فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر328

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر328
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر328

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

رونا لیلیٰ بنگلہ دیش بن جانے کے بعد پاکستان سے چلی گئی تھیں لیکن نہ تو بنگلہ دیش کی فلمی صنعت میں اور نہ ہی بھارتی فلم انڈسٹری میں وہ کوئی نمایاں نام پیدا کرسکیں۔ بمبئی جاکر انہوں نے قسمت آزمائی کی تھی اور کچھ موسیقاروں کو ان کی آواز پسند بھی آئی تھی مگر لتا منگیشکر سے دشمنی مول لے کر کوئی فلم ساز یا موسیقار انہیں گلوکاری کا موقع دینے پر آمادہ نہ ہوسکا۔ وہ بیرونی ملکوں کے پروگراموں میں حصّہ لیتی ہیں۔

بنگلہ دیش کی فلمی صنعت نے ان کی خدمات کا فائدہ نہیں اٹھایا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ آج بھی وہی نغمے گا کر داد و تحسین اور روزی حاصل کررہی ہیں جو انہوں نے پاکستان میں گائے تھے۔ پاکستانی موسیقاروں کے ترتیب دئیے ہوئے نغمات ہی نے انہیں بطورِ گلوکارہ زندہ رکھا ہے۔ ناشاد، نثار بزمی، ماسٹر عبداللہ، روبن گھوش وغیرہ نے ان کی آواز کا جس خوبصورتی سے استعمال کیا تھا، اس طرح پاکستان چھوڑنے کے بعد کسی اور موسیقار نے انہیں نہیں نکھارا۔

وہ دوبار پاکستان بھی آچکی ہیں اور ٹیلی وژن پروگراموں میں حصّہ لیتی رہی ہیں مگر ان کے موسیقی کے سرمائے میں کوئی اضافہ دیکھنے اور سننے میں نہیں آیا۔ بمبئی کے موسیقاروں کو بھی انہوں نے پاکستانی نغموں کی مدد سے ہی متاثر کیا تھا لیکن ستم ظریفی دیکھئے کہ جس ملک نے انہیں عزت، شہرت اور دولت دی انہوں نے اسی سے بیوفائی کی۔

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر327 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
نیّرہ نور ایک اور گلوکارہ ہیں جو اپنی مرضی سے گاتی ہیں۔ دراصل انہوں نے گلوکاری کو کبھی بھی پیشہ نہیں بنایا۔ موسیقی اور گلوکاری ان کا شوق اور مشغلہ ہے، اللہ نے بہت خوبصورت آواز سے نوازا ہے۔ موسیقی کے رموز سے بھی واقف ہیں اور بولوں کی ادائیگی پر مکمل عبور رکھتی ہیں۔ ان کی آواز میں معصومیت، تاثر اور مٹھاس ہے۔ انہیں فلمی صنعت میں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا تھا اور ان کے کئی نغمے بے حد مقبول بھی ہوئے مگر وہ فلمی دنیا سے وابستہ نہ رہیں۔ اس کے مقابلے میں وہ ٹیلی وژن کو آج بھی ترجیح دیتی ہیں۔ لیکن ان کی غیر موجودگی پاکستانی فلمی موسیقی کے لیے سراسر نقصان ہے۔
زبیدہ خانم نے پچّاس کی دہائی میں فلمی موسیقی میں بہت دُھومیں مچائی تھیں اور ان کے گائے ہوئے نغمے آج بھی بے حد مقبول ہیں۔ ان کی آواز کا سوزوگداز، تاثر اور ادائیگی کی نفاست نے انہیں بہت جلد مقبول اور معروف گلوکارہ بنا دیاتھا۔ پنجابی ان کی مادری زبان ہے۔ اس لیے پنجابی گانوں میں وہ کیفیت پیدا کردیتی ہیں لیکن اردو نغموں میں بھی ان کا تلفظ اور ادائیگی قابلِ تعریف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آتے ہی فلمی موسیقی پر چھا گئی تھیں اور دیکھتے ہی دیکھتے چوٹی پر پہنچ گئی تھیں۔ عکاس و فلم ساز ریاض بخاری سے شادی کرنے کے بعد وہ گلوکاری سے کنارہ کش ہوگئیں، یہاں تک کہ فلمی تقاریب میں بھی کبھی نظر نہیں آئیں۔ انہوں نے بھی زمانۂ عروج میں گلوکاری ترک کی تھی جس کی کمی بہت عرصے تک محسوس کی گئی۔ وہ انتہائی خوش و خرّم اور مطمئن گھریلو زندگی گزار رہی ہیں۔ بچے جوان اور صاحب اولاد ہوچکے ہیں۔
عکاس فیصل بخاری ان ہی کے فرزند ہیں جنہوں نے کئی فلموں اور ٹیلی وژن کے سلسلہ وار ڈراموں کی بہت خوبصورت عکاسی کرکے نام پیدا کیا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ایک لحاظ سے یہ فن اور ہنر مندی انہوں نے ورثے میں پائی ہے۔ ان کے تایا جعفر شاہ بخاری پاکستان کے مایہ ناز عکّاس، فلم ساز اور ہدایت کار رہے ہیں۔
زبیدہ خانم فلمی صنعت سے زیرِ تکمیل فلموں میں اپنا کام مکمل کرنے کے بعد رخصت ہوئی تھیں۔ اس کے بعد فلم سازوں اور موسیقاروں نے بہتیری کوشش کی کہ انہیں گلوکاری کی طرف راغب کیا جائے، گلوکاروں کے معاوضوں میں بھی نمایاں اضافہ ہوگیا مگر زبیدہ خانم کسی لالچ میں نہیں آئیں اور انہوں نے اپنے گھر کی دہلیز سے باہر قدم نہیں رکھا۔
پچّاس کی دہائی میں ایک گلوکارہ کوثر پروین بھی تھیں جو اداکارہ آشا پوسلے کی چھوٹی بہن تھیں۔ ابتدائی زمانے کی فلموں میں ان کے گانے ہر فلم میں شامل ہوا کرتے تھے مگر پھر وہ جوان العمری ہی میں دنیا سے رخصت ہوگئیں۔
فلم ’’کنیز‘‘ کی نمائش کو کافی عرصہ گزر چکا تھا اور ہر ایک ہم سے پوچھ رہا تھا کہ اب آئندہ پروگرام کیا ہے۔ فلم بنانا ہمارے لیے کامیاب تجربہ ثابت ہوا تھا۔ فلم کی تکمیل کے دوران میں جو تلخیاں اورپریشانیاں پیش آئی تھیں ان میں زیادہ تر دخل ہماری طبیعت کو بھی تھا۔ ہم ہر کام وقت مقررہ پر اور اپنے پروگرام اور پسند کے مطابق کرنا چاہتے تھے۔ لوگ توہمارے جذبات کا خیال رکھ لیتے تھے اور حتی الامکان ہمارے ساتھ تعاون کرتے رہے تھے مگر قدرت کی ستم ظریفیوں کے سامنے انسان بے بس ہوتا ہے۔ فلم کی تکمیل میں جتنی دیر ہوتی رہی‘ ہماری ذہنی کشیدگی‘ پریشانی اور گھبراہٹ میں بھی اسی قدر اضافہ ہوتا رہا۔ اس زمانے میں ہماری سگار نوشی‘ پائپ نوشی‘ چائے نوشی اور کافی نوشی میں بھی بہت اضافہ ہوگیا تھا۔ وقت بے وقت سونا‘ بے وقت کھانا اور جو مل گیا وہی کھا لینا ہمارے معمول میں داخل رہا تھا۔

دوپہر کا کھانا کھانے کا اکثر ہوش نہ رہتا یا پھر چار پانچ بجے کھایا جاتا اور جو بھی مل جاتا‘ کھا لیتے تھے مگر عموماً ہوٹل اور بازار کا چٹ پٹا‘ مسالے دار اور مرچوں والا کھانا اور نان ہی دستیاب ہوتے تھے۔ سارے دن تمباکو نوشی اور چائے نوشی کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ رات کا کھانا عموماً بارہ ایک بجے تک کھانا بھی روز کا دستور بن گیا تھا۔ رات گئے سونا اور صبح دیر سے اٹھنا یا پھر پروگرام اور شوٹنگ کے مطابق علی الصبح بیدار ہوکر بھاگ دوڑ میں مصروف ہوجانا بھی صحت پر اثر انداز ہوتا جارہا تھا۔ صرف صبح کا ناشتہ تھا جو ہماری امّاں (اللہ انہیں کروٹ کروٹ جنّت نصیب کرے) زبردستی بڑے اہتمام سے ہمیں کرایا کرتی تھیں اور اس ناشتے میں دنیا کی ہر چیز میز پر موجود ہوتی تھی۔ ٹوسٹ‘ انڈے یا آملیٹ‘ پراٹھے‘ بھنی ہوئی کلیجی‘ لہسن کی چٹنی‘ دیسی گھی‘ دلیا‘ پھل‘ کھجوریں‘ دودھ‘ چائے‘ جوس‘ کیک‘ پیسٹری‘ غرضیکہ کھانے کی کوئی چیز ایسی نہیں تھی جو ناشتے کی میز پر موجود نہ ہو۔ جتنی دیر ہم ناشتا کرتے‘ امّاں سامنے والی کرسی پر بیٹھی نگرانی کرتی رہتی تھیں اور ملازموں اور گھروالوں کو مختلف مزید چیزیں لانے کی ہدایات جاری کرنے میں مصروف رہتی تھی۔ ہر چیز اصرار کرکے ہمیں کھلاتی تھیں یہاں تک کہ ہم رونکھے ہوجاتے تھے۔
’’امّاں‘ کچھ ترس کھائیں۔ یہ ناشتا ہے یا دن بھرکا کھانا۔ انسان ایک وقت میں کیا کچھ اور کتنا کچھ کھا سکتا ہے!‘‘
’’بھئی اس کے بعد تم کہاں کھاؤ گے اور کون سا وقت پر کھالو گے۔ لو کھاؤ۔‘‘
’’مگر ان سب چیزوں کا ناشتے سے کیا تعلق ہے۔ صبح صبح یہ سب کیسے کھا لوں؟‘‘
’’تو پھر اور کون سا وقت ہے جو تمہیں کھلاؤں۔ اس کے بعد تو اللہ جانے کس وقت واپس لوٹو گے۔ دن بھر نہ جانے کیا کیا الابلا کھاتے رہو گے۔ کھاؤ گے بھی یا نہیں۔ بازار کا کھانا‘ نان کباب‘ کبھی دن کا کھانا شام کو پانچ بجے۔ کبھی رات کا کھانا بارہ ایک بجے۔ یہ کہاں کا دستور ہے۔ بیٹا اس طرح تمہاری صحت کیسے قائم رہ سکتی ہے۔ نہ وقت پر کھانا‘ نہ سونا‘ نہ ڈھنگ کا گھریلو کھانا‘ بس اب تم چُپکے سے کھا لو اور دیکھو‘ یہ کیک ضرور کھا لینا۔ تمہاری بھانجی کی سالگرہ کا ہے۔‘‘
’’مگر امّاں۔ ناشتے میں کیک کون کھاتا ہے؟‘‘
’’بیٹا! دن کو گیارہ بجے ناشتا بھی کون کرتا ہے اور پھر رات کو بارہ ایک یا دو بجے تک کون باہر رہتا ہے۔ بھئی تمہارا تو ہر کام بے ڈھنگا ہے۔ چائے سے پہلے یہ دودھ ضرور پی لو۔‘‘
’’مگر امّاں۔‘‘ ہم رونکھے ہوجاتے ’’ایک وقت میں یہ سب کچھ‘ اچھا دودھ ہم رات کو پی لیں گے۔‘‘
’’رات کو ایک بجے تم دودھ کہاں پیؤ گے۔ سب جانتی ہوں۔‘‘
یہ امّاں کا پیار اور ممتا تھی جو ہمیں ناشتے کے وقت آئندہ چوبیس گھنٹے کے کھانے کے لیے ہر چیز کھلا دینے پر مُصر تھی۔
’’ذرا شکل تو دیکھو۔ بھئی اس طرح تو جنّات بھی ہوں تو بیمار پڑ جائیں۔ تمہاری صحت بھلا خاک ٹھیک رہے گی۔ جانتی ہوں۔ جب تک بیمار نہیں پڑو گے‘ تم گھر میں کہاں ٹکو گے؟‘‘
یہ بے ڈھنگے معمولات بظاہر تو ہم پر اثرانداز نہیں ہورہے تھے مگر گیس‘ تیزابیت اور معدے کی دوسری خرابیاں اکثر ہم پر اثر انداز ہونے لگی تھیں۔ یہ اور بات ہے کہ ہم لوٹ پوٹ کر چند دوائیاں کھانے کے بعد ٹھیک ہوجاتے تھے لیکن اندر ہی اندر ہم آنے والی بیماریوں کی پرورش کررہے تھے۔
فلم کی پریشانیوں‘ پیسہ دینے والوں کی وعدہ خلافیاں‘ پیسہ لینے والوں کی خاموش نگاہوں کی چُبھن‘ راتوں کی جگائی‘ اس پر طرہ یہ کہ اس زمانے میں ہمارے ایک بڑے بھائی‘ علی نعمان شدید بیمار پڑ گئے۔ یہ ترتیب میں اوپر سے چوتھے نمبر پر تھے۔ ان کی صحت بچپن ہی سے خراب رہا کرتی تھی۔ خاص طور پر سانس کی تکلیف نے انہیں کہیں کا نہ رکھا تھا۔ اس پر ہر وقت چائے نوشی اور سگریٹ نوشی۔ خراب صحت کی بنا پر سکول سے چھٹیاں کرتے رہے‘ امتحانات سے غیرحاضرہوتے رہے یہاں تک کہ میٹرک بڑی مشکل سے کیا۔ اس کے بعد کچھ تو ان کی صحت نے اور کچھ خود انہوں نے مزید پڑھنے سے انکار کردیا۔ کام کاج کی عادت نہیں تھی۔ ویسے دنیا کے ہر شخص کے کام آتے تھے مگر کیا مجال جو خود کوئی کام دھندا کرلیں۔ دوستوں کی محفلیں تھیں اور وہ تھے۔ کبھی جی میں آئی تو ریستورانوں میں منیجر بن گئے اور ریستوران کا دیوالہ نکل گیا۔ کیوں کہ رشتے داروں‘ دوست احباب اور جاننے والوں سے بل ہی وصول نہیں کرتے تھے۔ نئی دلّی کے فیشن ایبل ریستورانوں میں بھی کام کیا مگر زیادہ عرصے نہ چل سکے۔ نوکری چھوڑتے یا نوکری سے نکالے جاتے تو مالک کوبُرا بھلا کہتے ہوئے گھرآجاتے۔
’’ارے بہت گھٹیا ذہنیت کا مالک ہے وہ شخص۔ نہ مروّت‘ نہ اخلاق اور اس کی نگاہوں میں توکوئی لحاظ ہی نہیں ہے۔‘‘
ہمارے سب سے بڑے بھائی اشفاق کہتے ’’اپنی غلطی نہیں مانتے۔ دوسروں کو الزام دیے جاتے ہو۔ وہ کہتا ہے کہ تم نے دیوالیہ نکال دیا ہے اس کا۔‘‘
’’میں نے اس کا کیا نقصان کیا ہے؟ کون سی بے ایمانی یا ہیر پھیری کی ہے؟ ایک ایک پیسے کا حساب موجود ہے۔‘‘
’’وہ کہتا ہے کہ ہر روز درجنوں لوگوں کو مفت کھلاتے پلاتے تھے۔‘‘
وہ صفائی پیش کرتے ’’لو اور سنو۔ امّاں۔ اب تم خود ہی انصاف کرو۔ بھئی فلاں رشتے دار بیوی بچّوں کے ساتھ آگئے‘ فلاں سالہا سال سے جان پہچان ہے۔ اب ان سے کیسے پیسے وصول کرلوں؟ اخلاق‘ مروّت اور شرافت بھی آخر کوئی چیز ہے۔‘‘
’’مگر وہ اس شخص کا کاروبار ہے‘ تمہارا ذاتی بزنس تو نہیں ہے کہ حلوائی کی دکان پر دادا جی کی فاتحہ دینے لگے۔‘‘
’’ٹھیک ہے ٹھیک ہے۔ میں اپنی تنخواہ چھوڑ آیا ہوں۔ باقی جو رقم نکلے گی وہ بھی ایک ایک پائی چکا دوں گا۔ ایسے بدلحاظ آدمی کے ساتھ میرا گزارہ نہیں ہوسکتا۔‘‘
پاکستان بن گیا۔ ہم سب کے ساتھ نعمان بھائی بھی آگئے۔ سب نے کچھ نہ کچھ کیا مگر نعمان بھائی کے معمولات میں فرق نہ آیا۔ اب وہ سگریٹ کے بجائے بیڑی پینے لگے تھے اور سانس کے ساتھ اب کھانسی کی شکایت بھی بڑھ گئی تھی۔ ایک آدھ کام یہاں آکر بھی کیا مگر پھر چھوڑ چھاڑ کر بیٹھ گئے اور باغ بانی میں مصروف ہوگئے۔
(جاری ہے, اگلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں )