سٹریٹ فائٹرکی ان کہی داستان، قسط نمبر 56
میرے دور کے عظیم کھلاڑی
جب مقابلہ زوروں پر ہو اور جذبات میں ہیجان برپا ہو تو آپ اکثر اپنے مخالف کی خوبیوں کو صحیح طور پر پرکھ نہیں پاتے کیونکہ اس وقت خود آپ اپنی ٹیم کی طرف سے ایڑھی چوٹی کا زور لگا رہے ہوتے ہیں۔اس وقت وہ بیٹسمین جسے آپ آؤٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اپنی تمام تر خوبیوں کے باوجود آپ کو زہر لگتا ہے اور وہ باؤلر بھی آپ کو ایک آنکھ نہیں بھاتا جس کی ناپاک نظریں آپ کی وکٹوں پر ہوتی ہیں۔جب میں پیچھے کی طرف نظر دوڑاتا ہوں اور ان عظیم کھلاڑیوں کو یاد کرتا ہوں جن کے ساتھ میں کھیلا ہوں تو یہ حقیقت میرے لئے بڑی طمانیت کا باعث ہوتی ہے کہ میں نے بسا اوقات کھلاڑیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے۔تو آئیے میں آپ کی ملاقات ان سے کراتا ہوں۔
قسط نمبر 55 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
عمران خان
عمران ایک عظیم کپتان بھی تھے اور ورلڈ کلاس کرکٹر بھی۔ان تمام کپتانوں میں جن کی قیادت میں مجھے کھیلنے کا موقع ملا وہ عظیم تر تھے۔جس کے کئی اسباب ہیں۔کس وقت کون سی حکمت عملی کارگر رہے گی انہیں اس سے بخوبی واقفیت تھی۔ ان کا رویہ مثبت تھا۔ان کی قیادت انسپائر کرتی تھی اور وہ اپنے تمام کھلاڑیوں میں سے میچ وننگ پرفارمنس نکال لاتے تھے۔ان میں ایک بہت اچھے آل راؤنڈر کی خوبیاں بدرجہ اتم موجود تھیں۔وہ ایسے بیٹسمینوں کو جو مشکل وقت میں آؤٹ ہو کر آجائیں آڑے ہاتھوں لیتے تھے۔ ہم میں سے بیشتر جب آؤٹ ہو کر واپس جاتے تھے تو خوف سے تھر تھر کانپ رہے ہوتے تھے یہ سوچ سوچ کر کہ ڈریسنگ روم میں عمران خان ہمارا انتظار کررہے ہوں گے پھر وہ آگ برساتی نظروں سے ہمیں دیکھتے اور دور سے چیختے۔آخر تم کو کیا ہو گیا تھا؟
وہ کہا کرتے تھے’’وسیم کو ذرا دیکھو یہ مجھ سے زیادہ ذہین ہے‘‘وہ کہتے ہی نہیں تھے بلکہ اس بات پر یقین بھی رکھتے تھے۔ ان لوگوں کے لئے جن کو عمران بڑے الگ تھلگ اور اپنی ذات میں مگن نظر آتے تھے۔وہ حیرت انگیز طور پر اپنی باؤلنگ کے بارے میں بڑے شرمیلے تھے۔انہوں نے ستر کی دہائی کے وسط میں اچانک اپنا ایکشن تبدیل کر ڈالا تھا کہ انہیں محض ایک ایسا باؤلر نہ سمجھا جائے جو صرف ان سوئنگر گیندیں ہی پھینک سکتا ہے اور ان کی بعد کی کامیابیاں،ان کی سخت محنت کی مرہون منت تھیں۔میں سمجھتا ہوں کہ وقار یونس اور خود میں شاید عمران سے زیادہ ذہین فاسٹ باولرز ہیں کیونکہ ہم میں زیادہ ورائٹی اور رفتار ہے۔آپ نے شاذونادر ہی عمران کی نئی گیند کے ساتھ آؤٹ سوئنگر پھینکتے دیکھا ہو گا اس کی بجائے ان کا دارومدار ان سوئنگر یا لیگ کٹرپر ہوتا تھا جس کے لئے وہ اپنی انگلیاں گیند کے گرد لپیٹتے اور اسے اتنے زور سے پھینکتے کہ وہ دائیں ہاتھ سے بیٹنگ کرنے والے کھلاڑی کے بیٹ سے دور چلی جاتی۔ وہ اپنی دھن میں مگن باؤلنگ کراتے رہے اور اس کا سہرہ ان کی زبردست فٹنس اور پروفیشنلزم کے سر ہے۔بعد کے دور میں ان کی بیٹنگ بہتر سے بہتر ہوتی چلی گئی۔ عمران چوتھے یا پانچویں نمبر کے مستند بیٹسمین تھے اور یہ بات اس لحاظ سے چونکا دینے والی تھی کہ یہ بیٹسمین 362ٹیسٹ وکٹیں لے چکا تھا اور صرف چار باؤلرز دنیا کے اس سے آگے تھے۔کپتانی نے انہیں اور بہتر بیٹسمین بنا دیا کیونکہ اب وہ دوسروں کے لئے مثال قائم کرنے لگ لیکن ایک بیٹسمین کی حیثیت سے ان کی کامیابی کی کنجی ان کی ذہنی قوت تھی۔وہ بڑا لئے دیئے رکھنے والے مغرور اور ڈٹ جانے والے کھلاڑی تھے۔وقار اور میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا۔خاص طور پر جیتنے کی اشد خواہش اور یہ عقیدہ کہ ہم دنیا کی بڑی سے بڑی ٹیم کو مات دے سکتے ہیں۔
عمران کا مقام زبردست تھا کہ یہ بات ناقابل تصور ہے کہ ان کی کپتانی ان سے واپس لے لی جائے اور یہ ایک اچھا بیان لگتا ہے جب آپ کو وہ ڈرامے یاد آتے ہیں جو ہم پاکستان کرکٹ میں دیکھتے رہے ہیں۔وہ واحد کپتان تھے جو جب بھی ان کی مرضی ہوتی یہ ذمہ داری سنبھال لیتے اور جب چاہتے کپتانی چھوڑ دیتے۔ سچی بات ہے عمران کو یہ انداز دکھانے کا پورا پورا حق تھا۔ کیونکہ وہ اپنی واحد ذات میں پوری ٹیم تھے۔
جاری ہے۔ آخری قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
دنیائے کرکٹ میں تہلکہ مچانے والے بائیں بازو کے باؤلروسیم اکرم نے تاریخ ساز کرکٹ کھیل کر اسے خیرباد کہا مگرکرکٹ کے میدان سے اپنی وابستگی پھریوں برقرار رکھی کہ آج وہ ٹی وی سکرین اور مائیک کے شہہ سوار ہیں۔وسیم اکرم نے سٹریٹ فائٹر کی حیثیت میں لاہور کی ایک گلی سے کرکٹ کا آغاز کیا تو یہ ان کی غربت کا زمانہ تھا ۔انہوں نے اپنے جنون کی طاقت سے کرکٹ میں اپنا لوہا منوایااور اپنے ماضی کو کہیں بہت دور چھوڑ آئے۔انہوں نے کرکٹ میں عزت بھی کمائی اور بدنامی بھی لیکن دنیائے کرکٹ میں انکی تابناکی کا ستارہ تاحال جلوہ گر ہے۔روزنامہ پاکستان اس فسوں کار کرکٹر کی ابتدائی اور مشقت آمیز زندگی کی ان کہی داستان کو یہاں پیش کررہا ہے۔