درندوں کے شکاری کی سرگزشت...قسط نمبر 55
خاصی دیر بعد بائرا،ایرک کو لے کر واپس آگیا۔پجاری نے مجھے بتایا کہ میرا دوست بہت اچھا بھگوڑا ہے۔اس کی تلاش میں اسے دو میل تک نیچے وادی میں دوڑنا پڑا تھا۔ ایرک کا کہنا تھا جب میں نے ایک جگہ پیچھے مڑ کر دیکھا تو ہم دونوں میں سے کوئی شخص بھی دکھائی نہ دیا، لامحالہ یہی نتیجہ نکالا کہ ہم خونخواہ ہاتھی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔میں نے اور تیزی سے دوڑنا شروع کر دیا۔ بائرا اس مہم سے ذرا بھی متاثر نہ ہوا۔وہ بالکل پر سکون تھا۔اس کے نزدیک اس قسم کے واقعات جنگل کی زندگی کا معمول تھے۔
صبح آنکھ کھلی تو سورج چمک رہا تھا۔ ایرک ابھی تک نیند میں مست تھا۔ اسے جھنجوڑ کر اٹھایا اور کنویں پر نہانے چل دیے۔تھوڑی دیر بعد نہا دھوکر واپس جھونپڑی میں آئے تو بائرا چائے تیار کر چکا تھا۔
ہم نے جام پر جام یایوں کہیے پیالی پر پیالی لنڈھا دی۔پھر بائرا نے پروگرام کے متعلق پوچھا۔میں نے کہا کہ سارا دن ہم تو لمبی تان کر سوئیں گے اور رات باقی ماندہ وادی میں سفر شروع کر یں گے۔ہم اس مقام پر پہنچنا چاہتے تھے جہاں پر ندی،دریائے چنار میں جاگرتی ہے۔ہمیں امید تھی کہ آدھی رات تک یہ سفر طے ہو جائے گا، پھر تھوڑے سے آرام کے عدواپسی کا سفر،دن کی روشنی میں کریں گے اور اگلی شام تک بنگلے میں پہنچ جائیں گے۔وہاں سے کار میں سوار ہو کر رات کا کھانا بنگلور میں کھائیں گے۔
درندوں کے شکاری کی سرگزشت...قسط نمبر 54 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
پجاری کو ہمارا منصوبہ کچھ اچھا نہ لگا۔ اس نے ایک گدھے کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وہ مار کھانے کے باوجود آگے بڑھنے کا نام نہیں لیتا۔ہم بھی رات کے حادثے سے کوئی سبق سیکھنے کو تیار نہیں اور اسی ہاتھی کے علاقے سے گزرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں جس کی سونڈ اور تیز دانتوں سے پہلے معجزانہ طور پر بچ نکلے تھے۔ اب تو وہ ہمیں اللہ معاف نہ کرے گا۔ بائرا کی رائے تھی، ہم سفر دن کے دو بجے شروع کریں۔اس وقت تمام جنگلی جانور قیلولے میں مصروف ہوتے ہیں اور شام پڑنے تک ہم بدروحوں کے اس علاقے سے بہت دور پہنچ جائیں گے۔اس نے اصرار کیا کہ دریائے چنار اور پھر عیور بنگلے کی طرف واپسی کے سفر میں ہمارے ساتھ جائے گا۔
ہم نے صلاح مشورہ کرکے بائرا کی تجویز قبول کرلی اور ایک بار پھر ہم سو گئے۔دوپہر کے وقت اٹھے۔کھانا کھایا، چائے پی اور ٹھیک دو بجے سفر پر نکل کھڑے ہوئے۔
آغاز ہی میں بدقسمتی کا ساتھ ہو گیا۔۔۔ہواشمالاً جنوباً چل رہی تھی۔ گویا اس کے ذریعے ہماری بوجنگلی جانوروں کو ہمارے بارے میں پہلے سے خبردار کر سکتی تھی۔اب بائرا ہمارا لیڈر تھا۔تھوڑے تھوڑے وقفے سے وہ رک کر خطرے کی بو سو نگھنے کی کوشش کرتا۔ایک بار تو یوں رکا کہ بس زمین میں گڑ گیا۔ہمارے بھی کان کھڑے ہوئے۔یکایک تھوڑی دور آگے ایک ہرن نے ہماری بو سونگھ کر خطرے کاالارم بجا دیا۔ وہ بار بار کھر!کھر!کھر کر رہا تھا۔ پہاڑوں کی ڈھلوانوں پر لنگوروں نے اس کی آواز سن لی اور چیخ و پکار شروع کر دی۔ ان کی آواز میں سخت گھبراہٹ تھی۔ایک لنگورنے بلند ترین درخت کی چوٹی سے لٹک کر اندھیرے میں گھورنا شروع کر دیا۔وہ بالکل کسی سنتری کے فرائض ادا کررہا تھا۔ بس ایک کسر تھی کہ اس نے آنکھوں سے دور بین نہیں لگائی تھی۔ وہ ہمیں نہ دیکھ سکا، کیونکہ ہم ابھی خاصے دور تھے۔
ہرن کی قوت شامہ بڑی تیز ہوتی ہے۔وہ بدستور کھر کھر کر کے خطرے کی گھنٹی بجا رہا تھا۔ اس سے لنگور خاصا پریشان ہو گیا۔اسے کوئی ایسی چیز نظر نہ آرہی تھی جس سے ڈرنے کی ضرورت ہو۔بالآخر اپنے تجسس کی تشفی کیے بغیر اس نے’’ہر!ہا!‘‘ کہہ کر اپنے ساتھیوں کو کسی موہوم خطرے سے آگاہ کر دیا۔اب کیا تھا، ایک طوفان بدتمیزی مچ گیا۔’’ہر!با!ہا!‘‘ سے وادی گونجنے لگی۔یہ شور لا حاصل ثابت نہ ہوا اور ان کا نوں تک بھی پہنچ گیا جنہیں ہم اپنی آمد کی خبر نہ دینا چاہتے تھے۔
جنگل کے شور نے ہاتھی کو مضطرب کر دیا۔ اس اثنا میں اس نے ہماری بوپالی۔ آج وہ اپنا وار خالی نہ دیکھنا چاہتا تھا، چنانچہ گھات میں کھڑا ہو گیا۔ رات کے واقعے سے ہم نے تو کوئی سبق نہ سیکھا لیکن ایک جنگلی جانور نے ضرور سیکھ لیا تھا۔
ہاتھی ہمارے بائیں ہاتھ ایک چٹان کے پیچھے چھپا ہوا تھا۔ بائرا مدتوں سے جنگل میں رہ رہا تھا۔ اس کے آباو اجداد کی ہڈیاں بھی یہیں کہیں گل سڑ رہی ہوں گی۔ یہ لوگ جنگل کی ایک ایک تبدیلی کو بھانپ لیتے ہیں مگر آج وہ بھی دھوکا کھا گیا۔ اس نے بائیں ہاتھ اس بڑی چٹان کو دیکھ کر قدم روک لیے تاکہ آگے بڑھنے سے پہلے پوری طرح اطمینان کرلے۔ ہم سب نے اس چٹان کے ایک ایک پتھر کو غور سے دیکھا۔ اس پر اگے ہوئے درختوں اور جھاڑیوں پرنظر ڈالی مگر کوئی شے نظر نہ آئی تو وہ ہاتھی تھا۔
بائرا اپنی جگہ مطمئن تھا کہ خطرے کی کوئی بات نہیں۔وہ آگے بڑھا اور ہم نے پیچھے قدم اٹھائے اچانک کانوں کے پردے پھاڑ دینے والی چنگھاڑ کے ساتھ ہاتھی، کمین گاہ سے نکل آیا۔سیاہ رنگ کا جثہ ،تھر تھر کانپ رہا تھا۔ لمبی سی سونڈ اس نے سانپ کی طرح کنڈلی مار کر لپیٹ رکھی تھی۔ منہ آدھا کھلا ہوا تھا۔ ایرک مجھ سے آگے تھا، وہ اس ہیبت ناک موذی کو دیکھتے ہی الٹے قدموں پھرا اور بھاگ کھڑا ہوا۔ میں نے بھی آؤ دیکھا نہ تاثو، اس کی پیروی کی۔بائرا نے سوچا، اگر وہ بھی ہمارے پیچھے آتا ہے تو یقیناً اسے دھرلے گا۔ چنانچہ اس نے ڈھلوان پر تیزی سے اترنا شروع کیا اور پھر وہ ندی میں کود گیا جو پگڈنڈی کے ساتھ متوازی بہہ رہی تھی۔
ڈیلی پاکستان کے یو ٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کیلئے یہاں کلک کریں
ہاتھی نے اسے زیادہ دور جانے کی مہلت نہ دی۔ مجھے بائرا کی دل دوزچیخ سنائی دی۔ ہاتھی پہلے سے زیادہ خوفناک آواز میں چنگھاڑا۔ میں شرمسار ہوں کہ بائرا کی مصیبت کو محسوس کرنے کے باوجود دوڑتا رہا لیکن میرے پاس عذر بھی ہے کہ میں نہتا تھا۔ آخر کس چیز کے ساتھ اپنایا بائرا کا دفاع کرتا۔
میں دوڑتا رہا، اپنے آپ کو بچانے کی جبلت نے مجھے ہمت عطا کی۔آخر اس جگہ پہنچ گیا جہاں سے پگڈنڈی ندی سے گزر کر کمپیکا رائے کی طرف جاتی تھی۔ ایرک مجھ سے کافی پہلے دوسرے محفوظ کنارے پر جا پہنچا تھا۔ ہم نے جلدی سے بستی کے تمام پجاریوں کو جمع کیا اور ڈونڈوں،بلیوں اور کلہاڑیوں سے مسلح ہو کر دوبارہ وادی میں گھس گئے۔(جاری ہے )
درندوں کے شکاری کی سرگزشت...قسط نمبر 56 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں