سدا سلامت پاکستان (1)
پاک لوگوں کے پاک نظریے کی روشنی میں پاک جدو جہد سے بننے والے ملک کوپاکستان کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پاک افراد کوہی اس کے تقدس کی نگہبانی کے لئے چنا اور اس کی پاک محبت پاک سینوں کو ہی عطا کی۔ پاک زبانیں ہی اس کے زندہ باد کے نعرے لگاتی ہیں، پاک نگاہیں ہی اس کی طرف پیار سے دیکھتی ہیں اور پاک دلوں ہی سے اس کے لئے دعائیں نکلتی ہیں۔ پاکستان ایک نعرہ ہی نہیں، ایک ایمانی نظریہ بھی ہے، یہ ایک ملک ہی نہیں، بازار ممالک میں ایک مسجد کی مانند ہے۔یہ ایک دیس ہی نہیں کروڑوں باسیوں کا دل و دماغ بھی ہے ۔یہ ایک وطن ہی نہیں، ایک ملی مشن بھی ہے ،یہ ایک قطعہ زمین ہی نہیں سجدوں کی جبین بھی ہے، پاکستان کا قیام قدرت خداوندی کا ایک کرشمہ اور نبوت مصطفیﷺ کا ایک معجزہ ہے۔یہ کتاب و سنت کا ایک تحفہ اور توحید و رسالت کا ایک عطیہ ہے ،یہ اولیاء کا فیضان اور اسلام کی برہان ہے ،یہ سلطنت مدینہ منورہ کا عکس جمیل اور قریہ عشق رسولﷺہے ۔پاکستان ریاضتوں کا اثر، شہادتوں کا ثمر، جہد مسلسل کی تعبیر اور صادق دعاؤں کی تاثیر ہے، اس کے پس منظر میں صالحین کی آہ سحر گاہی بھی ہے اور مجاہدین کی ضرب یداللہی بھی ہے:
نقش ہے جو دل پہ وہ تصویر پاکستان ہے
جذبہ الفت کی ایک تعبیر پاکستان ہے
کون اب تسخیر کر سکتا ہے ارض عشق کو
مصطفی ﷺ کے نام کی جاگیر پاکستان ہے
ایسے مقدس ملک کی سا لمیت کے خلاف آج یوں آوازیں بلند ہونا شروع ہو گئی ہیں، جیسے برسات کے مینڈک بولتے ہیں ۔30 جون2016ء کو افغان ٹائمز کو انٹر ویو دیتے ہوئے محمود اچکزئی نے کہا کہ خیبر پختونخوا، افغانستان کا حصہ ہے ۔15 اگست2016 ء کو مودی نے آزاد کشمیر، گلگت اور بلتستان کو بھارت کا حصہ قرار دیا ، نیز بعض منحرف بلوچوں کی دہشت گردی کو کشمیریوں کی جدو جہد آزادی کے برعکس ان کا حق قرار دیا اس کی اس شیطانی انگیخت کی دیر تھی کہ براہمداغ بگٹی نے بلوچستان کی آزادی کے لئے نعرے لگانے شروع کر دئیے اوربھارت سے مدد مانگ لی۔ادھرمولوی فضل اللہ خود ساختہ شریعت کے ہتھوڑے سے پاکستان پر پے در پے حملے کر رہا ہے۔ 22 اگست کو الطاف حسین نے تو پاکستان دشمنی کی ساری حدیں پھلانگ دیں۔ شیخ مجیب، جی ایم سید ،خاں عبدالغفار خان بھی پاکستان کے خلاف کبھی ایسی زہریلی زبان استعمال نہ کر سکے ۔ اس دن یہ الطاف کی ایک تقریر نہیں تھی، بلکہ غداری کا ایک آتش فشاں تھا جو پھٹ رہا تھا اورپاکستان سے عداوت اور بغاوت کا ایک جہنمی تنور تھا جو بھڑک رہا تھا۔ پاکستان کے خلاف الطاف کی پاکستان دشمنی پر تو مودی بھی اپنی کم مائیگی پر شرمارہا ہو گا اس کے بعد 23 اگست کو الطاف نے امریکہ اور جنوبی افریقہ میں موجود پاکستان کے مجرمین اور اپنے تنظیمی اراکین سے خطاب کرتے ہوئے ہر ہر حرف میں پاکستان کو گالیاں بکیں۔ پاکستان توڑنے کے( معاذاللہ) مشن کا واویلا کیا ۔پاکستان کے خلاف الطاف کی دریدہ دہنی آج کی ہی بات نہیں، اس نے اغیار سے داد وصول کرنے کے لئے یہ سیاہی بار بار کمائی ہے۔
پاکستان پر یہ الطاف کا پہلا وار نہیں، دیکھنا ہے کہ کیا آخری وار ہے یا نہیں ۔اس نے تیس برس قبل قائد اعظم کے مزار پر مقدس لفظ’’ مہاجر ‘‘کی آڑ میں اکٹھے کئے گئے ایک جم غفیر میں فضا میں محو پرواز پی آئی اے کے جہاز کی طرف اپنے فرعونی انداز میں انگلی اٹھاتے ہوئے کہا، یہ پنجاب ائیر لائین کا جہاز ہے ۔انہیں ویزہ لے کر کراچی آنا ہو گا ۔اس نے 1983 ء میں مزارا قائد پر پاکستان کا پرچم جلایا ۔ 5 جنوری 2013 ء کواپنی برطانوی شہریت کوجائز قرار دینے کیلئے قائد اعظم کوبھی تاج برطانیہ کاوفا دار قرار دیا۔15 ۔اپریل 1992 ء کو north atlantic ocean میں ڈوبنے والے بحری جہاز titanic کے پس منظرکوسامنے رکھ کر26 جون 2013 ء کوالطاف نے اپنے خطاب میں کہا، پاکستان بھی titanic کی طرح ڈوبنے والا اک جہاز ہے،(معاذاللہ)۔۔۔ اس نے انڈیا میں جا کر نئی دہلی میں’’ہندوستان ٹائمز‘‘ کے سیمینار میں مادر وطن کو گالیاں بکیں اور پاکستان کو ایک سیاسی بلنڈر قرار دیا، اس نے کئی بار قیام پاکستان کو غلطی قرار دیا،پاکستان کے خلاف اقوام متحدہ اور نیٹو کی فوجوں کو مدد کے لئے دعوت دی ۔ اسی ٹولے سے تقسیم پاکستان کے منصوبے اور جناح پور کے نقشے برآمد ہوئے۔ خفیہ ریکارڈ کے مطابق کراچی کو بیروت بنانے کا دعویٰ کیا گیا۔
الطاف کو نہ جانے پاکستان پر غصہ کس چیز کا ہے؟پاکستان ہی میں وہ ٹیوشن پڑھانے کے لئے موٹر سائیکل پر جایا کرتا تھا۔ پھر اُس موٹر سائیکل سے اتر کر اقتدار کے جھولے میں جھولنے لگا۔ وہ اور اس کے حواری ارب پتی بن گئے۔اس نے بحیثیت قائد صرف اپنی اطاعت کا ہی نہیں، بلکہ اپنی پرستش کے استحقاق کا بھی تاثر قائم کیا۔جس پاکستان کی سرزمین میں اس نے آنکھیں کھولیں، بالآخر اسی پاکستان کو اس نے آنکھیں دکھانا شروع کر دیں اور پھر اسی کے ٹکڑے کرنے کے لئے گولہ باری شروع کر دی۔ غدّارانِ وطن یاد رکھیں! پاکستان توہماری ماں ہے، ہر وطن کے باسی وطن کواپنی ماں سمجھتے ہیں اور اس سے پیار کرتے ہیں اور اس کی عزت وآبرو اور حرمت وعظمت پرسب کچھ نچھاور کرنے کوتیار ہوجاتے ہیں، مگر ہماری ماں کی ممتا منفرد ہے، کیونکہ کسی ماں کاتعارف رنگ یانسل یابولی یا جغرافیہ سے کرایا جاتا ہے ۔ہماری مادر وطن ان سے بالاتر تعارف رکھتی ہے ۔تحریک پاکستان میں جب کچھ لوگوں نے بھارت ماتا کہہ کر تقسیم ہند کی مخالفت کی توہمارے اکابرین نے محض وطن کی نسبت سے ماں کہلانے والی ماں کاانکار کرتے ہوئے کہا، ہماری ماں کلمہ اسلام کی بنیاد پر حاصل کیاجانے والاوطن قرار پائے گا ، چنانچہ ہمارا پاکستان سے پیار اور پاکستان کے تقدس کی نگہبانی کا جذبہ تو ایک کلمہ گو ماں کی عزت وآبرو پر بیٹوں کے نثار ہونے کاجذبہ ہے، اس لئے پاکستان کاہر زندہ ضمیر بچہ الطاف سے کہہ رہاہے:
تہمت لگا کے ماں پہ جودشمن سے داد لے
ایسے سخن فروش کو تو مرجانا چاہئے
1984 ء کا وہ دن پاکستان کے لئے کتنا بھاری تھا جب ایم کیو ایم کی بنیاد رکھی جا رہی تھی جب روشنیوں کے شہر کراچی کو اندھیروں میں ڈبونے کا انتظام ہو رہا تھا، پھر کیا تھا کہ آناً فاناً حالات بدلتے گئے کشت و خون ،جلاؤ گھیراؤ،خوف وہراس، گالی اور گولی کی سرکار، بھتہ خوری ،جُوا پرچی،اغوا برائے تاوان،اور بوری بند لاشوں کا ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ ہزاروں سہاگ اجڑے، ہزاروں ماؤں کے جگر پارے تڑپے،گلیاں اور بازار مقتل بن گئے ۔ہر طرف اس فاشسٹ تنظیم کے ٹارگٹ کلرز اور عسکری ونگ کے غنڈوں کا راج ہوا ۔نوگو ایریاز بنے اور کراچی و حیدر آباد سے ان درندوں کے ظلم کی وجہ سے امن روٹھ گیا ۔ مولانا شاہ احمد نورانی جیسے قدسی صفات لوگ بھی ان کی گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے محفوظ نہ رہ سکے۔ 1992ء کے ایم کیوایم کے خلاف آپریشن میں حصہ لینے والے پولیس افسران کوبعد میں ایک ایک کرکے یوں قتل کردیا گیا کہ اس خون ناحق کا آج تک کوئی سراغ نہ مل سکا۔ اس وقت ان کے مرکز پرچھاپے سے وہ بھاری مقدار میں اسلحہ برآمد ہواتھا، جونیٹو کے چوری شدہ کنٹینرز سے غائب ہواتھا۔بارہ مئی 2007ء پاکستان کی تاریخ کا وہ سیاہ دن ہے، جب معزول چیف جسٹس کی کراچی آمد پرایم کیو ایم نے درجنوں انسان چڑیوں کی طرح پھڑکا دئیے تھے اور بہت سے وکیلوں کو زندہ جلا دیا تھا،پھرانہی درندروں نے بلدیہ ٹاؤن کراچی میں خون کی ہولی کھیلی۔ بلدیہ ٹاؤن فیکٹری میں لگنے والی آگ کی تحقیقاتی رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ بھتہ دینے سے انکار پر259 افراد کوزندہ جلادیا گیا۔ یہ واقعہ تخریب کاری تھی، حادثہ نہیں تھا۔ 25سال تک ان لوگوں نے کراچی میں متوازی حکومت قائم کئے رکھی۔
گزشتہ سال نائن زیروپر رینجرز نے چھاپہ مارا تو بھارتی ساخت کا اسلحہ برآمد ہوا، وہاں کچھ جرائم پیشہ لوگ بھی پکڑے گئے، جنہوں نے دوران تفتیش بدنام زمانہ بھارتی ایجنسی ’’را‘‘سے تربیت اور فنڈنگ حاصل کرنے کا اعتراف کیا ۔ مقام افسوس یہ ہے کہ پاکستان کو یہ نہ بجھنے والی آگ پاکستان کے کچھ بزعمِ خویش محافظوں نے ہی اپنے ہاتھوں سے لگائی تھی۔ پس منظر اس کا یہ ہے کہ حضرت مولانا احمد شاہ نورانی نے چونکہ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کی حمایت نہیں کی تھی، نیزمارشل لاء کی چھتری کے نیچے وزارتیں قبول کرنے سے انکار کر دیا تو جنرل ضیاء الحق نے مولانا نورانی، جن کا کراچی اور حیدر آباد میں بہت بڑا ووٹ بینک تھا،ان سے اور اپنے دیگر مخالفین سے بدلہ لینے کے لئے ایم کیو ایم کی بنیاد رکھی اور ان سانپوں کو پروان چڑھایا۔ رہی سہی کسر جنرل پرویز مشرف نے نکال دی اور این آر او کو منظور کیا ۔این، آر، او، سے فائدہ اٹھانے میں الطاف سر فہرست تھا۔ برطانوی میڈیا کے مطابق این ،آر، او نے الطاف پر چلنے والے 72 مقدمے ختم کئے تھے، جن میں سے 31 قتل کے مقدمے تھے ۔ آج قوم کو ان کانٹوں کی فصل کاٹنا پڑ رہی ہے جو ان جرنیلوں اور ان مفاد پرست حکمرانوں کی بوئی ہوئی ہے :
راہزن ہے میرا رہبر منصف ہے میرا قاتل
سہہ لوں تو قیامت اور کہہ دوں تو بغاوت ہے
کوئی بھی ملک آزاد ی اظہار کے نام پر اپنے کسی باسی کو سٹیٹ کے خلاف بولنے کی اجازت نہیں دیتا اور باغیوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جاتا ہے، مگر پاکستان کے خلاف ہر زہ سرائی کرنے اور گالیاں بکنے والوں کو تحفظ فراہم کرنے کا کوئی نہ کوئی حربہ استعمال کر لیا جاتاہے ،جس سے غداروں کے بارے میں قوم کو ٹھنڈا کرنا مقصود ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں کچھ مخصوص ساخت کے لوگ غیرت کے مسئلہ میں بڑے کوتاہ واقع ہوئے ہیں۔ ان کی اپنی انا کے تقدس پر تو معمولی آنچ آنے پر بھی طوفان کھڑا کر دیا جاتا ہے، مگر اسلامی شعائر کی ناموس اور وطن کے تقدس پر توہین کے ہتھوڑے بھی چل جائیں تو وہ ٹس سے مس نہیں ہوتے ۔ مادر وطن کے گستاخوں ،بد خواہوں ،باغیوں اور غداروں کے بارے میں معافی اور نرمی کی روایت نے ہی ان سر کشوں کے حوصلے بلند کئے ہیں۔ اگر پہلے سے ہی ایسا سنگین جرم کرنے والوں کو نشان عبرت بنایا ہوتا تو آج کا دن نہ دیکھنا پڑتا۔ پاکستان بننے کے بعد سے ہی یہ مذموم سلسلہ جاری ہے ۔پاکستان کے خلاف پراپیگنڈا ہوتا رہا ، قابل اعتراض تحریروں اور تقریروں کا دھواں اٹھتا رہا، ان کے خلاف قابل ذکر کا روائی نہ ہوئی جو حد سے بڑھ گئے تو انہوں نے بیرون ملک پناہ لے لی اور وہاں سے انہی توپوں کے رُخ پاکستان کی طرف کر دیئے ۔
آج سے کافی پہلے ہی غداروں کی بیرون ملک پناہ لینے کی شرار ت کو روکنے کے لئے خصوصی قانون سازی کرنی چاہیے تھی۔ جب پاکستان نے برطانیہ کے کسی غدار کو پناہ نہیں دی تو برطانیہ نے پاکستان کے غداروں کو پناہ کیوں دے دی ہے، نیز جس زہریلے فلسفے نے کراچی اور حیدر آبادکی معطر فضاؤں میں یہ زہر یلا دھواں چھوڑا ہے ،اس کی آگ بجھائے بغیر چہرے بدلنے سے رینٹ اے لیڈر اور دفتر مسمار کرنے سے ، کچھ بھی نہیں ہو گا۔ کیا بھتہ خوروں کے گروہ ،بوری بند لاشوں کے سوداگر ،ٹارگٹ کلنگ کی ماسٹر مائنڈ’’را‘‘کی ہمراز جماعت کا نام بدلنے سے یا جماعت کا قائد بدلنے سے غسل طہارت پاکر پارسا بن جائیں گے۔ ’’پاک سرزمین پارٹی‘‘ کا قیام ہو یا فاروق ستار کا ڈرامہ ہو، اعلان لاتعلقی ہو یا پاکستان زندہ باد کے بادلِ نخواستہ نعرے ہوں، یہ کنویں سے کتا نکالے بغیر کنویں سے ڈول نکال نکال کر کنویں کوپاک کرنے کی ایک کوشش ہے۔ جب تک پاکستان دشمنی کا کتا کنویں سے نہیں نکالا جائے گا، 12 مئی اور 22اگست جیسے حادثے ہوتے رہیں گے ۔
الطاف کی پاکستان کے خلاف اس قدر زہر افشانی پر افواجِ پاکستان نے تو پھرتی دکھائی ہے، مگر ہمارے وزیر اعظم کو 8 گھنٹے تک بولنے کے لئے الفاظ ہی میسر نہیں آرہے تھے، پھر جو بیان دیا ، ماضی کاریکارڈ گواہ ’’کہ ان تلوں میں کتنا تیل ہے ‘‘۔۔۔ اصل میں ماضی میں بھی اور اب بھی حکمرانوں نے اپنے ذاتی مفادات کو پاکستان کے مفادات پر ترجیح دیتے ہوئے ایم کیو ایم کی لگام ڈھیلی چھوڑی ۔ اب بھی حکمران جماعت کے تیور ماضی سے کچھ مختلف نہیں ہیں ۔وزیر داخلہ نے برطانیہ کو الطاف کی غداری کے شواہد پیش کرنے کی جوبات کی ہے ۔یہ بھی باسی کڑھی کے ابال سے زیادہ نہیں ہے کیونکہ اس طرح کے ٹھوس شواہد تو ماضی میں بھی موجود تھے، عینی شاہدین کے بیان اور خود سکاٹ لینڈ اور بی بی سی کی تحقیقاتی رپورٹس بھی موجود تھیں،تاہم حکومت پاکستان کی عدم دلچسپی اور سیاسی مفادات کی وجہ سے لندن میں بیٹھی خونی اور جنونی قیادت کے خلاف کوئی قابل ذکر پیش رفت نہ ہوسکی، اب بھی لگتا ہے کہ عوام کے جذبات ٹھنڈے ہوتے ہی یہ اتنا حساس، اہم اور ملکی سالمیت کا معاملہ طاق نسیاں میں سجادیا جائے گا۔ الطاف نے اصل میں پاکستان کے خلاف زبان درازی عالمی منڈی میں اپنے گاہکوں کومتوجہ کرنے کے لئے کی ہے۔ کچھ بین الاقوامی سوداگر پاکستان میں انتشار اور بدامنی کی بولی لگا چکے ہیں۔ خواہ وہ انتشاربلوچستان میں ہویاکراچی میں یاکسی اور جگہ، الطاف نے اپنی صلاحیت ظاہر کی ہے کہ وہ پاکستان کوکتنانقصان پہنچا سکتا ہے، چنانچہ اس نے اپنی تقریر میں اپنے پیروکاروں کو، اپنے گاہکوں کی نشاندھی کرتے ہوئے کہاہے کہ امریکا، بھارت اور اسرائیل کے پاس جاکر بتائیں کہ وہ پاکستان کوکیاکیا نقصان پہنچا سکتے ہیں ؟
اگر کوئی صاحب بصیرت اگست میں پیش آنے والے کوئٹہ وگوادر کے واقعات،بھارت کے وزیراعظم نریندرمودی کی 15 اگست کولال قلعے میں پاکستان کے خلاف اشتعال انگیز تقریر، بلوچستان میں دہشت گردی کااعتراف 22 اگست کوالطاف کاپاکستان کے خلاف زہر میں بجھا خطاب میڈیا ہاوسز پرحملے ، پھر امریکہ اور افریقہ میں اپنی تنظیم کے کارکنوں سے خطاب میں پاکستان توڑنے کے معاذاللہ منصوبے کوایک پیچ پررکھے تو نتیجہ نکالنا مشکل نہیں کہ الطاف کو کس نئی گرینڈ سازش کامہرہ بنایا جارہا ہے ۔اصل میں یہ سی پیک کے خلاف امریکی اور بھارتی مشترکہ مہم کا حصہ ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ گوادر والاسارا منصوبہ بربادہوجائے۔پاکستان کے تمام دشمن یاد رکھیں اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے پاکستان ٹوٹنے کے لئے نہیں، ان شاء اللہ تعالیٰ قیامت تک قائم رہنے کے لئے بنا ہے۔ لفظ’’ پاکستان‘‘ کے ساتھ روئے زمین میں زندہ باد کے علاوہ کوئی لفظ سجتا ہی نہیں ہے۔ زندہ دل ہی پاکستان زندہ باد کانعرہ لگا سکتے ہیں ۔مردہ دلوں کویہ توفیق نہیں ہے ۔صاحبِ نظر مولانا شاہ احمد نورانی نے بہت پہلے فرمایا تھا کہ الطاف مرے گا تو اس کو پاکستان کی مٹی نصیب نہیں ہوگی۔اس کی اس دھرتی کے خلاف حالیہ سنگ باری اور آتش زنی سے ثابت ہوگیا کہ وہ اس پاک سرزمین کی پاک مٹی کے لائق ہی نہیں۔ الطاف جیسے غدار چلتے پھرتے مردار ہیں اور پاکستان ان شاء اللہ قیامت تک سداسلامت اور برقرار ہے۔