے ایسے خفیہ مقبروں کی تلاش میں رہتے تھے
مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:28
پھر ایک دم میرے اندر بے نام سے خوف کی ایک لہر سی اٹھی اور ریڑھ کی ہڈی برف کی طرح سرد ہوگئی۔ ٹھیک اسی وقت بڑی مونچھوں والے اس نامعقول گائیڈ کی حس مزاح جاگی اور اس نے شرارتاً ٹارچ بجھا دی اور وہاں ایک دم اتنا شدید اندھیرا ہوگیا جس کا کبھی تصور بھی نہ کیا تھا۔ ایک لمحے کیلئے قبر کی تاریکی کی طرف دھیان گیا تو سانس اکھڑنے لگا اور ٹھنڈے پسینے سارے جسم سے پھوٹ پڑے۔ میرے شور مچانے پر اس نے دوبارہ ٹارچ روشن کی۔ ذرا ہوش ٹھکانے آئے تو میں وہیں رک گیا اور مری ہوئی آواز میں اسے واپس چلنے کو کہا اور آگے جانے سے منکر ہوگیا۔ اس نے رسمی طور پر سفر جاری رکھنے کو کہا اور بتایا کہ کچھ آگے چل کر وہ کمرہ آئے گا جو ایک بڑے فرعون کی آخری آرام گاہ ہے، لیکن میں نے صاف انکار کر دیا اور بچوں کی طرح واپس جانے کی ضد کرنے لگا۔ اس تنگ راہداری میں بچھی ہوئی لکڑی کی سیڑھی پر ہم نے بڑی مشکل سے گاڑی کے انجن کی طرح اپنی سمت تبدیل کی،جس سے ہمارے قافلے کی ترتیب الٹ گئی تھی۔ اب عبدو آگے آگے اور ہم دونوں اس کے پیچھے رینگ رہے تھے۔ تھوڑی تگ و دو کے بعد ہم باہر نکل آئے۔ باہر تیز روشنی کو دیکھا تو آنکھیں ہی چندھیا گئیں اور کتنی ہی دیر تک تو مجھے کچھ نظر ہی نہ آیا۔ پسینے سے سارا جسم شرابور تھا اور سانس اکھڑے ہوئے تھے۔
مجھے ان فرعونوں پر غصہ آیا جنہوں نے یہاں دفن ہونا پسند کیا تھا۔ لیکن اس وقت کی ریت یہی تھی کہ جیسے ہی کوئی فرعون مسند شاہی پر فائز ہوتا وہ خود ہی اپنی پسند کے مقبرے کی تعمیر شروع کروا دیتا اور یہ کام اس کی موت تک چلتا رہتا اور وہ اپنی مرضی اور ضرورت کے مطابق اس میں مسلسل تبدیلیاں کرواتا رہتا۔ ا ن فرعونوں کی سب سے بڑی خواہش یہ ہوتی تھی کہ وہ مرنے کے بعد سکون سے اپنی حیات ثانیہ کا انتظار کریں اور کوئی بھی ان کے مدفن کو تلاش کرکے ان کو بے آرام نہ کرسکے اور نہ ہی اس کے ساتھ دفن ہونے والے نوادرات اور خزانے کو لوٹ سکیں جن کو زندہ ہونے کے بعد انہوں نے استعمال کرنا تھا۔لیکن جیسا کہ آگے چل کر آپ کو علم ہوگا کہ ایسا ہوا نہیں اور نہ صرف یہ کہ وہ ذلیل و خوار ہوئے بلکہ ان کے خزانے بھی ہاتھ سے نکل گئے۔وہ بری طرح لٹ پٹ گئے تھے۔
جب کوئی فرعون مرجاتا تھا تواسے حنوط کرکے کئی ذیلی تابوتوں میں رکھ کر ایک بڑے سنگی تابوت میں بند کر دیا جاتا اور پھراسے اس کے اپنے ہی تعمیر گئے مقبرے میں ایک اونچے چبوترے پر رکھ دیا جاتا تھا،اس کے ساتھ بغلی کمروں میں اس کے روزمرہ استعمال کی اشیاء اور زیورات وغیرہ کے علاوہ کچھ غلہ اور کھانے پینے کی چیزیں رکھ کر مقبرے کو بھاری بھرکم سنگلاخ سلوں سے مکمل طور پربند کر دیا جاتا تھا۔ جن پر صدیوں کی گرد پڑتی رہتی اور وہ وقت کی دھول میں اس وقت تک کے لئے دب جاتا تھا جب تک کہ کوئی طالع آزما آکر اسے دریافت نہ کر لیتا۔
تاریخ کے مختلف ادوار میں چور اچکے ایسے خفیہ مقبروں کی تلاش میں رہتے تھے اور جہاں کہیں بھی انہیں موقع ملتا وہ انہیں ڈھونڈ ڈھانڈ کر نقب لگاتے اور مقبرے میں اتر کر وہاں رکھا ہوا قیمتی سامان، نوادرات اور زیورات نکال کرلے جاتے تھے۔ حیرت انگیز طور پر لوٹ مار کا یہ سلسلہ ان کے اپنے دور میں ہی شروع ہو گیا تھا۔ بعد میں جب رومیوں اوریونانیوں نے مصر پر قبضہ کیا تو انہوں نے بھی ان کے مدفنوں کو جی بھر کے لوٹا۔ اس کے بعد میں آنے والوں نے بھی کوئی رعایت نہ کی اور ان کو تباہ کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔کسی نے ان کو روکنے کی ہمت کی اور نہ ہی ضرورت محسوس کی۔فرعون بری طرح برباد ہوتے رہے، اور ان میں سے کچھ تو خدائی کے دعویدار ہونے کے باوجود اپنے آپ کو اس تباہی اور بے توقیری سے محفوظ نہ رکھ سکے، اور بے بسی سے یہ سب کچھ ہوتا دیکھتے رہے۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں