”تم پاکستان کے اُصول کو تسلیم کرو....تفصیلات بعدمیں طے ہو جائیں گی“ قائدعظم محمد علی جناحؒ کانہایت جامع اور مختصر بیا ن

 ”تم پاکستان کے اُصول کو تسلیم کرو....تفصیلات بعدمیں طے ہو جائیں ...
  ”تم پاکستان کے اُصول کو تسلیم کرو....تفصیلات بعدمیں طے ہو جائیں گی“ قائدعظم محمد علی جناحؒ کانہایت جامع اور مختصر بیا ن

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تحریر : ڈاکٹر پروفیسر ایم اے صوفی

قسط:3

مسلم ثقافت کے خلاف اقدامات:
 ہندو اکثریت کے 6صوبوں میں کانگریسی حکومتیں قائم ہو گئیں۔ کانگریس نے اقتدار سنبھالتے ہی مسلمانوں کی تہذیب و ثقافت کو مٹانے کے لیے اقدامات شروع کر دیئے۔ اُردو زبان کو ختم کرنے کے لیے سکولوں میں ہندی کو لازمی مضمون قرار دے دیا گیا۔ مسلمانوں کے لیے ایک دل آزارگیت”بندے ماترم“کو قومی ترانہ قرار دے دیا۔واردھا تعلیمی سکیم نافذ کردی گئی اور سکولوں میں بچوں کو گاندھی کی تصویر کے آگے پرارتھنا کرنے (جھکنے)پرمجبور کیا جاتا۔مذہبی تعلیم کو نصاب سے خارج کردیا گیا۔
مسلمانوں پر مظالم:
 علاوہ ازیں کانگریسی حکومتوں نے مسلمانوں پر بے پناہ مظالم روارکھے۔جن کی تفصیلات”پیرپور رپورٹ“ ،”شریعت رپورٹ“ ،”سی پی کاکانگریس راج“ اور مولوی فضل حق کی تصنیف ”یہ پھر کبھی نہیں ہوگا“ میں درج ہیں۔
کانگریسی راج کا خاتمہ:
 1939ءمیں دوسری جنگ عظیم کے آغاز پر کانگریس نے حکومت برطانیہ سے تعاون کے عوض اس امر کی یقین دہانی چاہی کہ برطانوی حکومت نے یہ مطالبہ تسلیم نہ کیا تو 22اکتوبر1939ءکو کانگریسی وزارتوں نے احتجاجاً استعفیٰ دے دیا۔تب مسلمانوں کو ظلم و ستم سے چھٹکارا مِلا۔قائداعظم محمد علی جناحؒ کی اپیل پر مسلمانوں نے22دسمبر1939ءکو یوم نجات منایا۔
 ہندوستان میں مسئلہ نوعیت کے اعتبار سے مختلف فرقوں کے درمیان نہیں بلکہ واضح طور پر مختلف قوموں کے درمیان ہے اور اس سے اسی طرح عہدہ برآ ہونا چاہیے۔اگر برطانوی حکومت حقیقتاً اس برصغیر کے لوگوں کے لیے سنجیدگی اور خلوص کے ساتھ امن و امان اور مسرت و شادمانی کی خواہاں ہے تو ہم سب کے لیے صرف ایک ہی راستہ کھلا ہے کہ ہندوستان کو خودمختار قومی مملکتوں میں تقسیم کردیا جائے اور بڑی بڑی قوموں کو الگ الگ وطن دے دیئے جائیں۔
 یہ سمجھنا انتہائی دشوار نظر آتا ہے کہ آخر ہمارے ہندودوست اسلام اور ہندومت کی اصل فطرت اور نوعیت کو کیوںنہیں سمجھتے ۔ مذہب کا لفظ جن معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ اس میں اسلام اور ہندومت محض ان معنوں میں مذہب نہیں ہیں بلکہ حقیقتاًایک دوسرے سے مختلف اور جدا گانہ سماجی نظام ہیں اور یہ تصور کہ ہندو اور مسلمان کبھی بھی ایک مشترکہ قومیت کی تخلیق کرسکیں گے محض ایک خواب ہے۔ یہ غلط تصور کہ ہندوستانی ایک قوم ہیں۔ اپنی حدوں سے بہت زیادہ تجاوز کرچکا ہے اور ہماری بیشتر مشکلات کا یہی اصل سبب ہے۔اگر ہم نے اپنے ان تصورات و نظریات کا بروقت از سرنو جائزہ نہ لیا تو ہندوستان تباہ ہو جائے گا۔ہندو اور مسلمان دو مختلف مذہبی فلسفوں،سماجی رسوم و روایات اور ادب سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ نہ تو باہم شادیاں کرتے ہیں اور نہ ہی ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر کھاتے پیتے ہیں۔ حقیقتاً وہ دو مختلف تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ جن کی بنیادبیشتر متصادم تصورات اور نظریات پر ہے۔ خودزندگی اور زندگی کے بارے میں ان کے تصورات بالکل مختلف ہیں۔
 مسلم ہندوستان کسی ایسے آئین کو تسلیم نہیں کرسکتا جس کے نتیجہ میں لازماً ہندو اکثریت کی حکومت قائم ہو۔ ہندوﺅں اور مسلمانوں کو ایک جمہوری نظام کے تحت جو اقلیتوں پر جبراً مسلط کیا گیا ہو یکجا رکھنے کا مطلب صرف ہندوراج ہے۔ کانگریس ہائی کمان جس قسم کی جمہوریت کی گرویدہ ہے اس کا نتیجہ اسلام کی ایک انتہائی قیمتی متاع کی مکمل تباہی کی صورت میں نکلے گا۔
 مسلمان اقلیت نہیں جیساکہ عام طور پر سمجھا جاتاہے۔اس کے لیے آپ کو صرف گردوپیش پر نظر ڈالنا ہوگی۔ آج بھی ہندوستان کے برطانوی نقشوں کے مطابق 11 صوبوں میں سے 4 صوبے جہاں کم و بیش مسلمانوں کی اکثریت ہے،ہندو کانگریس ہائی کمان کے عدم تعاون اور سول نافرمانی کے فیصلے کے باوجود معمول کے مطابق کام کررہے ہیں۔قوم کی خواہ کوئی بھی تعریف کی جائے مسلمان اس تعریف کے مطابق ایک قوم ہیں اور ان کا اپنا وطن، انکااپنا علاقہ اور ان کی اپنی مملکت ضرور ہونی چاہیے۔ہم ایک آزاد خودمختار قوم کی حیثیت سے اپنے پڑوسیوں کے ساتھ امن و اتفاق کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔
 لہٰذا دوستو! میں چاہتا ہوں کہ آپ قطعی فیصلہ کریں اور پھر طریقہ کار پر غور کریں۔ اپنی قوم کو منظم کریں، اپنی تنظیم کو مضبوط بنائیں اور سارے ہندوستان میں مسلمانوں کو متحد اور یکجا کردیں۔میرا خیال ہے کہ عوام بیدار ہو چکے ہیں۔ انہیں صرف آپ کی رہنمائی اور قیادت کی ضرورت ہے۔اسلام کے خادموں کی حیثیت سے آگے بڑھئے اور اقتصادی ، سماجی،تعلیمی اور سیاسی اعتبار سے انہیں منظم کیجئے۔ مجھے یقین ہے کہ پھر آپ ایک ایسی طاقت ہوں گے جسے ہر ایک تسلیم کرے گا۔
قرار دادپاکستان:
 22مارچ1940ءکو مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس پاکستان کے دارالحکومت لاہور میں منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں قرار داد پاکستان منظور کی گئی جو قرار داد لاہور کے نام سے بھی مشہور ہے۔ قرار داد حسب ذیل ہے:
1۔ آل انڈیا مسلم لیگ کا یہ اجلاس دستوری معاملات کے متعلق لیگ کونسل اور مجلس عاملہ کی کارروائی کی جو ان کی تجاویز مورخہ27اگست،17،18اور22اکتوبر1939اور 3فروری1940ءسے ظاہر ہے، توثیق کرتے ہوئے پوری شدت کے ساتھ اس امر کا اعادہ کرتا ہے کہ وفاقی سکیم جس کی دستور ہند بابت1935ءمیں تشریح کی گئی ہے۔اس ملک کے حالات کے اعتبار سے قطعاًناموزوں اور ناقابلِ عمل ہے اور مسلم ہندوستان کے لیے کسی طرح قابلِ قبول نہیں۔
2۔ ملک معظم کی حکومت کی جانب سے وائسرائے ہند کے اعلان مورخہ 8اکتوبر 1939 کے متعلق یہ اجلاس اپنے نقطۂ  نظر کا اظہار کرتا ہے کہ حکومت ہند کے دستور کے مطابق 1935ءکا جہاں تک تعلق ہے اس اعلان کے ذریعہ یقین دلایا گیا ہے کہ مختلف جماعتوں،فرقوں اور طبقات سے مشاورت کے بعد دستور پر نظرثانی کی جائے گی۔مسلم ہندوستان اُس وقت تک مطمئن نہ ہو سکے گاجب تک پورے دستوری خاکہ پر از سرنو غور نہ کیا جائے۔ تاوقیتکہ اس کی بابت مسلمانوں کی رضا مندی اور توثیق حاصل نہ ہو جائے کوئی غور کردہ خاکہ قابلِ قبول نہیں ہوسکتا۔
3۔ قرار پایا کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے اس اجلاس کی یہ غورکردہ رائے ہے کہ کوئی دستوری خاکہ اس ملک میں قابلِ عمل یا مسلمانوں کے لیے قابلِ قبول نہ ہوگاجب تک کہ وہ مندرجہ ذیل بنیادی اُصول کے تحت مرتب نہ کیا گیا ہو۔
 جغرافیائی حیثیت سے متصل ارضی وحدتوں کے مابین حدودقائم کر کے اُن کو جداگانہ علاقوں میں منقسم کیا گیا ہے۔لیکن ،جیسا کہ ضروری معلوم ہوتا ہے ان رقبہ جات میں جہاں بلحاظ تعداد مسلمان اکثریت میں ہیں مثلاً شمال مغربی اور ہندوستان کے مشرقی علاقوں کو آزاد ریاستوں کی حیثیت سے ایک دوسرے سے اس طرح متحد کرنا چاہیے کہ ان میں سے ہر ایک وحدت خودمختار ہو۔ 
 ان آزاد علاقوں اور خود مختار وحدتوں کے دستور میں اقلیتوں اور ان کے مذہبی، ثقافتی، معاشی، سیاسی، انتظامی اور دیگر حقوق و مفادات کی حفاظت کے لیے اُن ہی کی مشاورت سے معین اور مؤثر تحفظات مہیا کرنے چاہئیں۔
 ہندوستان کے دیگر علاقوں میں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں وہاں دستور میں اُن کے لیے مذہبی،ثقافتی،اقتصادی،سیاسی انتظامی اور دیگر حقوق و مفادات کی خودان کی مشاورت کے ذریعہ حفاظت ہو سکے۔
 یہ اجلاس مجلس کو اختیار دیتا ہے کہ مذکورہ صدر بنیادی اصول کے بموجب ایسی دستوری سکیم مرتب کرے جس میں ان مختلف مجوزہ ریاستوں کو سارے مسائل مثلاً دفاع ، خارجی معاملات،رسل و رسائل، چنگی اور دیگر ضروری امور کا اختیار دیا گیا ہو۔
 اس قرار داد کی اشاعت نے ہندوحلقوں میں تہلکہ برپا کردیا۔ہندو جماعتیں اور اخبارات مسلم لیگ کے خلاف لنگر لنگوٹ کس کر میدان میں نکل آئیں۔ہندو اپنی اکثریت کے بل بوتے پر دو صدی سے یہ خواب دیکھ رہا تھا کہ برطانیہ اختیارات حکمرانی اکثریت کو منتقل کرے گا اور اس طرح ہندوستان میں ہندو راج قائم ہو جائے گا۔وہ مغربی جمہوریت کے بوسیدہ اصولوں کے ماتحت ایسا تصور دماغوں میں لانے میں حق بجانب تھے۔ کیونکہ اس جمہوریت کی اساس ووٹوں کی اکثریت پر رکھی گئی ہے اور ہندوستان میں ہندوکی اکثریت ہے۔ اس لیے ہندو یہ سمجھنے میں حق بجانب تھا کہ جمہوریت میں اس کی اکثریت ہوگی اور وہ نظام حکومت کو اپنی مرضی اور منشاءکے مطابق چلائیں گے۔ مسلمان اقلیت میں ہونے کی وجہ سے اس جمہوری نظام کی گاڑی کو روک نہ سکیں گے۔ لیکن مسلم لیگ کی قرار داد پاکستان نے ان کی ناپاک آرزوﺅں کوختم کر کے رکھ دیا۔ کانگریسی لیڈر جنہوں نے گذشتہ نصف صدی سے نیشنلزم کا نقاب اوڑھ رکھا تھابے نقاب ہوگئے اور خوفناک فرقہ پرست بھیڑیئے بن کر سامنے آگئے۔اُن کا نیشنلزم جو عوام کے دھوکے کی ٹٹّی بنا ہوا تھاختم ہوگیا اور مسلمانوں، اچھوتوں اور ہندوستان کی دوسری اقلیتوں نے ان بہروپیوں کو ان کے اصلی رنگ میں دیکھ لیا تو کانگریس سے مختلف قسم کی آوازیں اُٹھنے لگیں۔کسی نے پاکستان کی وضاحت طلب کی،کسی نے یہ مطالبہ کیا کہ پاکستان کا حدود اربع کیاہوگا۔کوئی یہ پکارا کہ جناح انگریزوں کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے۔غرضیکہ کانگریسی نگارخانہ کی طوطیوں نے الگ الگ راگنی الاپنی شروع کردی۔
 قائدعظم محمد علی جناحؒ نے اس غوغا آرائی کے جواب میں نہایت جامع اور مختصر سا بیا ن دیا۔
 ”تم پاکستان کے اُصول کو تسلیم کرو....تفصیلات بعدمیں طے ہو جائیں گی۔“

( جاری ہے )

کتاب "مسلم لیگ اور تحریک پاکستان " سے اقتباس 

نوٹ : یہ کتاب بک ہوم نے شائع کی 

مزید :

بلاگ -