درِتوبہ ہر وقت کھلا ہے!

یہ پیدا کرنے والے کا احسان تھا اورہے کہ اس سال رمضان المبارک کے مہینے میں موسم بہتر رہا اور روزہ داروں کو سہولت ہوئی کہ گرمی کی شدت سے بچے اور پیاس کی طلب سے بھی محفوظ رہے۔ میرے جیسے اور بھی بوڑھے اللہ کا شکر بجا لائے کہ پیشہ ورانہ مصروفیات کے ساتھ روزے بھی مکمل کئے اور پھر شکر بھی ادا کیا، تاہم عیدالفطر کے بعد سے موسمی تغیر شروع ہو چکا اور آج حالات یہ ہیں کہ لاہور کے لئے بھی ہیٹ ویو کا الرٹ جاری کیا گیا اور احتیاطی تدابیر سے آگاہی دی گئی ہے، یہ الرٹ لاہور تک ہی محدود نہیں بلکہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے بھی الرٹ جاری کیا گیا ہے۔ حالانکہ کوئٹہ کا درجہ حرارت لاہور کی نسبت ہمیشہ بہتر رہا ہے، گزشتہ برسوں سے موسم میں تبدیلی کا یہ عنصر شامل رہا کہ سردی کی مدت میں کمی اور گرمی میں اضافہ ہوا، حتیٰ کہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ درمیانہ موسم کہیں گم ہو گیا کہ سردی ختم ہوتی ہے تو بہار کے دن کم پڑ جاتے ہیں اور یکا یک درجہ حرارت بڑھتا اور گرمی شروع ہو جاتی ہے، اسی طرح جب گرمی رخصت ہو رہی ہوتی ہے تو ماضی کی طرح بتدریج تبدیلی نہیں ہوتی۔ یکایک ہی درجہ حرارت گر جاتا ہے۔ یوں ہمارے ملک خصوصاً پنجاب میں خوشگوار موسم خواب ہو کر رہ گیا ہے اب تو کپڑے بھی بے موسمی ہو گئے ہیں۔ ایک دور تھا جب گرمیوں اور سردیوں کے پہناوے سے قبل خاصا وقت درمیانے موسم اور اس لحاظ سے پارچات سے گزرتا تھا، اب حالات یہ ہیں کہ یہ موسم ہی نہیں آتا تو کپڑے پہننا چہ معنی دارد، شاید یہی وجہ ہے کہ اب جین کے فیشن میں بھی کوئی برائی نظر نہیں آتی اور اسے فیشن کے طور پر قبول کرلیا گیا ہے۔
یہ سب تمہید سی ہے کہ بات کہنے کے لئے پس منظر لازم ہے۔ موسم کی اس بدلتی کیفیت اور درجہ حرارت میں اضافے کے حوالے سے ماہرین کا موقف ہے کہ یہ سب آلودگی کے باعث ہے جس کی وجہ مختلف گیسوں کا اخراج بھی ہے۔ انہی سائنسدانوں نے جب یہ نتیجہ اخذ کیا تو اس وقت تاخیر ہو چکی تھی اور خود انہی ماہرین کے بقول اوزان کی سطح میں سوراخ ہو چکا تھا جو سورج کی تپش اور زمین کے درمیان ایک قدرتی دیوار ہے اور درجہ حرارت کو متوازن رکھے ہوئے تھے۔ اس میں نہ صرف سوراخ ہوا بلکہ اس زمانہ کے حوالے سے اضافہ بھی ہوتا رہا ہے اور اب اور بھی خطرہ ہے ہمارے سائنس دان حضرات نے اس اضافے کو روکنے ہی کے لئے حفاظتی تدابیر بنائی ہیں اور ان پر عمل کے لئے کہا ہے ان تدابیر کے مطابق آلودگی اور گیسوں کے اخراج پر قابو پانا ہے چنانچہ فیول کی ہیئت تبدیل کی جا رہی ہے۔ پٹرولیم کی جگہ الیکٹرونک ٹرانسپورٹ مقبول ہو رہی ہے اس کے باوجود انسان حالات پر قابو نہیں پا سکا اور درجہ حرارت مسلسل بڑھ رہا ہے کہ صدیوں کی ایجاد جلدی تبدیل نہیں ہوتی اور اب نتائج بھی سامنے ہیں۔
یہ سب تو ہماری سائنس اور دنیاوی علم کے مطابق ہے لیکن حقائق یہ ہیں کہ جدید سے جدید تر ممالک بھی طوفانوں، زلزلوں، گلیشیئرز کے پگھلنے اور درجہ حرارت میں اضافے پر قابو نہیں پا سکے۔ اب بھی دنیا کے مختلف حصوں میں حادثات سے نقصان ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ انسان یہ بتانے پر تو بڑی حد تک قادر ہو گیا ہے کہ موسم کی حالت کیا ہوگی(اگرچہ سوفیصد پھر بھی نہیں) لیکن کسی سیلاب طوفان یا زلز لے کی شدت ماپنے کے سوا اسے روکنے کے لئے کچھ نہیں کر سکتا، انہی اسباب کی بناء پر میری توجہ اپنے رب اور اس کے بھیجے گئے، بنیادی اور پیغمبر آخرالزمان حضرت محمد ؐ کی تعلیمات اور حالات کی طرف جاتی ہے، خصوصی طور پر سردارو تاج ختم نبوتؐ کے ارشادات اور احکام واضح ہیں، ان کی طرف سے آگاہ کیاگیا ہوا ہے اور یہ سب زندگی رب کی رضا کے مطابق ہے جسے قیامت کی نشانیاں کہا جاتا ہے، آگاہی کے مطابق اس دنیا میں جو کچھ بھی ہے اسے فنا ہونا ہے اور صرف اللہ کی ذات بابرکات ہی باقی رہے گی۔
دکھ تو یہ ہے کہ انسان تو کجا ہم اللہ اور رسولؐ اکرم کے ماننے والے بھی ایسی آگاہی کو نظر انداز کرتے ہیں اور اس عمل کو قریب لانے میں معاون بنے ہوئے ہیں، ہماری بے عملی ہمیں اغیار سے مرعوب کئے ہوئے ہے۔ حالانکہ احکام خداوندی تو پوری انسانیت کے لئے ہیں،ہم مسلمانوں کو تو یقین و اعتماد کے ساتھ خبردار ہونا چاہیے اور میرے اعمال کو ترک کرکے دین کے احکام پر عمل پیرا ہونا چاہیے لیکن دکھ یہ ہے کہ ایسا نہیں ہو رہا اور ہم مسلمان ہی زیادہ پریشانیوں کاشکار ہو رہے ہیں، میں نے جو بھی عرض کیا یہ تحریر ہے اور ہمارے ساتھ ایسا ہو رہا ہے۔ دنیا میں حالات ایسے بن چکے اور سن رہے ہیں کہ اس کرۂ ارض کے آخری دن قریب تر ہو رہے ہیں، اگر ہم یقین کامل والے ہوتے تو آج ہم جن مسائل و مصائب کا شکار ہیں، ان کا سامنا بھی نہ ہوتا اور نہ ہی اغیارسے دبتے۔
عرض یہ کرنا ہے کہ ایک دور تھا، جب مسلمان انجینئر ابو صلت نے سب سے پہلے ڈوبے جہازوں کو نکالنے والی کرین ایجاد کی اور وہ خلاء میں رسائی رکھنے کے بھی اہل ہو گئے تھے۔ آج ہماری بے عملی کے باعث اغیار سیاروں کی تلاش میں ہیں اور ہم جوستاروں پر کمندیں ڈالتے تھے ان کے محتاج ہو کر رہ گئے۔ بہرحال گزشتہ روز کے تسلسل میں یہ عرض کروں گا کہ ہمیں قرآن میں غور کرنا اور تعلیمات محمدؐی پر عمل کرنا ہوگا اور جن کاموں سے منع کیا گیا ان سے گریز کرنا ہوگا کہ حضورؐ کے فرامین پورے ہوتے نظر آ رہے ہیں اور ہم خود بے عملی سے دجال کی آمد کو قریب لا رہے ہیں کہ منی دجالوں کے سامنے سر تسلیم خم کرکے حقیقی راہ سے بھٹک چکے ہیں،
ہمیں واپس آنا ہوگا وگرنہ انجام تو واضح ہے۔میں بصد ادب یہ عرض کرنے پر مجبور ہوں کہ ہمارے سیاسی رہنما دو عملی ہی نہیں سہ عملی سے بھی زیادہ کے شکار ہیں اور یہ 1958بھول گئے ہیں،اگرچہ نوابزادہ صاحب کہا کرتے تھے کہ یہاں جمہوریت کو چلنے نہیں دیا گیا،مگر آج کے حالات تو ظاہر کرتے ہیں کہ ہم خود ہی جمہوریت کے دشمن ہیں کہ ہمارے اندر جمہوری روح ہی نہیں ہے،ہماری سیاسی جماعتیں جس روش پر گامزن ہیں یہ سب مجھے اسی دور کی یاد دلاتا ہے،پہلے ان کو توبہ کرنا ہو گی اور اس کا مظاہرہ یہ قومی اتفاق رائے سے دے سکتے ہیں۔