کانوں کے اندر آہنی ریل کی پٹری بچھائی گئی، پانی با ہرلے جانے کیلئے حوض نما ڈبے لگائے جاتے، ڈبوں کی مدد سے کوئلہ بھی باہر لایا جاتا تھا

 کانوں کے اندر آہنی ریل کی پٹری بچھائی گئی، پانی با ہرلے جانے کیلئے حوض نما ...
 کانوں کے اندر آہنی ریل کی پٹری بچھائی گئی، پانی با ہرلے جانے کیلئے حوض نما ڈبے لگائے جاتے، ڈبوں کی مدد سے کوئلہ بھی باہر لایا جاتا تھا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:محمدسعیدجاوید
 قسط:7
پھرکانوں کے اندر آہنی ریل کی پٹری بھی بچھائی گئی، جس پر بیک وقت پانی با ہرلے جانے کے لیے کئی حوض نما ڈبے لگائے جاتے تھے۔ اور ایسی ہی گاڑی میں لگائے گئے ڈبوں کی مدد سے کوئلہ بھی باہر لایا جاتا تھا۔ اس ساری گاڑی کو باہر زمینی سطح پر کئی تنومند گھوڑے رسوں اور چرخیوں کی مدد سے کھینچتے تھے یوں جب ایک وقت میں کافی مقدار میں پانی کا اخراج ہونے لگا تو کام کی رفتار بھی قدرے بڑھ گئی۔اس سے وقتی طور پر کام تو چل نکلا لیکن کانکنوں کو کچھ خاص مزہ نہیں آرہا تھا اور و ہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں اس مسئلے کے مؤثر حل کی تلاش میں لگے رہے۔ 
ریل کی پٹریوں پر کوئلوں کے ڈبوں کو گھوڑوں کی مدد سے ادھر اْدھرلے جانے کا انتظام تو 17 ویں صدی کے وسط ہی سے چل رہا تھا۔ تب وہاں تھامس نیوکومین نام کا ایک انجینئر ہوا کرتا تھا جو اپنی ورکشاپ میں کانکنی میں استعمال ہونے والے متفرق اوزار بنایا کر تا اور ان کی مرمت کا کام بھی کیا کرتا تھا۔ کانوں کے مالکان ایک وفد بنا کر روتے پیٹتے اس کے پاس پہنچے اور اس سے درخواست کی کہ وہ انھیں کوئی ایسی مشین بنا دے، جس سے کانوں میں سے براہ راست پانی کے اخراج میں کچھ تیزی پیدا ہو جائے۔اس سلسلے میں انھوں نے مل جل کر اسے تحقیق اور تجربات کے لیے کچھ رقم بھی اکٹھی کر کے دی۔اس نے ان سے وعدہ کیا کہ وہ جلد ہی اس پر کچھ کرے گا۔ 
تب تک بھاپ کی بے پناہ طاقت کا کسی حد تک اندازہ ہو چکا تھا۔ سنتے ہیں کہ کام کاج سے فارغ ایک شخص نے چائے کا پانی چولہے پر چڑھایا، اور جب پانی ابلنے لگا تو کیتلی کی ٹونٹی سے ایک دباؤ کے ساتھ بھاپ نکلنے لگی، وہ اچھا بھلا بیٹھا ہوا تھا، اسے نا جانے کیا سوجھی کہ اس نے ٹونٹی کا منہ بند کرکے اس بھاپ کو روکنے کی کوشش کی، بھاپ تو رْک گئی لیکن پھریکا یک کیتلی کا ڈھکن ایک دھماکے سے اْڑا اور چھت کی طرف چلا گیا۔ اس تجربے کے دوران وہ بیوقوف آدمی اپنا ہاتھ تو جلا بیٹھا لیکن ایک سوال اس کے ذہن کے کسی گوشے میں چپک کر رہ گیا تھا کہ آخر یہ کون سی طاقت تھی جس نے اتنا جوش مارا کہ ڈھکن کیتلی سے اپنا برسوں پرانا رشتہ ناطہ توڑ کر اوپر پرواز کرگیا۔ دوستوں سے ذکر ہوا،انھوں نے پہلے تو تبسم کیا پھرتجسس کے عالم میں تفصیل پوچھی اور پھرجب اس پر کچھ اور تجربات کیے گئے تو انھیں بھاپ کی اس بے پناہ طاقت کا اندازہ ہوا۔ سوچا کیوں نہ اس قوت کو قابو میں لا کر اس سے کچھ اچھا کام کروایا جائے۔ غرض اس پر دھڑا دھڑ آزمائشی طور پر تجربات شروع ہوگئے۔ 
تھامس نیوکو مین کو بھی اس بات کی بھنک پڑی تو اس نے بھی بھاپ کی اس نو دریافت طاقت پر مزید جانچ پڑتال جاری رکھی اور تھوڑی بہت محنت کر کے بالآخر ایک پسٹن والا بھاپ کا انجن بنا ڈالا اور پانی کھینچنے والا ایک پمپ اس طرح سے اْس کے ساتھ منسلک کرکے کان کے اوپر نصب کردیا کہ جب اس بڑے سے پمپ کا پسٹن بھاپ کی طاقت سے اْوپر کھنچتا تو وہ اپنے ساتھ کان کے اندر سے ڈھیرسارا پانی بھی کھینچ کر باہر لے آتا تھا جس کو ایک اور راستے سے خارج کر دیا جاتا اور پسٹن ایک بار پھرنیچے چلا جاتا۔ پسٹن کے بار بار سلنڈر کے اندر اْوپر نیچے ہونے سے پانی کامسلسل بہاؤ جاری رہتا اور یوں نیچے کام کرنے والے مزدور تسلی سے کْھدائی کرتے رہتے تھے۔ 
نصف صدی تک اسی طرح کام چلتا رہا، پھراس انجن کو ایک اور انجینئر جیمس واٹ کے حوالے کیا گیا کہ وہ کسی طرح اس کی استعداد اور کارکردگی میں اضافہ کرنے کے لیے مزید تگ و دو اور تفکر کرے۔ اس نے کچھ ٹھوکا پیٹی کی اور بالآخر ایک ایسا بھاپ کا انجن بنانے میں کامیاب ہو گیا جس کا شمار ریل گاڑی کے آبا ؤ اجداد میں کیا جاتاہے۔ اس کی خوبی یہ تھی کہ اس میں بھاپ  پوری طرح ضائع نہیں ہوتی تھی بلکہ اس کو بار بار اور مسلسل استعمال میں لایا جا سکتا تھا۔
 (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -