ناقص پاور پالیسیاں
1994کی حکومتی پالیسی کے تحت ملک میں پہلی مرتبہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کی جانب سے 16آئی پی پیز (بجلی بنانے کے کارخانے) لگائے گئے تھے کیونکہ وہ پالیسی صرف اور صرف غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لئے بنائی گئی تھی۔ اس پالیسی میں دی جانے والی مراعات غیر معمولی اور یک طرفہ تھیں کیونکہ اس کا مقصد بیرونی سرمایہ کاری کو ملک میں لانا تھا۔لیکن پھر ہوا یہ کہ غیر ملکی سرمایہ کار اپنی سرمایہ کاری پر ہونے والامنافع اپنے ملکوں میں repartriateکر کے یعنی واپس بھیج کر ان آئی پی پیز کو مقامی سرمایہ کاروں کے ہاتھ فروخت کرکے واپس چلے گئے۔
حکومت نے غضب یہ کیا کہ مقامی سرمایہ کاروں کے لئے وہی مراعات جاری رکھیں جو غیر ملکی سرمایہ کاروں کو دی گئی تھیں۔حالانکہ ہونا یہ چاہئے تھا جب ان 16آئی پی پیز کے لئے غیر ملکی بینکوں کے قرضے اتر چکے تھے تو مقامی سرمایہ کاروں کو منافع امریکی ڈالروں میں ادا نہ کیا جاتا اورغیر ملکی سرمایہ کاروں کی طرح انہیں بھی کارخانوں کی بند پیداواری صلاحیت کے عوض بھاری رقمیں Take or Payیعنی بجلی خریدو نہ خرید و،پیسے دو کی شرط کی بنیاد پر بغیر بجلی پیدا کئے اربوں روپے کے کپیسٹی چارجز نہ دیئے جاتے۔اب حکومت ان کارخانوں کو اس لئے نہیں چلانے دیتی کہ ان سے حاصل ہونے والی بجلی موجوہ قیمت سے بھی مہنگی پڑتی ہے یعنی انہیں چلانا کپیسٹی چارجز ادا کرنے سے بھی زیادہ نقصان اٹھانے کے مترادف ہے۔
ان 16آئی پی پیز کے لئے کئے جانے والے معاہدوں میں موجودبے ضابطگیوں کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتاہے کہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے 1997 میں HUBCO کی آڈٹ رپورٹ میں اوور انوائسنگ کی نشاندہی کی اور بتایا کہ کارخانہ لگانے میں بے انتہا کک بیکس دے کر بجلی خریدنے کے معاہدے کی شرائط کو بار بار بدلا گیاتھا۔ یہی نہیں بلکہ اس بنیادی شرط کو بھی تبدیل کردیا گیا تھاکہ 25 سال بعد کارخانہ حکومت پاکستان کا ہو جائے گا۔
اس آڈٹ رپورٹ کے بعد 1999اور 2000 میں کچھ حد تک معاہدوں پر دوبارہ سے بات چیت کر کے بعض خرافات کو ختم کیا گیامگر دوسری جانب ان کارخانوں کو ابتدائی طور پر طے شدہ 25 سال کی بجائے 30 سال تک کے لئے ان سرمایہ کاروں کے حوالے کر دیا گیا۔یعنی ایک طرف سے ٹکا لے کر روپے کا نقصان کر لیا۔
حکومت پاکستان کے چار ادارے بشمول پرائیویٹ پاور انفراسٹرکچر بورڈ یعنی PPIB،ٹیرف کے تعین کے لئے NEPRA، ان سے بجلی لینے اور اس کے عوض چارجز کی سیٹلمنٹ کے لئے سنڑل پاور پرچیز ایگریمنٹ یعنی CPPA اور وزارت توانائی یعنی پاور ڈویژن ان آئی پی پیز کے معاملات کو دیکھتے ہیں۔ ان اداروں کی موجودوگی میں اوپر بتایا گیا فراڈ ان اداروں میں بیٹھے افراد کی نااہلی اور ملی بھگت کا نتیجہ ہوسکتا ہے۔
1994 کی پالیسی کی خرافات کو 2002میں ایک نئی پاور پالیسی کے ذریعے کرنے اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کی بجائے مقامی سرمایہ کاروں کو ذہن میں رکھ کر ترتیب دینے کی کوشش کی گئی۔ اس پالیسی کا مقصد تو زر مبادلہ بچانا تھا مگر اس کے تحت لگائے جانے والے 12پاور پلانٹس کی تنصیب سے قبل اس وقت کی حکومت نے مقامی سرمایہ کاروں کے اس اصرارپر کہ ان کے ساتھ سوتیلے پن کا سلوک کیوں کیا جا رہا ہے، انہیں وہی مراعات دے دیں جو 1994کی پالیسی میں غیر ملکی سرمایہ کاروں کو دی گئی تھیں۔ تب کہا یہ گیا کہ چونکہ ان بجلی کے کارخانوں کے لئے زیادہ تر قرضہ جات غیر ملکی اداروں سے لئے گئے ہیں اس لئے ویسی ہی مراعات دی جائیں۔ اس بات کو مان لیا جائے تو بھی دس سے بارہ سال میں غیر ملکی قرض ادا ہونے کے بعد شرائط کو بدلنا چاہئے تھامگر ایسا نہ ہوا۔ ان آئی پی پیز میں بھی 1994والے آئی پی پیز کی طرح اوور انوائسنگ کی گئی اوریہ 12پاور پلانٹس بھی اس وقت زیادہ تر بند ہونے کے باوجود کپیسئی چارجزوصول کررہے ہیں اور شنید ہے کہ تمام آئی پی پیز نے اپنی پلانٹ efficiency کم لکھوائی ہوئی ہے جس سے ایندھن میں بھی خوردبرد ہوتا ہے اور آئی پی پیز وہ نفع کماتے ہیں جو نہیں بنتا ہے۔
یاد رہنا چاہئے کہ آئی پی پیز کا کاروبار حکومت کی جانب سے ریگولیٹ کیا جاتا ہے اور اسپانسرز کا حق صرف ان کے 20 فیصد سرمائے پر منافع کی حد تک ہے۔ اس کے علاوہ ان پاور پلانٹس کے تمام تر اخراجات کو Pass through items کہا جاتا ہے جن میں مشینوں کا آپریشن اور دیکھ بھال (O&M)،انشورنس، ایندھن کا خرچہ اور ورکنگ کیپیٹل کے اخراجات شامل ہیں جن کی ادائیگی حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے۔بجلی کے کارخانے جھوٹ موٹ کی لاگت دکھا کر 50 فیصد خود رکھ لیتے ہیں جبکہ اوور انوائسنگ کے سبب ایک خیالی سرمایہ کاری پہ 18 فیصد تک ڈالروں کی شکل میں منافع لے رہے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ باہر سے جوقرض لیا ہے اس میں سے بھی کچھ حصہ انہیں ملتا ہے۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ابتدا میں حکومت نے ان پاور پلانٹس کی O&M کے معاہدے بھی ان کمپنیوں سے کیے تھے جنھوں نے پلانٹس کی مشینری سپلانی کی تھی لیکن ان آئی پی پیز کے مالکان نے حکومتی اداروں کے ساتھ ساز باز کرکے اس میں تبدیلی کروالی اور اب پاور پلانٹس کی O&M بھی خود کرتے ہیں اور جھوٹ موٹ کی لاگت دکھا دیتے ہیں۔ایندھن کی خریداری میں بھی ہیرا پھیری ہوتی ہے اور یوں منافع کی مد میں 18 فیصد کی بجائے 100 فیصد تک غیر قانونی منافع کما لیتے ہیں۔ یہی کچھ 2013 اور 2015 کی پالیسیوں کے شمسی توانائی اور کوئلے سے چلنے والے پراجیکٹس میں بھی ہوا ہے۔
ملک میں لگائے جانے والے کل آئی پی پیز میں سے 51 فیصد خود حکومتی تحویل میں ہیں لیکن حکومت نے نجی ملکیت میں چلنے والے آئی پی پیز والا وتیرہ ہی اپنا لیا ہے۔ ان پاور پلانٹس کو بھی بین الاقوامی قرضوں کے عوض لگایا گیا حالانکہ اگر حکومت ملکی بجٹ کے پیسوں سے لگاتی تو بجلی کی قیمت کم رہتی۔
حکومت کو چاہئے کہ سب سے پہلے اپنی تحویل میں چلنے والے سرکاری آئی پی پیز پر جو منافع کما رہی ہے اسے فی الفور ختم کرے اور ان کے لگانے کے لئے جو قرضے لئے گئے ہیں انہیں بجائے صارفین کی جیبوں سے نکالنے کے National Debtکا حصہ بنا لیا جائے۔
نجی ملکیت والے آئی پی پیز کا فرانزک آڈٹ کروا یا جائے۔جو فالتو پیسہ وہ لے چکے ہیں،واپس لیا جائے۔ ان کی غیر قانونی مراعات ختم کی جائیں اور انہیں Take or pay سے بدل کرTake and pay کے اصول پر بجلی کی فراہمی کا پابند کیا جائے۔ اس فراڈ کو ختم کرنے سے بجلی کے صارفین کو یقینا اوسطاً 25 روپے فی یونٹ بجلی دستیاب ہوگی۔