قانون کی حکمرانی
کسی معاشرے میں جب آئین اور قانون کی بجائے حکم حاکم ہی حرف آخر ٹھہرے تو پھر وہاں کیسی پارلیمنٹ،کیسا مشورہ اور کونسا انصاف باقی رہ جاتا ہے،انصاف تو ہمیں ویسے بھی پسند نہیں اس کا تو ذکر ہی نہ کریں، کسی معاشرے کے متمدن اور مہذب ہونے کا اندازہ موجودہ دور میں اس کی ٹریفک اور پولیس سسٹم کو دیکھ کر بھی کیا جا سکتا ہے،جس ملک میں ٹریفک قوانین کا زیادہ احترام ہو گا وہ تمدن کا گہوارہ ہوگا،ایسے ہی کسی بھی ملک میں امن و امان کی صورتحال اس ملک کے پر امن ہونے کا ثبوت ہو گا،جہاں جرائم کی شرح کم ہو گی وہ معاشرہ بد امنی اور لا قانونیت سے عاری ہو گا۔معاشرے میں امن کی پہلی آخری اور واحد شرط قانون کی حکمرانی،قوانین کی پاسداری اور احترام ہے اور یہ یکطرفہ عمل نہیں بلکہ جیسے شہری قانون پر عملدرآمد کے پابند ہیں ایسے ہی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسر و اہلکار بھی قانون پر عملدرآمد کے پابند ہیں،جہاں فریقین میں اونچ نیچ یا امتیاز کا عنصر شامل ہواء قانون کی روح مسخ ہو جاتی ہے،آج مہذب دنیا کے جن ممالک میں امن کا راج ہے ہر شہری کی جان مال آبرو اور بنیادی انسانی حقوق اعلیٰ ہیں تو اس کے پس پردہ یہی آفاقی حقیقت کارفرما ہے۔
قانون کی حکمرانی کے حوالے سے متحدہ عرب امارات کو اولیت حاصل ہے اور اس کی وجہ سخت ترین نگرانی کا عمل ہے،اس مملکت کا شائد ہی کوئی گوشہ ایسا ہو جہاں نگرانی کیلئے خفیہ کیمرے نصب نہ ہوں،اماراتی پولیس ان خفیہ کیمروں کی مدد سے جرم کے کچھ ہی بعد مجرم کے گریبان پر ہاتھ ڈالنے کے قابل ہو جاتی ہے،دوسری اہم چیز قوانین پر بلا امتیاز عملدرآمد ہے،کوئی کتنا ہی اہم،دولت مند یا کسی بڑے عہدے پر فائز ہو قانون کی گرفت سے نہیں بچ سکتا،نتیجے میں امارات ایک پر امن،انصاف کی فراوانی والا ملک گردانا جاتا ہے،تا ہم یو اے ای چھوٹا سا ملک ہے جس کے پاس لا محدود وسائل ہیں،اس لئے یہاں امن و امان کا قیام چنداں مشکل کام نہیں۔
کینیڈا رقبہ کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے،رقبے کے لحاظ سے اس کی آبادی کم ہے، شہروں اور قصبات میں سینکڑوں کلو میٹرز کی دوری ہے،وسائل بہت ہیں مگر لا محدود نہیں،یہاں شخصی نہیں جمہوری نظام رائج ہے مگر اس کے باوجود معلوم دنیا کے ممالک میں کینیڈا کو قوانین کی عملداری کے حوالے سے انتہائی خصوصی اہمیت حاصل ہے،وجہ وہی جو اوپر بیان کی گئی،قانون کی نظر میں یہاں ہر شہری کو برابر کا درجہ،مساوی انسانی حقوق حاصل ہیں،استحقاق کی بنیاد پر سب کو تعلیم صحت اور زندگی کی دیگر آسائشات فراوانی سے دستیاب ہیں،کوئی سرکاری عہدیدار، سیاستدان یہاں تک کہ پولیس افسر بھی اس سے بالا تر نہیں،قانون کی یہی بالا دستی کینیڈا کو دیگر ممالک سے ممتاز کرتی ہے۔
معاشرتی ترقی کیلئے فوری انصاف ایک اہم ضرورت ہے اور کینیڈا میں ہر شہری خواہ وہ مقامی ہو یا تارک وطن،سفید فام ہو یا سیاہ فام انصاف سب کیلئے ہے،فوری اور ایسا کہ انصاف دکھائی بھی دے،شہریوں کو حکومتی سطح پر حقوق سے آگہی دینے کے پروگرام ہوتے ہیں،تحفظ حاصل کرنے انصاف لینے کے علاوہ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ ان کے بنیادی حقوق کیا ہیں اور وہ کیسے ان حقوق کو حاصل کر سکتے ہیں،کینیڈین معاشرے کا خوبصورت ترین پہلو خود احتسابی اور محکمانہ احتساب ہے،اس کی وجہ سے انفرادی جرائم،قواعد سے چشم پوشی،ملازمتی فرائض سے کوتاہی کی شکایات بہت بلکہ انتہائی کم ہیں۔کینیڈین پولیسنگ سسٹم دنیا کا جدید ترین نظام ہے،اس نظام میں کسی بھی شخص کو تب تک مجرم نہیں گردانا جاتا جب تک عدالت میں جرم ثابت نہ ہو جائے،ملزم سے مجرموں والا سلوک بھی نہیں کیا جاتا،بلا وجہ لاک اپ میں بھی بند نہیں کیا جاتا،جس ملزم کے بارے میں تفتیش میں تعاون نہ کرنے کی شکائت ہو اسے عدالت کی اجازت سے حوالات میں رکھا جاتا ہے مگر اسے بھی شخصی ضمانت کی سہولت دی جاتی ہے مگر شخصی یا عدالتی ضمانت پر کسی ملزم کی رہائی کے بعد بھی پولیس اس کی نگرانی سے غفلت نہیں برتتی،ملزم کو ملزم اور مجرم کو مجرم سمجھ کر اس سے تفتیش کی جاتی ہے،تھانے عقوبت خانے نہیں،جیسے شہریوں کے حقوق ہیں ویسے ہی ملزموں اور مجرموں کے بھی حقوق ہیں،صرف عدالتیں ہی نہیں سماجی تنظیمیں بھی ان حقوق کی نگہداشت کرتی ہیں،جس بناء پر پولیس کلچر کی بیخ کنی ہوئی اور شہریوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا گیا۔
مہذب دنیا نے یہ آفاقی حقیقت بھی تسلیم کر لی ہے کہ جس معاشرہ میں انصاف کی فراوانی ہو وہاں شہریوں کے حقوق کو غصب نہیں کیا جا سکتا،کینیڈین معاشرہ میں ہر سطح پر، زندگی کے ہر شعبہ میں انصاف عام فوری اور سستا ہے،ہر ادارہ اپنے فرائض سے آگاہ ہے اور حقوق و فرائض میں تواز ن برقرار رکھنے کی دانستہ کوشش بروئے کار لاتا ہے،تھانے سے متعلقہ کیس عدالت میں دائر نہیں کیا جاسکتا اور عدالت سے متعلقہ معاملہ تھانے میں نہیں لایا جا سکتا،ایسا ہو تو اختیارات سے تجاوز سمجھا جاتا ہے لہٰذا ابتدا ء میں ہی ایسی درخواستیں رد کر دی جاتی ہیں،ہر ادارہ اپنی حدود میں رہتے ہوئے انسانی حقوق کے تحفظ کی ذمہ داری نبھاتا ہے اور فرض جان کر،سرکاری ملازمین کی تربیت کا ایک خود کار نظام ہے مگر فیڈرل،پراونشل اور مقامی پولیس کے افسروں اور اہلکاروں کی تربیت کا خصوصی انتظام کیا جاتا ہے ایسے ہی عدالتی عملے کی بھی خصوصی تربیت کا اہتمام کیا جاتا ہے،اس کے بعد اگر کوئی کسی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرے تو سخت سزا کا بھی منظم نظام ہے۔اس سسٹم میں سرکاری عمال کی طرف سے قوانین سے تجاوز کے راستے بند ہو جاتے ہیں،رائل کینیڈین پولیس نیشنل پولیس کہلاتی ہے،اس کی عملداری اونٹاریو اور کیوبک کے سوا باقی آٹھ صوبوں میں ہے،وفاقی سطح کے جرائم کی تفتیش،بارڈر پولیس کو خفیہ اطلاعات کی فراہمی،اہم شخصیات کی سکیورٹی بھی اس کی ذمہ داری ہے،اپنے دائرہ اختیار میں پولیس نظام کا کنٹرول اور ریاستوں کے مابین الجھنوں کو سلجھانا بھی اس کے فرائض میں شامل ہے،دلچسپ بات یہ کہ اس کے باقاعدہ اہلکاروں کی تعداد صرف17ہزار ہے انہیں تین ہزار سول افراد اور پانچ ہزار پبلک سروس ملازمین کی مدد بھی حاصل ہے، اس مختصر تعداد کے باوجود کینیڈا میں امن و امان کی صورتحال تسلی بخش ہے۔
کینیڈا میں جرائم کی بیخ کنی کیلئے عدالتی نظام چار مختلف بنیادوں پر قائم ہے،اہم ترین اور دلچسپ بات یہ کہ پولیس کے محکمہ میں حکمران طبقہ کو بھی مداخلت کی اجازت نہیں،کوئی وزیر،رکن اسمبلی،سیاستدان کسی کی گرفتاری یا رہائی کے معاملہ میں حکم نہیں دے سکتا،نہ پولیس حکام ان کے احکامات تسلیم کرنے کے پابند ہیں،ملزم پر تھرڈ درجہ تشدد تو دور کی بات یہاں ملزم پر تشدد بھی جرم سمجھا جاتا ہے، پولیس کی یہی خود مختاری اس محکمہ کو امتیازی بناتی ہے،ایسی خوبصورتی جس میں انصاف بھی ہے، انسانی حقوق کا احترام بھی اور یہی قانون کی حکمرانی ہے۔