فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر327

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر327
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر327

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

فلموں میں توہمارا ناہید سے رابطہ واسطہ نہیں پڑا مگر جن دنوں ہم ایک ایڈورٹائرنگ کمپنی سے وابستہ تھے اس زمانے میں اچانک ناہید اختر کی ضرورت پیش آ گئی۔ ہوا یہ ہے کہ ہمارے ایک بہت بڑے کلائنٹ اپنے نئے صابن کو متعارف کرانے کے سلسلے میں ایک تقریب منعقد کرنا چاہتے تھے جس میں گانے کا پروگرام بھی شامل تھا۔ ہمیں فلمی دنیا سے براہ راست تعلق توڑے ہوئے ایک زمانہ گزر چکا تھا اور اس کوچے میں گزر تک نہ تھا مگر قرعۂ فال ہمارے نام پڑا کہ اس تقریب میں کمپیئرنگ کے لئے معین اختر کو مدعو کیا جائے اور موسیقی کے لئے ناہید اختر کی خدمات حاصل کی جائیں۔ یہ دونوں اس وقت تقاریب اور اسٹیج شوز کی وجہ سے بے حد مصروف فن کار تھے۔ عرصۂ دراز سے معین اختر سے واسطہ تک نہ پڑا تھا۔ ہم نے کراچی فون کر کے بات کی تو وہ انتہائی مصروفیات کے باوجود رضامند ہو گئے معاوصے میں بھی لحاظ نہ کیا مگر یہ شرط رکھی کہ اگر ایک تقریب کے بارے میں دو دن کے اندر تصدیق نہ ہوئی تو وہ آ سکیں گے۔ ورنہ معذرت۔ دو دن بعد پتہ چلا کہ ان کی وہ تقریب کنفرم ہو گئی ہے۔ کوئی اور نام ذہن میں نہیں آ رہا تھا پھر ٹی وی اسٹار شکیل کا خیال آ گیا۔ ان سے رابطہ کیا تو وہ مقرّرہ تاریخ پر ایک دن کے لئے لاہور آنے پر آمادہ ہو گئے۔

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر326 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اب ناہید اختر کا مرحلہ پیش آیا۔ انہیں تلاش کر کے ان کے والد سے فون پر بات کی تو وہ بے حد اخلاق سے پیش آئے۔ پوچھا ’’آفاقی صاحب کیسے یاد کیا۔ کوئی خدمت؟‘‘
ہم نے کہا ’’خدمت بھی ضرور بتائیں گے مگر یہ بات آمنے سامنے ہونی چاہئے۔‘‘ اسی شام وہ ہمارے دفتر آ گئے۔ بہت دیر تک پرانے دنوں کی باتیں یاد کر کے اداس ہوتے رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اب تو فلم کی دنیا ہی بدل گئی ہے۔ عجیب عجیب لوگ، عجیب و غریب باتیں اور نرالے طور طریقے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ہم نے بھی اپنی فلمی مصروفیات کو محدودکر کے ٹیلی ویژن اور تقاریب کو زیادہ وقت دینا شروع کر دیا ہے۔
ہم حرف مدعا زبان پر لائے۔
’’آپ کا حکم کیسے ٹال سکتا ہوں۔ یہ بتائیے کہ تقریب کی تاریخ کیا ہے؟‘‘ ہم نے تاریخ بتائی تو انہوں نے فوراً جیب سے ڈائری نکال کر دیکھی پھر بولے۔ ’’اسی روز فیصل آباد میں ایک تقریب ہے۔ میں نے کنفرم تو نہیں کیا ہے مگر بات قریب قریب طے ہو چکی ہیں۔ لیکن آپ نے اتنے عرصے بعد یاد کیا ہے تو مجھے ایک دن کی مہلت دیجئے میں کل شام تک کنفرم کر سکوں گا۔‘‘
دوسرے دن انہوں نے آ کر تاریخ کنفرم کر دی۔
اب معاوضے کا مرحلہ تھا۔ کہنے لگے ’’آپ تو جانتے ہیں کہ آج کل تقاریب اور اسٹیج شو میں کتنا معاوضہ ملتا ہے۔‘‘
ہم نے کہا ’’ہم واقعی نہیں جانتے۔ البتہ معین اختر سے بات کرنے کے بعد کچھ اندازہ ضرور ہوا ہے۔ مگر آپ فرمائیں۔‘‘
وہ کافی دیر پس و پیش کرتے رہے۔ پھر بتایا کہ جو تقریب میں نے کینسل کی ہے اس کے لئے اتنا معاوضہ طے پایا تھا۔
ہم نے کہا ’’اختر صاحب۔ یہ تو ہمارے بجٹ سے بہت زیادہ ہے۔‘‘
وہ مسکرانے لگے ’’تو پھر آپ جو مناسب سمجھیں مجھے منظور ہو گا۔‘‘
سچ پوچھئے تو اختر صاحب کے ساتھ یہ ہمارا پہلا واسطہ تھا مگر ان کی اعلیٰ ظرفی اور وضع داری نے ہمیں بہت متاثّر کیا۔ ہم نے ایک رقم بتائی اور انہوں نے فوراً سر ہلا دیا مگر اتنا ضرور کہا کہ دیکھئے یہ پروگرام ملتوی یا کینسل نہ ہو ورنہ میرا بہت نقصان ہو جائے گا۔ تقریب کی شام کھانے کے بعد انٹرکانٹی نینٹل کے وسیع ہال میں محفل سجی۔
شکیل صاحب اسٹیج پر موجود تھے۔ ناہید اختر کے سازندے بھی حاضر تھے۔ مگر ناہید دیر سے آئی تھیں۔ اس لئے اوپر ایک کمرے میں کھانا کھا رہی تھیں۔ لوگوں کو بوریت سے محفوظ رکھنے کے لئے اِدھرُ ادھر کے پروگرام شروع کر دیے گئے۔ کئی مقامی فن کاروں کو مدعو کیا گیا تھا مگر اہل محفل کو ناہید اختر کا انتظار تھا۔ ناہید ہال میں داخل ہوئیں تو ایک دم سنّاٹا چھا گیا اور اس کے بعد تالیوں کا ایسا شور مچا کہ خدا کی پناہ۔ دو تین نووارد شوقیہ گلوکاروں کے بعد ناہید اسٹیج پر آئیں تو ہم نے پہلی بار انہیں کسی اسٹیج شو میں فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے دیکھا۔ اسٹیج پر وہ شرماتی لجاتی ہوئی لڑکی نہیں تھی بلکہ ہماری نگاہوں کے سامنے ایک پُراعتماد فن کارہ اپنی آواز کا جادو جگا رہی تھی۔ انہیں حاضرین محفل کے ذوق کا بھی اندازہ تھا اس لئے ہر ایک کی پسند کے مطابق نغمے سنا رہی تھیں۔ انہیں محفل کو سجانے اور مسحور کرنے کا گُر آ گیا تھا۔ جیسے جیسے رات بھیگتی رہی، ناہید کی آواز میں نکھّار آتا رہا یہاں تک کہ رات کے دو بج گئے۔ نہ تو سامعین اٹھنے کے لئے تیار تھے اور نہ ہی ناہید اختر کو باذوق سامعین کی محفل سے رخصت ہونے کی جلدی تھی۔
یہ ناہید اختر سے ہماری آخری ملاقات تھی۔ رفتہ رفتہ ان کی شخصیت میں ایک انوکھی کشش اور دلکشی پیدا ہو گئی تھیں۔ گائیکی پر بھی انہوں نے کافی حد تک عبور حاصل کر لیا تھا۔ انہوں نے پشتو اور پنجابی زبان میں بھی گیت گائے اور داد حاصل کی۔ نیم کلاسیکل ہو، مغربی ہو، لوگ دھن ہو یا امیر خسرو کی کافی۔ انہوں نے سبھی کے ساتھ پورا انصاف کیا۔
)چھاپ تلک سب چھین لی رے توسے نیناں ملائی کے
یہ ایسا نغمہ ہے جسے اور بھی کئی گلوکاراؤں نے گایا ہے مگر ناہید اختر نے اس پر اجارہ داری حاصل کی۔ یہ گانا اتنا مقبول ہوا کہ ٹیلی ویژن والے جب کسی پروگرام میں جان پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ ناہید اختر کا یہ نغمہ سنا دیتے ہیں۔ انہوں نے ہر قسم کے گیت اور نغمے گائے ہیں اور کئی ایوارڈز بھی حاصل کئے ہیں۔ مثلاً ان گانوں کو ذرا یاد کیجئے۔
)اللہ ہی اللہ کیا کرو دُکھ نہ کسی کو دیا کرو
جو دنیا کا مالک ہے نام اسی کا لیا کرو
پرویز ملک کی فلم ’’پہچان‘‘ کے اس گانے کا تاثّر اور پاکیزگی اپنی مثال آپ ہے۔
فلم شمع میں ان کا یہ نغمہ بھی یادگار ہے اور اس کی گائیکی پر انہیں بہترین گلوکارہ کے ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔
کسی مہرباں نے آ کے مری زندگی بنا دی
اس کے علاوہ
ساون کے گیت جھوم کے آئے
ون وے ٹکٹ
دیکھا نہ تھا کبھی ہم نے یہ سماں
لال میری پت رکھیو
کبھی کبھی جانے کیا ہو جاتا ہے
جان من جان من بولو نہ
آتی ہے پون، جاتی ہے پون
زندہ رہے تو کیا ہے جو مر جائیں ہم تو کیا
پیار کا ناتا ٹوٹے نہ کبھی۔
یا پھر یہ ملّی نغمہ۔۔۔
ہمارا پرچم
یہ پیارا پرچم
یہ پرچموں میں عظیم پرچم
عطائے ربِ کریم پرچم
اور بھی کتنے ہی نغمے ایسے ہیں جنہیں ناہید اختر کی آواز نے امر بنا دیا ہے۔
اب جب کہ ناہید اختر ایک داستانِ پارینہ بن چکی ہیں۔ ان کی آواز آج بھی زندہ ہے اور زندہ رہے گی۔ وہ ان معدودے چند فنکاروں میں سے ایک ہیں جو عین عروج کے زمانے میں بھرا میلہ چھو ڑ کر رخصت ہوگئے۔
پاکستان کی فلمی دنیا میں کئی گلوکارائیں ایسی بھی ہیں جو مقبولیت حاصل کرنے کے بعد اچانک فلمی صنعت کو خیرباد کہہ کر رخصت ہوگئیں۔ مثلاً آئرن پروین۔ ساٹھ کی دہائی میں یہ ایک اُبھرتی ہوئی کرسچن گلوکارہ تھیں۔ ہماری فلم سزا میں بھی انہوں نے ایک مزاحیہ گیت گایا تھا مگر پھر غائب ہوگئیں۔ شاید اس وجہ سے کہ انہیں زیادہ مقبولیت اور پذیرائی نہ مل سکی۔(جاری ہے)

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر328 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں