سیاسی  توازن  اور گڈ گورننس  (سترھواں حصہ)

سیاسی  توازن  اور گڈ گورننس  (سترھواں حصہ)
سیاسی  توازن  اور گڈ گورننس  (سترھواں حصہ)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

سابق سی۔آئی۔ اے چیف  اور  یو۔ایس سیکریٹری آف سٹیٹ مائیک پمپیو  اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ چار برس قبل جب وہ ہنوئی ویتنام میں نارتھ کوریا  مذاکرات کے سلسلے میں موجود  تھے۔تب انڈیا نے پاکستان میں ائیر سٹرائیکز کی اور ان کا پائلٹ پکڑا گیا تو انکے سورسز نے انکو  بتا یا کہ پاکستان نیوکلیئر سٹرائیک الرٹ کررہا ہے۔ اور  انڈیا اس کے جواب میں تیاری کررہا ہے۔ مائیک  پمپیو لکھتے ہیں کہ میں ایک ایسے بند کمرے میں چلا گیا جو کسی بھی انٹرفرنس سے محفوظ تھا۔ یعنی موصوف کی انٹرنیشنل کمیونیکیشن ہیک نہیں کی جا سکتی تھی۔ بقول مائیک  پمپیو کے انہوں نے بھارتی وزیر خارجہ سشمہ سوراج سے رابطہ کیا اور ان کو کہا کہ جلد بازی نہیں کریں اور ان کو کچھ گھنٹے کا وقت دیں۔ مائیک پمپیو لکھتے ہیں کہ انہیں معلوم تھا کہ بھارت انکے لیے کتنا اہم ہے۔ چنانچہ بقول مائیک پمپیو انہوں فیصلہ کیا کہ پاکستان کے اصل لیڈر سے بات کی جاے۔ مائیک  پمپیو کے بقول پاکستان کے اصل لیڈر پاکستان کے آرمی چیف تھے۔ چنانچہ انہوں نے آرمی چیف سے بات کی اور  انہیں یقین دلایا کہ بھارت  نیوکلئیر سٹرائیک نہیں کرے گا اور وہ بھارت سے رابطے میں ہیں۔ اور یوں نیوکلئیر  ایسکلیشن کا خطرہ ٹل گیا۔  
 ایک ریٹائیرڈ  امریکی ایڈمرل کے بقول ساوتھ چائنا سی میں امریکی نیوی کو پتہ چلا کہ چین کی ایک مچھلی پکڑنے والی کشتی ڈوب رہی ہے اور اسے بچانا ہے۔ امریکن نیوی کریو موقع پر پہنچا  اور کشتی کو  بچالیا گیا۔ امریکن نیوی کو ایک الیکٹرانک کٹ یا باکس ملا جو  انہیں بڑا دلچسپ لگا۔ اتنے میں چین کے حکام نے امریکن نیوی کو کہا وہ  فوراً کشتی انکے حوالے کردیں۔ ایڈمرل لکھتے ہیں کہ اس طرح کی درخواست پر امریکہ دیر لگانے کا عادی ہے۔ اتنے میں پتہ چلا کہ انکے چاروں اطراف چین کے بحری جنگی جہاز آموجود ہیں۔اور انہیں پتہ بھی نہیں چلا ہے۔ یعنی انکے سارے الیکٹرانکس آلات جام ہوچکے تھے۔بقول  ایڈمرل موصوف کہ سپر پاور کی نیوی کو ٹیکنالوجی کی دوڑ میں خود کو کم تر سمجھتے ہوے کس قدر شرمندگی محسوس ہوئی بتا یانہیں جا سکتا۔
ہر  دور میں ٹیکنالوجی بریک تھرو گیم چینجر ثابت ہوتی رہی ہے۔ تاریخ میں کئی سے بھی شروع کریں۔ اقوام کے درمیان طویل جنگوں میں یا  سرد جنگوں میں ٹیکنالوجی بھریک تھرو  فیصلہ کن رہا ہے۔ یا اسکو  ریسرچ یا سائنس کہہ دیں۔ برسوں پہلے ہم نے ایک غیر ملکی پروفیسر  صاحب سے پوچھا کہ یہ یونیورسٹیز کی رینکنگ کی کیا  پیرامیٹرز ہیں؟ میں نے مزاقاً موصوف سے یہ بھی عرض کی کہ میں کچھ یونیورسٹیز کو  جانتا ہوں بڑے بڑے کیمپسیس ہیں۔ سٹیٹ آف دی آرٹ بلڈنگز ہیں۔ لیبارٹریز بھی ہیں۔آلات اور  اوزار بھی نظر آتے ہیں۔ بعض  یونیورسٹیز کی کیمپسیس دیکھ کہ لگتا ہے ان کا ضرور عالمی رینکینگ میں کوئی نمبر ہوگا۔ تو پروفیسر صاحب نے بتایا کہ بہت سے پیرامیٹرز ہیں رینکنگ کے۔ لب لباب یہ تھا کہ تحقیق  اور تخلیق اہم ستون ہے رینکنگ کا۔ نظام تعلیم میں تخلیق یعنی کری ایشن مائینڈ سیٹ تعمیر کرنے کے لیے اساتذہ کو طلبا سے زیادہ محنت کرنی ہوتی ہے۔
 ایم۔آئی۔ٹی کے ایک پروفیسر صاحب نے اپنے  ہال سے بھرے ہوے سامعین سے پوچھا کہ آپ  میرا مکالہ سننے کے لیے یہاں کیوں جمع ہوے ہیں؟ کچھ نے جواب دیا کہ آپ  ایم۔آئی۔ٹی کے پروفیسر ہیں اس لیے۔ پروفیسر موصوف نے جواب دیا کہ یہ جواب پورا  نہیں ہے۔ آپ میرے پاس اس لیے جمع ہوے ہیں کہ میں یا میری  یونیورسٹی آنیوالی ٹیکنالوجی بھریک تھرو  پر بیٹھے ہوے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ہم ایک ٹیکنالوجی کا آپ کو بتاتے ہیں۔ الیکٹرک گاڑیاں آرہی ہیں۔ یہ بات پروفیسر صاحب نے دو عشرے پہلے بتائی تھی۔ آج  ناروے میں تیل سے چلنے والی گاڑیاں تقریباً غائب ہوچکی ہیں۔ ہر طرف الیکٹرک  چارجر  انسٹال ہیں۔ پٹرول پمپ غائب ہیں۔گمان ہے کہ باقی  ویسٹرن یا  ترقی یافتہ دنیا  میں ایسا ہی ٹرینڈ ہوگا۔
  جس طرح دو  ڈھائی عشرے پہلے کسی کے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ انٹرنیٹ کیا چیز ہے؟اسی طرح اب آرٹی فیشل جنرل انٹلی جنس کی بات ہورہی ہے۔ اس  مذکورہ  اصطلاح کے بارے میں متعلقہ فیلڈ کے مصروف کار ٹیکنالوجسٹ ہی بہتر بتا سکتے ہیں۔ لیکن معلوم یہی پڑا ہے کہ آمریکہ کو بہت تشویش ہے کہ چین اس ٹیکنالوجی کو پہلے استعمال کرنا سیکھ لے گا  اور اس ٹیکنالوجی کو اگر ہتھیاورں کی دوڑ میں استعمال کیا گا تو نتائیج مکمل طور پر سرپرائیزنگ ہوسکتے ہیں۔ امریکی مبصرین نے جو بائیڈن کو مشورہ دیا کہ بین الاقوامی معاہدے کے ذریعے اس ٹیکنالوجی کو ہتھیاروں کی دوڑ سے دور  رکھا جاے۔ لیکن کچھ مبصرین کے خیال میں چین اور  روس ان معاہدوں کو  بائی پاس کرسکتے ہیں۔ اب یہ ٹیکنالوجی ہتھیاروں کی دوڑ کو کیا رنگ دے گی۔ وقت ہی بتاے گا۔ قیاس آرائیوں سے لگتا ہے۔ مشینیں انسانوں کے قریب ترین سوچنے سمجھنے لگیں گی۔ جس طرح آج انسان نے پٹس پال رکھے ہوے ہیں۔ اسی طرح مشینیں انسانوں کو پٹس کی طرح پالتو رکھیں گی۔ ویسٹ والوں کی وائٹ کالرز  جابز  اڑ جائیں گی۔
انڈیا کے ایک کامیڈی شو میں ایک مشہور امریکی ایکٹر جو ہانگ کانگ میں پیدا ہوے اور  چائینز نسل کے ہیں تشریف فرما ہیں اور  وہ  انڈین کامیڈین  زور دے رہا ہے کہ انڈیا چھا گیا ہے۔ دیکھیں انڈین کلچر، کتنا  رنگا رنگ ہے۔ انڈیا کی کیا بات ہے۔ اسی دوران ایک گلدستہ  لاکر موصوف ایکٹر کے سامنے رکھا جاتاہے۔ ایکٹر موصوف نے پھول نکال کر ایک طرف رکھا اور وہ گلدان الٹ دیا۔ کامیڈین کو کہا گلدان کے نیچے پڑھو۔ وہاں لکھا تھا میڈ  ان چائنا۔ گزشتہ چودہ  برس میں چین نے بہت سے ممالک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے دو سو چودہ بلین ڈالر خرچ کیے ہیں۔ ان میں پاکستان،  سری  لنکا،  ارجنٹائن  یوکرین کو  ملا کر بائیس ممالک شامل ہیں۔ 
ٓاللہ ہمارا  حامی  اور  ناصر  ہو۔

۔

نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں

'

 اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔

مزید :

بلاگ -